سفید کاغذ پہ سیاہ نکتہ

ایک استاد نے دیوار پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کیا اور اس کے درمیان میں مارکر کے ساتھ ایک نکتہ ڈالا۔ پھر اپنا منہ طالب علموں کی طرف کرتے ہوئے پوچھا... آپ کوکیا نظر آرہا ہے؟؟؟ سب نے یک زبان ہوکر کہا... ”ایک سیاہ نکتہ“... اس پر استاد نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سب سے کہا، کمال کرتے ہو تم سب اتنا بڑا سفید کاغذ اپنی چمک اور پوری آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے مگر ایک مہین سا سیاہ نکتہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے۔ جی ہاں دنیا اسی کا نام ہے اور لوگ تو ایسا ہی کمال کرتے ہیں۔ آپ کی ساری اچھائیوں پر آپ کی کمی یا کوتاہی کا ایک مہین سا سیاہ نکتہ غالب آجاتا ہے اور پھر کوئی نہ کوئی ”اٹارنی جنرل“ اٹھ کر آپ کی طرف اشارہ کرکے اس سیاہ نکتے کی نشاندہی کرتا ہے اسے وہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہوا وہ سفید بڑا کاغذ دکھائی نہیں دیتا جس پر کہ چھوٹا سا سیاہ نکتہ آپ کی کمی یا کوتاہی کی وجہ سے بن جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اور برٹش ایمپائر کی شکست دریخت کے بعد برطانیہ میں پاکستانی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ خصوصاً1950ء اور1960ء کی دہائی میں جب پاکستان نے کامن ہیلتھ کی رکنیت حاصل کی تو لیبر کی کمی کو پورا کرنے کے لئے پاکستانیوں کو برطانیہ آنے کی دعوت دی گئی۔ اس وقت لنکاشائر اور یارک شائر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں جبکہ مڈلینڈز میں مینوفیکچرنگ کے کارخانوں میں اور لوٹن اور سلاوٴ میں فوڈ پراسیسنگ انڈسٹری اور کار کی فیکٹریوں میں پاکستانی لیبر نے محنت و مشقت کا آغاز کیا۔ اس وقت نائٹ شفٹوں اور کم مطلوبہ گھنٹوں میں کام کرنے کے حوالے سے پاکستانی مشہور تھے۔

1960ء کے دوران پڑھے لکھے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد برطانیہ آئی جن میں کوالیفائڈ استاد، ڈاکٹر اور انجینئر شامل تھے۔ 1960ء میں ہی زیادہ تر میڈیکل سٹاف پاکستان سے ریکروٹ کیا گیا جوکہ این ایچ ایس کے لئے کام کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشرتی، سماجی، اقتصادی اور اجتماعی تعمیر کے مراحل میں تھا۔ اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس تعمیر میں ان کے شانہ بشانہ تھی۔ یہ پاکستانی ہی تھے کہ جنہوں نے برطانیہ کی تعمیر و ترقی کے لئے رات دن کام کیا یہاں کی فیکٹریوں کاپہیہ چلایا، سفید فام اکثریت رات کی شفٹس کرنے سے گھبراتی تھی جبکہ پاکستانی نہ صرف رات کو کام کرتے تھے بلکہ چھٹی کے روز بھی اوور ٹائم کرنے پر انہیں کوئی عار نہ تھا۔ برطانیہ کی معاشی حالت کو سدھارنے میں ان پاکستانیوں کابھی ایک رول تھا لیکن افسوس کہ یہ سفید کاغذ آج کسی کونظر نہیں آرہا ہاں البتہ ایک چھوٹا سا سیاہ نکتہ ضرور مرکز نگاہ بن چکا ہے۔

2012ء میں یونیورسٹی آف ایسکس نے اپنے ایک مطالعے کی بنیاد پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ کے پاکستانی سفید فام مقامی لوگوں سے بھی زیادہ برطانوی ہیں۔اس مطالعے میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کے خیالات اسی ملک کے حوالے سے بڑے واضح دکھائی دیتے ہیں۔ 83فیصد مسلمان برطانوی شہری ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں مقابلتاً 79فیصد دیگر جنرل پبلک کے۔ 82فیصد مسلمان برطانیہ کے مختلف اورمخلوط علاقوں میں رہائش پذیر ہونا پسند کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں 63فیصد غیر مسلم برطانوی اس طرح کا ماحول پسند کرتے ہیں۔ 77فیصد مسلمان برطانیہ کے ساتھ اپنی شناخت کومضبوطی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں جبکہ وسیع تر آبادی کا صرف 50فیصد اس شرط ہر پورا اترتا ہے۔

برطانویوں (سفیدفام اکثریت) کےمسلمانوں کے بارے میں کیا خیالات ہین وہ بھی اس رپورٹ میں سامنے لائے گئے ہیں 47 فیصد برطانوی اس ملک میں آباد مسمانوں کو خطرہ سمجھتے ہیں۔
صرف 28 فیصد برطانویوں کا یقین ہے کہ مسلمان برطانوی معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
52فیصد کا خیال ہے کہ مسلمان مسائل پیدا کرتے ہیں۔
45فیصد نے یہ بات تسلیم کی کہ وہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد برطانیہ میں زیادہ ہوگئی ہے۔
45فیصد کواس بات سے تشویش لاحق ہوتی ہے اگر ان کے علاقے میں کوئی مسجد تعمیر ہو رہی ہو۔
58فیصد برطانوی اسلام کو انتہاپسندی کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں دونوں طرف کے خیالات بڑے واضح ہیں اس کے باوجود کہ برطانیہ میں آباد مسلمان اور پاکستانی اپنے آپ کو کسی برطانوی سے بھی زیادہ برطانوی سمجھتے ہیں مگر پھر بھی اُنہیں "آوٹ سائیڈر" ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ برطانوی معاشرے کے کینوس پر جو تصویر بنائی گئی ہے اُس میں مسلمانوں اور خصوصاۤ پاکستانیوں کو "آوٹ سائیڈر" ہی پینٹ کیا گیا ہے۔

1955میں اس ملک میں پاکستانیوں کی تعداد صرف 10000تھی اور آج 3۔1 ملین ہے اُس دن سے آج تک ہم اپنے آپ کو برطانوی معاشرے کا ہی حصہ سمجھتے آرہے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں کیونکہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں ہماری محنت بھی شامل ہے ہم نے بھی اس ملک سے پیار کیا ہے اور اسے ایک ماڈرن ملک بنانے مین اپنا حصہ اپنے جثے سی بھی زیادہ ڈالا ہے کاش اس ملک کے ساسی رہنما اور دانشور اُس سفید اُجلے کاغذ کو بھی دیکھ لیں جس پر اہک سیاہ نکتہ اِس ملک کے اٹارنی جنرل کو نظر آگیا ہے۔۔
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 32563 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More