قدرتی وسائل کا اِسراف کب تک جاری رہے گا……؟

ہمارا دورایک طرف، Productivityکے سارے رکارڈ توڑ چکا ہے ،وہیں دوسری طرف اِسراف و فضول خرچی کی بلندیاں سر کرتا جا رہا ہے۔فضول خرچی اور اسراف کے معاملے میں اِنسانوں کاکوئی طبقہ ایسا نہیں بچا ہے جو اسراف کے اِس’’کار خیر ‘‘ میں ملوث نہ ہو۔کیا دین دار کیا دُنیا دار، سب کے سب اِس منحوس فیشن کے دل دادہ بنے ہوئے ہیں۔ پلیٹ پونچھ کر کھانے کی تلقین کرنے والے تک پانی کے اسراف کی عظیم مثالیں قائم کرتے ہیں۔کن کن مدوں میں اسرا ف کا عمل جاری ہے، یہ ایک ایسا پینڈوراز باکس ہے کہ اگر اسے کھول دیا جائے تو اسراف کی داستانو ں کا کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ اِس لیے ہم اِس گفتگو کو محدور رکھنا چاہتے ہیں اور صرف ایک یا دو مثالوں کے ذریعہ بتانا چاہتے ہیں کہ اِس وقت انسانوں نے اسراف کی کیسی خطرناک روش اختیار کر رکھی ہے۔

مثلاًپانی اور بجلی کے سلسلے میں اسراف کی کیا صورتحال ہے اِس کا اندازہ کرکٹ کے کھیل میں استعمال ہونے والے پانی اور بجلی کی اُن تفصیلات سے لگایا جاسکتا ہے جو اِس وقت اخبارات اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہمارے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں۔ اِن تفصیلات کو آٹے میں نمک کے برابر تصور کیا جانا چاہیے ورنہ کن کن میدانوں میں کس کس قسم کی فضول خرچیا ں جاری ہیں، اِس کا علم تو اﷲ ہی کو ہے اور ہو سکتا ہے، جس نے اِنسانوں کو یہ نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اِمسال جو آئی پی یل میچس کھیلے گیے یا ہر سال کھیلے جارہے ہیں اور جن کھیل کے میدانوں میں کھیلے گیے اُن کو کھیل کے قابل رکھنے کے لیے تقریباً۸ کروڑ لیٹر پانی استعمال کیا گیا جبکہ ابھی بارش شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ اوریہ سلسلہ تب سے جاری ہے جب سے یہ میچس شروع ہوئی ہیں۔چنانچہ ہر سال اِسی مقدار میں کرکٹ کے میدانوں کے Maintenanceکے لیے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اِسی طرح بجلی کے اسراف کا یہ عالم ہے کہ آج دن اور رات کا تصور ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ کھیل کے میدانوں پرکھیلوں سے لطف اندوز ہونے والے ناظرین گواہی دیں گے کہ پورے ماحول کو کس طرح روشنی سے نہلا دیا جاتا ہے جیسے رات نہیں دن کا منظر ہو۔اِن میدانوں میں رات پر دن کا گمان ہونے لگتا ہے۔یہاں تک کہ صبح۷ بجے جب سورج کی حقیقی روشنی پھیل جاتی ہے تودُنیا کا بیشتر حصہ نیند کی آغوش میں رہتا ہے۔اور جب رات آتی ہے تو ہمارے مالMall ، سینیما، شاپنگ پلازاز رات گیارہ بارہ تک کھلے رہتے ہیں۔رمضان میں تو مسلم محلوں کا گویا د ن نکل آتا ہے ۔ شاید یہ مہینہ عبادت کا نہ ہوکر رات بھی گھومنے پھرنے کھانے پینے اور شاپنگ کیلئے ہی مخصوص ہو۔یہ عیاشیاں صرف امیر ملکوں تک محدود نہیں رہ گئی ہیں، بلکہ غریب ممالک کی عیاشیاں بھی امیر ملکوں کو مات دینے پر تلی ہوئی ہیں۔

