پھڑ لو ،پھڑ لو

آپ کا شہرِ لاہور میں موٹرسائیکل چلانا معمول ہو اور نیلے رنگ کی وردی میں ملبوس ایک مخلوق سے آشنائی نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ اگر آپ لاہور کے شہری ہیں اور اس مخلوق سے ابھی تک واسطہ نہ پڑنے کے دعویدار ہیں تو دیر مت کیجیے ابھی اپنا نام ورلڈ گنز بک آف ریکارڈز میں درج کرالیجیے۔آپ حامی تو بھریں گنیز بک کا نمائندہ خود آپ جیسے نایاب شہری کے پاس ہوگا اور آپ کو اس اعزاز سے نوازتے ہوئے آپ کی زیارت سے بھی مستفیض ہوگا۔چلیں آئیں اس مخلوق کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔


٭ آپ سڑک پر بے خیالی میں موٹر سائیکل پر اپنی منزل کی جانب گامزن ہوں تو اچانک آپ کے سامنے ایک کڑیل جوان نیلے رنگ کی وردی میں ملبوس نمودار ہوگا۔اس کا نمودار ہونا یوں اچانک ہوگا کہ آپ درودِپاک کا ورد کرتے ہوئے جہاں بریک پر پاؤں دبائیں گے وہیں پر اپنی زبان کو دانتوں میں دباتے جائیں گے۔اسی اثنا میں اگر بریک نے کام کر دیا تو ٹھیک ورنہ آپ کے ہاتھ اس نیلی مخلوق کے گھٹنے دبارہے ہوں گے۔

٭ بریک لگتے ہی کاغذات کے مطالبے پر آپ کا دماغ کسی’’ نجات دہندہ ‘‘کی تلاش میں ہو گا۔اگر تو نجات دہندہ’’پیٹی بھائی‘‘ ہواتو خلاصی یقینی ورنہ نجات دہندہ سے بھی تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
٭موٹرسائیکل کے ساکن ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ جھپٹ کریوں چابی اُچک لی جاتی ہے کہ اقبال کے شاہین کی عملی صورت دکھائی دیتی ہے جس کے لیے اقبال نے کہا تھا
پلٹنا جھپٹنا،جھپٹ کر پلٹنا۔۔۔۔ جیب گرم رکھنے کا ہے اک بہانا(اقبال سے معذرت کے ساتھ)

یہ ساراعمل اس اعتماد کے ساتھ کیا جاتاہے کہ جیسے برسوں کے بچھڑی موٹرسائیکل کو دیکھتے ہی فرطِ اضطراب سے لپٹ جانے کو دل کر رہاہو۔
٭ اسی دوران اگر آپ کا اندر کا شیر دھاڑے اور آپ جرائت کرتے ہوئے اپنے جرم کی وضاحت مانگنے کی سنگین غلطی کے مرتکب ٹھہریں تو آپ کے چودہ طبق روشن کردیے جائیں گے۔آپ پر جو مہذب اور پڑھے لکھے شہری کاجنون سوار ہوگا وہ یوں زمین بوس ہو گا کہ جیسے ریت کا محل اور آپ بھیگی بلی بنے خود سے نظریں چرا رہے ہوں گے۔ اگر ’’کانوں کی درگت‘‘سے استفادہ نہ ہو پایا ہو تو’’ باقاعدہ درگت‘‘سے ضرور استفادہ ہوگا۔
٭بہت سے شہری خواتین کے ساتھ موٹرسائیکل پر خود کو محفوظ تصور کرتے تھے مگر اب وہ دن گئے ’’جب میاں مٹھو فاختیں اڑایا کرتے تھے‘‘ آپ کی خواتین کے ساتھ ایسی عزت افزائی ہوگی کہ آپ پانی پانی ہوجائیں گے۔ وہ صاحب جو بیگم پر بے جا حکم چلاتے ہیں اگر بیگم سمیت دھر لیے گئے تو ان کی ’’چوہدراہٹ‘‘توگئی اور جو حکم پر چلتے ہیں وہ تو چلتے بنیں گے۔

٭ کچھ میرے جیسے طالب علم صحافی اپنا رعب جمانے کے لیے اپنے تعارف کے ساتھ کارڈ پیش کرتے ہوئے کسی نجات دہندہ کو کال ملا کر موبائل بڑھائیں تو اس مخلوق کا رویہ بڑا عجیب ہوتا ہے۔ایک تو 50روپے کے لوڈ سے بمشکل 30کا بیلنس ملتا ہے اوپر سے یہ مخلوق موبائل پکڑ کر اپنی جیب میں ڈال لیتی ہے اور ہمارا دل ماتم کر رہاہوتاہے۔بس چند منٹ کی دیر ہوتی ہے نجات دہندہ بھی ہیلو ہیلو کرتا چپ اور بیلنس بھی ہوا ہو جاتا ہے اور نتیجتاََ ہم پھر اس مخلوق کے رحم و کرم پردیدنی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

٭ بہت سے لوگ ڈرائیونگ کے دوران کالے چشمے پہنے ہوتے ہیں، بارسوخ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ چشمے بھی اسی مخلوق سے بچنے کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں کیونکہ انکی یہ خام خیالی ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بلی سے بچا جاسکتاہے۔

٭ہیلمٹ بہت ہی کارآمد شئے ہے جسے ہر موٹر سائیکل سوار کو استعمال میں لانا چاہیے لیکن یہاں بھی اسے فقط اس مخلوق سے بچاؤ کے پیشِ نظر اٹھائے پھرتے ہیں ورنہ تربوز کے خول نے کیا خاک سر کی حفاظت کرنی ہے۔اگر کہیں سے سلیمانی ٹوپی میسر آجائے تو منہ مانگی قیمت پر خریدی جائے گی کیونکہ عمر بھر کی رسوائی اور ذلت سے چھٹکارا مل جائے گا۔

جی تو معزز قارئین آپ بخوبی اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ میری مراد اس مخلوق سے کیپٹن(ر)محمد سہیل چوہدری صاحب کی ٹریفک وارڈن پولیس ہے جس نے آجکل پورے لاہور میں’’ پھڑلوپھڑلو‘‘آپریشن جاری کیا ہوا ہے۔یہ آپریشن اس کامیابی سے پھیلا ہوا ہے کہ آپ اپنے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے سے پہلے سر نکال کرگلی میں وارڈن کو تلاش کرتے ہیں۔موٹرسائیکل سوار تویوں دھرے جارہے ہیں کہ جیسے’’ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ کے مفرور مجرم ہوں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ آپریشن ’’ریوینیو‘‘اکٹھا کرنے کے لیے شروع کیا گیاہے۔ میری عوام سے اپیل ہے کہ اس کارِخیر میں حصہ لیتے ہوئے آگے بڑھیں فی کس 10روپے خیرات کر دیں تو رسوائی سے جان بخشی ممکن ہے آخر یہ بھی ہمارا قومی ادارہ ہے جس کی کفالت اورسگنلزکی مرمت ہم سب پر فرض ہے۔

Fareed Razaqi
About the Author: Fareed Razaqi Read More Articles by Fareed Razaqi: 15 Articles with 11133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.