اگر نعوذ باللہ ہم مسلمان نہ
ہوتے پھر بھی تقاضائے عقل و فطرت یہ تھا کہ ہم اپنے دفاع کے لئے اٹہ کھڑے
ہوتے، اور اتنی زیادہ ذلت و خواری برداشت نہ کرتے ایک ارب مسلمانوں کے لئے
یہی ذلت کافی ہے کہ تیس لاکہ یہودیوں کے سامنے جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے
ت علیھ” ضرب م الذلة و المسکنة “ (۴۳) اب ان پر ذلت اور محتاجی کی مار پڑ
گئی ۔
سر ذلت جھکائے ہوئے ہیں۔ روز بروز ان کے لئے میدان ہموار کرتے جا رہے ہیں
اور دست بستہ ان کے احکام و فرامین کی بجا آوری کے لئے تیار ہیں۔ کیا اس
ذلت کو برداشت کرنے کے لئے محض یہ بہانہ کافی ہے کہ امریکہ اسرائیل کا حامی
ہے؟ کیا خدا ہمارا حامی و مدد گار نہیں؟ پھر یہ ذلت کیوں؟
خدا کی نصرت و حمایت کے وعدے بر حق ہیں، لیکن ہمارا اس پر ایمان نہیں، ہم
شرط ایمان ( ان کنتم مومنین ) سے کورے ہیں۔ ہم اس آیت کے مصداق بن گئے ہیں
کہ ” ارضیتم بالحیوٰة الد نیا من الاخرة ۔۔۔۔الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما
ویستبدل قوما غیرکم ۔۔۔۔۔“ ( ۴۴) ایمان والوں تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم
سے کہا گیا کہ راہ خدا میں جہاد کیلئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے
کیا تم آخرت کے بدلے زندہ گانی دنیا سے راضی ہوگئے اگر تم راہ خدا میں نہ
نکلو گے تو خدا تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمہارے بدلے دوسری
قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہو کہ وہ ہر شے پر
قدرت رکھنے والا ہے
تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے اس نظام سے تعاون
کریں اور اپنے اسلامی فریضے کے پیش نظر قومیت، نسل، زبان اور جغرافیائی
اختلافات سے صرف نظر کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے جھنڈے تلے متحد و ہم آہنگ ہو
کر اسلام و مسلمین کے ظاہر و جابر دشمنوں کا مقابلہ کرنے کو اٹھ کھڑے ہوں،
عزت کی موت کو ذلت کی زندگی سے بہتر سمجھیں، تاکہ جہاد کے شیریں ثمرات سے
لطف اندوز ہوں اور خداوند عالم کے دست شفقت و محبت کے سایے میں اپنے دشمن
پروار کریں اور خود اس لمس ربانی کی تصدیق کریں :” ید اللہ فوق اید یھم “ ۔ |