سستے بازار،سستے ڈرامے

کیا یہ منیجمنٹ ہے،کیا یہ حکومت ہے،کیا کسی ریاست کی رٹ ہے،یہاں ایک سے ایک بڑ امداری اور فنکار موجود،ہر کوئی آج کا دن گزارنے کا خواہشمند کل کی کل دیکھی جائے گی،ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں،کبھی سستے تندور ،کبھی سستے رمضان،کبھی مینار پاکستان کے نیچے بیٹھ کے دستی فین المعروف ہمت فین سے جھلاں گی پکھیاں،نت نئے روز نیا ڈرامہ اور تھیٹر،آج ساری مشینری ،ساری انتظامیہ اور تو اور عزت مآب اور نازک ترین مخلوق ایم پی اے اور ایم این ایز و منسٹر تک عوام کے غم میں دبلے پتلے ہوئے جا رہے ہیں مگر کہاں صرف سستے بازاروں میں،میڈیا کے کیمروں کی چکا چوند میں ،ان کی آمد سے فقط چند منٹ قبل صاف کیے گئے اور چونا ڈالے بازاروں میں کبھی کوئی ایک آدھ سیب اور کبھی آلو اور پیاز اچھالتے دکانداروں سے بھا ؤ تاؤ کرتے حقیقت میں عوام کی غربت کا مذاق اڑاتے آ ج کل عام نظر آئیں گے،اگر کہپیں ریاست ہوتی اس کی رٹ ہوتی تو کسی مخصوص جگہ پر سطحی اورسستے ڈرامے لگانے کی ضرورت کبھی پیش نہ آتی،کیوں جو چیز سستے بازار میں کم ریٹ پر ملتی ہے وہ عام مارکیٹ میں مہنگی کیوں ہے، یا باہر بیٹھا دکاندار ناجائز منافع کما رہا ہے یا سستے بازار کے اندر بیٹھا نقصان پر اشیاء بیچ رہا ہے،اگر باہر والا ناجائز منافع کما رہا ہے تو کیوں کما رہا ہے کس کی اجازت سے کما رہا ہے اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہے یعنی اندر والا نقصان پر اپنی چیزٰیں بیچ رہا ہے تو اس کا نقصان کون پورا کر رہا ہے کیا حکومت،اگر حکومت نقصان پورا کر رہی ہے تو کس طرح،پیسہ کہاں سے اور کس ذریعے سے آرہا ہے اور کن کن ہاتھوں سے ہو کر آ رہا ہے،کیا اس پیسے کی تقسیم بھی ان ہی قابل فخر سپوتوں ایم این اے اور ایم پی کے ذریعے ہی کی جا رہی ہے،یا اس کے لیے کوئی الگ ونگ یا ادارہ قائم کیا گیا ہے بالکل اسی طر ح جیسے سستی روٹی کی ذمہ داری ایفی ڈرین فیم حنیف عباسی کے ناتواں کندھوں پر ڈالی گئی ہے،اگر ایم پی ایز اور ایم این ایز نے کے لیے کرنے کا کام فقط سستے بازاروں کا دورہ اور فوٹو سیشن ہی رہ گیا ہے تو جناب باقی انتظامیہ ،مجسٹریٹوں ،مارکیٹ کمیٹیوں کے اہلکاروں اور ڈی سی اوز کو فارغ کریں،کچھ تو عوام کی گردنوں سے بوجھ اترے،اب آئیے ذرا سستے بازاروں کی طرف،اول تو ان بازاروں میں اشئیاء کی کوالٹی انتہائی ناقص اور گھٹیا ہوتی ہے،غلاظت اور گندگی بھی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے،جو ریٹ گورنمنٹ کے کارندے فکس کرتے ہیں اس پر میسر اشیاء کی کوالٹی تھرڈ کلاس سے بھی کم سطح پر ہوتی ہے،صفائی صرف اسی وقت کی جاتی ہے جب کوئی ایم این اے ،ایم پی اے یا منسٹر دو دن قبل اعلان کردہ خصوصی اور اچانک دورے پر آتا ہے،اس کے علاوہ دکانوں کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ پوری تحصیل اور شہر تو کجا کسی ایک دیہہ کی ضروریات بھی شاید پوری نہ کر سکیں،گذشتہ روز پنجاب حکومت کے صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم سیتھی نے چکوال میں موجود سستے بازار کا دورہ کیا،صبح سویرے انفارمیشن آفس سے محترم حاجی شاہد صاحب کا فون آگیا کہ آج کا دن آپ کا ہمارے ساتھ ہے،منسٹر صاحب تشریف لارہے ہیں،ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ حاضر ہیں ٹائم وغیرہ پتہ کرنے کے بعد مقررہ وقت پر ہم سستے بازار میں پہنچھ گئے،تنویر اسلم کی یہ کوالٹی ہے کہ وہ وقت کے پابند ہیں وقت مقررہ پر بازار کا دورہ کیا اور اﷲ کے حوالے ہو گئے،سستے بازار میں چار فروٹ کی دکانیں ،پانچ سبزی کی دکانیں ،ایک چکن شاپ ہے اور ایک ہی گوشت کی دکان ہے،میں اس وقت سے اب تک یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا اس سے بڑا ڈرامہ اور فراڈ عوام سے ممکن ہے کہ جس شہر اور گردونوح کی آبادی لگ بھگ چار لاکھ ہو اس کے عوام کے لیے لگایا گیا یہ بازار ایک بھیانک مذاق نہیں تو اور کیا ہے،میں نے ابھی تلہ گنگ کلر کہار،ڈھڈیال اور چوا سیدن شاہ کے یہ سستے بازار نما ڈرامے نہٰیں دیکھے لیکن میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ بھی اس سے کم نہیں ہوں گے،کیا ہم سے بڑی کوئی بدقسمت اور بدنصیب قوم کہیں اور روئے زمین پر موجود ہو گی،جہاں درویشی بھی عیاری اور سلطانی بھی عیاری،کیا ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری صرف سستے بازاروں کا دورہ کرنے کی ہے عام بازار میں بیٹھے گراں فروش اور ذخیرہ اندوز کو سات خون معاف کون ہیں ان کی گرفت کون کرے گا ان سے عام آدمی کو نجات کون دلائے گا،اس کے لیے شاید آسمان سے کسی فرشتے کا انتظار کیا جائے کیوں کہ ڈرامہ بازوں مداریوں کی دوسری بے شمار ترجیحات ہیں مگر ہم عوام ان میں کہیں بھی نہیں،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے،،،،،،،،،،،،،