کسی کھیل کے میدان کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے پانی کے مناسب و معتدل استعمال کے نام پرکس طرح اﷲ کی اِس نعمت کا اسراف کیا جاتا ہے، یہ دیکھنے کی چیز ہے۔مثلاًمیدان کی سطح پر گھانس کی پرت کی آبیاری پر کس قدر پانی خرچ ہوتا ہے؟ یہ دراصل انحصار کرتا ہے اِس بات پر کہ گھانس کی کونسی قسم میدان پر اُگائی جاتی ہے، اور کون سے موسم میں اِسے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ؟جس نوع کے پانی کے ٹینکس اس مقصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اُن میں عموماً پچاس ہزار لیٹرس پانی سماتا ہے، اور یہ اِس طرح کے میدانوں کی آبیاری کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ ایک معیاری کرکٹ یا فٹ بال گراؤنڈ پرفی Application ، کم سے کم اسی ہزار تا ایک لاکھ لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔اور اندازاً دو تا تین اپلیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی ہر ہفتے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لیٹر تا تین لاکھ لیٹر فی ہفتہ پانی خرچ کیا جاتا ہے، تاکہ میدان کے تخریب شدہ حصوں کی مرمت ہو سکے۔ پھر پانی کی مقدار کا دارومدار موسم پر بھی ہوتا ہے ،اگر گرم ہواؤں کا موسم ہو تو زیادہ پانی درکار ہوتا ہے اور سرد ہوائیں چل رہی ہوں تو کم پانی خرچ ہوتا ہے۔معیاری فٹ بال گراؤنڈ کم از کم پچاس ہزار لیٹر فی اپلیکیشن کا تقاضہ کرتا ہے۔ اور اِسے اندازاً فی ہفتہ تین اپلیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔یعنی ایک پچ کو صحت مند اور اچھی حالت میں رکھنے کے لیے ایک لاکھ پچاس ہزار لیٹر فی ہفتہ پانی کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ ایک مناسب سائز کی ٹینک ضروری Pumpingکے ساز و سامان کے ساتھ پچاس ہزار ڈالر تا ستر ہزار ڈالر قیمت والی ہوتی ہے۔ یعنی خرچ صرف پانی پر نہیں ہوتا بلکہ اُن Equipmentsپرخاصہ خرچ آتا ہے, جنہیں آبیاری کے مراحل میں استعمال کیا جاتا ہے۔

باضمیر لوگ اب خود اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ کھیل کاراتوں میں کھیلا جانا کسی بھی پہلو سے انسانیت کے مفاد میں ہے؟ جہاںFlood Lights کے استعمال کے بغیر رات کا یہ کھیل ممکن نہیں ہوتا ؟خصوصیت کے ساتھ آئی پی یل کرکٹ مقابلوں کے پس منظر میں یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ زیادہ تر رات میں ہی کھیلے جاتے ہیں اور ظاہر ہے اِس کے لیے لائٹ کا جو انتظام کیا جاتا ہے اُس پر سینکڑوں کلو واٹ بجلی صرف کی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا رات کو کھیلنا اس قدر ضروری ہوگیا ہے کہ اس پر خرچ ہونے والی بجلی کی انرجی کا کوئی لحاظ ہی نہ کیا جائے ، جبکہ نہ صرف دیہی بلکہ کئی شہری علاقے آج بھی ایسے ہیں جہاں لوگ روشنی کو ترستے رہتے ہیں اورلوڈ شیڈنگ کے نام پر پورے شہر کو اندھیروں کے حوالے کر دیا جاتاہے۔!!ایک اخلاقی سوال یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ ، ایسے وقت میں جب کہ شہری لوگ، انرجی اور بجلی کے مآخذوں کو بچانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں، کیا ، وقت نہیں آیا کہ کھیل کے ارباب ِاقتدار بھی رات کے اِن بے مصرف کھیلوں کے انعقاد سے انکار کر دیں؟آخر اِن لوگوں کے بجلی کا منبع اپنے اسٹیڈیم کے لیے کہاں سے دستیاب ہوتا ہے؟کیایہ عوامی گرڈGrid یا کارپوریشنCorporations سے مہیا نہیں کیا جاتا ہے؟ اگر جواب ہاں!ہے تو پھر اس کی قیمت کا حساب کتاب کیا ہے؟اگر نہیں!ً اور یہ خود اسٹیڈیم کے جنریٹرس سے فراہم کیا جارہا ہے تو اس کے ایندھن کا منبع کیا ہے اور اس کی قیمت کس طرح متعین کی جاتی ہے؟ یہ سوالات منہ پھاڑے اربابِ اِقتدار سے جواب طلب کرتے ہیں۔
رہی اُن ممالک کی بات جنہیں مسلم ممالک کہا جاتا ہے ، وہ بھی اسراف کی اِس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔ وہ بھی اب اِن سب سے آگے نکل جانے کے درپے نظرآتے ہیں۔یہ اُسی مسلم اُمت کے لوگ ہیں، جن کے مالک اﷲ نے سورۂ تکاثر(۱۰۲) میں اِنہیں تاکید فرما دی تھی کہ:’’پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔‘‘(۸)۔ یہاں تک کہ فضول خرچی کو ’’شیطانی عمل‘‘ قرار دیا گیا۔جیسا کہ سور ۂ بنی اسرائیل یا سورۂ اسراء(۱۷) میں یہ الفاظ ملتے ہیں: ’’رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو ، اورفضول خرچی نہ کرو۔‘‘(۲۶)۔فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔‘‘(۲۷)۔سورۂ اعراف (۷) میں کہا گیا ہے:’’اے بنی آدم ، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہوجاؤ اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ، اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(۳۱)۔ یہ’’ حد سے تجاوز کرنا‘‘آخر کیا ہے ، فضول خرچی ہی تو ہے جو ہماری عبادگا ہوں میں دن اور رات جاری ہے، پانی کے اسراف کی شکل میں یا بجلی کے اسراف کی شکل میں۔مساجد کی زینت کے نام پر اِس کی تعمیر اور آرائش و زیبائش میں بغرضِ ثوابِ جاریہ دولت مندوں کی جو دولت لگتی ہے، اِس پر اگر ’’حد سے تجاوز کرنے‘‘ کی بات کا انطباق نہیں ہوتا ہے تو پھرہمیں کوئی اﷲ کا بندہ اِس آیت کی تشریح کر کے ہمیں مطمئن کر دے ، ہم اس کے شکر گزار ہوں گے۔

