بہت دنوں کی بات ہے میں ساتویں جماعت میں پڑھتا
تھامیرا ایک کزن بھی میرا کلاس فیلو تھا۔میرے گاؤں کا سکول ہیڈ تونسہ بیراج
کے ساتھ تھا اور اکثر اوقات گرمیوں میں ہمارے استادِ محترم عبدالرشید قریشی
صاحب ہماری کلاس کو پکنک پر ہیڈ تونسہ بیراج پر لے جاتے تھے۔اِس دفعہ بھی
معمول کے مطابق گرمیوں میں ہمارے استاد صاحب ہمیں پکنک پر لے گئے اور اِس
دفعہ انکی چھ سالہ بیٹی جویریہ بھی ساتھ تھی۔ہم لوگوں نے دریا کے کنارے
کیمپ لگا دیا ،سورِج کی تمازت اور گرمی کی شدت کی وجہ سے چند لڑکوں نے دریا
کے کنارے نہانا شروع کر دیا جن میں میرا کزن بھی شامل تھا۔کھیلتے کھیلتے
چند گز آگے گئے تو ایک بھنور نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ،میرا دوست اور
کزن چکر میں ڈوبنے لگے اور اس وقت میں نے اپنے استاد صاحب کو کپڑوں سمیت
پانی میں چھلانگ لگاتے دیکھا،میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ کیسا انسان ہے جسے
اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ہے،جسکی چھ سالہ بیٹی اسکی آنکھوں کے سامنے کھڑی
ہے اور موت کا بھنور سامنے دو زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔لیکن میں اس وقت
سمجھنے سے قاصر تھا،کیونکہ وہ آج کا استاد نہیں تھا،وہ محب ِوطن اور
معمارِقوم تھے۔انھوں نے تعلیم کے نام پر کاروبار نہیں کھول رکھا
تھا،شاگردوں کو بچوں کا درجہ دینا انکا شیوہ تھا۔انکا مقصد پیسوں سے محلات
کھڑے کرنا نہیں بلکہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا۔اسی لیے تو دو
زندگیاں بچ گیئں کیونکہ وہ استاد سے زیادہ ایک شفیق باپ تھے۔ |