جہاں تک پانی کے اسراف کی بات ہے توپانی اﷲ کی ایک عظیم نعمت ہے، اِس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔عجیب بات ہے کہ جو شے انسانی زندگی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ، ہم انسان اْسی نعمت کا اسراف بہت زیادہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جیسا کہ پانی جو وافر مقدار میں اﷲ کی طرف سے نازل کردہ ایک نعمت ہے،اور اِسی پانی کو بے دریغ خرچ کیا جانا اِنسانوں کا عام طرز عمل رہا ہے، بلکہ اِن کی فطرت سی بن گئی ہے۔

مگر افسوس کہ ہم آج اس عظیم نعمت کی بے قدری کرتے کبھی نہیں جھجکتے ہیں،اور اس کو بڑے پیمانے پر ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے، جیسا کہ آج کل یہ بات عام ہوتی جارہی کہ ہم بوتل میں منرل پانی کو خرید کر پینے لگے ہیں، تو ایسا پانی ہم کس قدر سنبھال کر استعمال کرتے ہیں اور اس کا بے جا اسراف برداشت نہیں کرتے۔پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم بلاقیمت ملنے والے پانی کی اس قدر بے حرمتی کرتے ہیں؟ اصل میں ہم لوگ مزاجاً مفت کی نعمت کی قدر نہیں کرتے، اگر یہی نعمت ہمیں روپے پیسے خرچ کرکے حاصل کرنی پڑے تو ہم کسی قیمت اس کو ضائع کرنا پسند نہیں کریں گے۔جس کو حشر کے دن پر یقین ہے ،وہ کبھی اِس عظیم نعمت کا اسراف ہرگز برداشت نہیں کرے گا ۔ سورۂ تکاثر(۱۰۲) میں اﷲ کا راشاد ہے کہ:’’ پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن، ان نعمتوں کے بارے میں۔‘‘(۸)چاہے پھر وہ چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی نعمت ہی کیوں نہ ہو۔

قدرتی نعمتیں کو ہی دیکھیے،اِن میں سے ہمیں کسی نعمت پر بھی کیش ادا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلکہ ہمارا ربِّ کریم تو اپنے فضل وکرم کو انسانوں پر نچھاور کر تا رہتا ہے ، اور اپنے فیض ِ بے پایاں کے تحت اِن نعمتوں کی سپلائی جاری رکھتا ہے ۔یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ ہم ان نعمتوں کو کبھی اہمیت دیتے ہی نہیں اور انہیں بہت معمولی سی ، عام سی شے سمجھتے رہتے ہیں، بلکہ کبھی تو اِن کی طرف دھیان تک نہیں جاتا۔مثلاً ہم میں سے ہر فرد روزانہ جس قدر آکسیجن استعمال کرتا ہے،اُس کی مقدار تین سلینڈر کے برابر ہوتی ہے اور اِس کی قیمت تین ہزار پانچ سو روپے سے زائید بنتی ہے۔یعنی سالانہ ہر فرد پر تقریباًتیرہ لاکھ روپے کی آکسیجن اپنی بقاکے لیے استعمال کرتا ہے۔ سوچیے اگر یہ اﷲ کی عطا نہ ہوتی اورقیمت کے عوض فروخت ہوتی تویہ دنیا دولت مند ترین لوگوں کے بھی کسی کام کی نہ ہوتی۔تفصیل کی ضرورت نہیں، عقل مند لوگ اِس کے مزید عواقب پر خود غور کرکے متوقع صورتحال کا ادراک کر سکتے ہیں، جس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔یہ سراسر اﷲ کا فضل و احسان ہے کہ اُس نے نہ صرف انسانوں کو بلکہ ہر ذی روح کی آکسیجن کا انتظام کر دیا ہے۔ہم میں سے کتنوں کو اﷲ کا یہ عظیم تر احسان یاد آتا ہے کہ بے ساختہ سر اُس کی بارگاہ میں بار تشکر سے جھک جائیں……!!

پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث بھی موجود ہیں مثلاً:عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ہوا ،جب کہ وہ وضو فرمارہے تھے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (پانی کے اسراف کو دیکھ کر )عرض کیا " اے سعدؓ! یہ کیا اسراف ہے (یہ کیسی زیادتی ہے)؟ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف (کا اندیشہ )ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں! اگرچہ تم بہنے والی نہر پرہی (کیوں نہ بیٹھے وضو کر رہے) ہو۔‘‘(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)۔اِسی طرح حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔(سنن ابن ماجہ:جلد اول:باب:وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت)۔

ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے ، چاہے وضو دریا کے کنارے پر ہی کیوں نہ بیٹھ کرکیا جائے ،مگر افسوس کہ ہم اﷲ کی عبادت کی ابتداء پانی کے اسراف سے کرتے ہیں اور اِس کا مظہر ہے وضوکے دوران پانی کا بے تحاشا استعمال۔ہماری مساجد سے وضو کے نام پر جو پانی بہتا ہے ، اُس سے ہماری قوم کے ذوقِ اسراف کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔کیا ہم وضو کے دوران اپنے ہاتھ ، چہرہ ، پاؤں کو دھوتے وقت پانی کی ٹوٹی کو حسب ضرورت بندیا جاری نہیں رکھ سکتے؟غسل کے وقت بھی جب جسم پر صابن لگایا جاتا ہے، تب بھی نل کو کھُلا رکھنے کی عادت عالمگیر ہے۔پھر یہ’’ شاوَر‘‘ کیا ہے، جو آج کل ہر باتھ رُوم کی تعمیر کا لازمی حصہ ہے،یہ پانی کی اسراف کا موثر ہتھیار ہی تو ہے۔اوریہ بیت الخلاؤں میں پانی سے فلش کرنے کا جوجدید سسٹم ہے وہ نہ جانے کتنا پانی ہماری Over Tankسے بہا لے جاتا ہے ۔!گھروں میں خواتین بھی پانی کو ضائع کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔برتن دھوتے وقت پانی کا اسراف عام ہے۔ہماری جدید واشنگ مشینیں بھی پانی کے اسراف کی زبردست معاون ثابت ہوئی ہیں۔دو عددکپڑے بھی دھونا ہوتواِن مشینوں کو کئی بکیٹس پانی کی ضرورت پڑ تی ہے ورنہ مشینیں کام کرنا بند کردیتی ہیں۔گھر کی صفائی کے وقت بھی پانی بے تحاشہ بہادیا جاتا ہے۔پانی کا یہ اجتماعی زیاں آج ہر قوم کا خاصہ ہے۔یہ تواسراف کی صرف دو ایک مثالیں ہیں ، پتہ نہیں حضرتِ اِنسان کہاں کہاں اپنی خر مستیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اِن موضوعات پر ہمارے قلم کار قلم اُٹھائیں اور بتائیں کہ کیسے ، کہاں اور کس شے کااسراف ہو رہا ہے اور اس کا تدارک کیسے ہو۔ اﷲ ہم سب کو اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نعمتوں کی ناقدری کرنے اور اس کو ضائع کرنے سے ہمیں بچائے۔آمین۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ یومِ آخرت پر سے ہمارا ایمان ہی اُٹھ گیا ہے؟ خدا نہ کرے۔!کوئی ہے ہمارے در د کو محسوس کرنے والا ؟ کوئی ہے جسے فی الواقع آخرت کی فکر دامن گیر رہتی ہے؟کوئی ہے جسے کبھی پانی پربھی رحم آتا ہو؟
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83284 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.