سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کی بارہویں اور دسویں
کلاس کے نتائج آچکے ہیںاور ہمیشہ کی طرح لڑکیوںنے لڑکوںپر بازی ماری
۔بارہویں میں مجموعی طور پر 82%طلبا و طالبات پاس ہوئے ۔ اس میں لڑکیاں
87.98% اور لڑکے 77.78% کامیاب ہوئے ۔ اورامسال گزشتہ سال کے مقابلے 15.81%
زیادہ طلبہ امتحان میں شریک ہوئے ۔دسویں کے امتحان میں کامیابی کا مجموعہ
98.79%ہے جب کہ گزشتہ سال کے مقابلے امسال 6.67% زیادہ طلبہ و طالبات
امتحان میں شریک ہوئے ہیں۔ اگر مسلم طلبہ و طالبات کے رزلٹ کو دیکھا جائے
تو مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ خاص کر اردو میڈیم اسکولوں کا رزلٹ حیران کن ہے
۔ دسویں کلاس کا نتیجہ ایک آدھ اسکولوں کو چھوڑ کے100% ہے اور بارہویں کا
بھی تقریبا 80% ہے ۔ یہ اس لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے کہ اس میں اللہ تعالی
کے کرم کے بعد ان کی اپنی لگن ،محنت اور اساتذہ کی کوشش شامل رہی ہیں ورنہ
حکومت اردو میڈیم اسکولوں کے ساتھ جو برتاﺅ کر رہی ہے اس سے یہ کامیابی
حاصل کرنا ،ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔ کیوں کہ ایسے اسکولوں میں اساتذہ
کرام ، نصابی کتابوں کی وقت پر فراہمی ، بجلی،پنکھے ،ڈیسک اور دوسری بنیادی
ضرورتوں کا فقدان رہتا ہے۔اگرچہ اس میں بورڈ امتحان کے خاتمے اور ’ سی جی
پی اے گریڈسسٹم‘ کے لاگو ہونے کا بھی دخل ہے جس میں طالب علم کی سالانہ
کارکردگی پر اسکول کے اساتذہ نمبر دیتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک تحریری
امتحان ہوتا ہے ۔جن کے نمبرات رزلٹ میں جوڑے جاتے ہیں جس سے پاس ہونے کے
چانس بڑھ جاتے ہیں ۔مگر اس سے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام میں
بھی محنت کرنے کا جذبہ کم ہوا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی صلاحیت اور لیاقت میں
گراوٹ ہو رہی ہے۔اس کا اثر ہائر ایجوکیشن میں نمایا ں طور پر پڑے گا ۔ایسے
میں والدین اور اساتذہ کرام کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ شروع سے ہی اس
پر توجہ دیں اور امتحانات کے لئے تیار کرائیں۔
امتحانات کا لفظ سنتے ہی بچے بچیوں کے ذہنوں میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے
اور یہ خوف اساتذہ کو بھی ہوتا ہے ۔ کیوں کہ بچوں کی ناکامی سے ان کے
ذریعہِ معاش کا خون ہو جاتا ہے۔ بچوں کے لئے امتحانات سے فرار اتنا ہی
ناممکن ہے جتنا کہ موت سے فراراور یہ موت سے کم، امتحان سے زیادہ خوف کھاتے
ہیں ۔نیند ،بھوک سب اڑ جاتی ہے ،ذہنی طور سے پریشان اور ڈیپریشن کا شکار
رہتے ہیں پھر رزلٹ خراب آنے پر کمزور دل والے خودکشی تک کر لیتے ہیں۔دسویں
اور بارہویں کا رزلٹ آتے ہی طلبہ و طالبات کی خودکشی کی خبریں سننے کو ملنے
لگی ہیں۔مثلا ویشالی (دہلی)، ورنیکا (اترپردیش)،پرینکا (مظفر پور)ان لڑکیوں
نے اپنا خراب رزلٹ دیکھ کر خود کو موت کے حوالے کر دیا۔ابھی اس کا سلسلہ
جاری ہی ہے ۔کرائم رپورٹ کے مطابق 99% مرنے والوں کی عمر 12-18 سال کی ہوا
کرتی ہے جو امتحان کے دباﺅ یا رزلٹ آنے کے بعد خودکشی کرتے ہیںاور ہر سال
ان کی تعداد تقریبا100 سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس میں جہاں ایک طرف ہمارا تعلیمی
سسٹم ذمہ دار ہے وہیں دوسری طرف اس میں والدین بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کر
رہے ہیں۔چند تجاویزدرج ذیل ہیں جس کے ذریعہ بچے بچیوں کے دلوں سے امتحانات
کا خوف دور کیا جاسکتا ہے۔
بچے بچیوں کی تعلیم میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتا ہے۔یہ گیلی مٹی کی
طرح ہوتے ہیں آپ ان کو جس سانچے میں ڈھالیں گے وہ اس میں ڈھل جائیں گے۔ ان
کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، ان کے احساسات و جذبات کو سمجھنا اور ان کو اہمیت
دینا نہ صرف انھیں متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے اثرات بعد کی زندگی میں بھی
نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔والدین عمومایہی سمجھتے ہیں کہ بچوں کو بہترین
لباس ، تعلیم ، روپیہ اور آسائشِ زندگی دے دو تو فرض ادا ہو گیامگر یہ بھول
جاتے ہیں کہ بچوں کے بھی جذبات و احساسات ہیں ۔اب اگر بچہ کسی پریشانی کا
ذکر کرے تو فرمایا جاتا ہے ارے بھائی تم کو دنیا جہاں کی ساری آسائش مہیا
کر رکھی ہے پھر کیا کفرانِ نعمت ہے کہ تم خوش نہیں ہو اور پڑھائی میں
دلچسپی نہیں لے رہے ہو؟چلئے صاحب بچہ چپ ہو گیا اب وہ آپ سے کوئی بات شیئر
نہیں کرے گا ۔وہ تو آپ سے وقت مانگ رہا تھاکہ اپنی باتیں کہہ سن سکے۔ اس کا
پڑھائی پرخراب اثر ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے میں انفرادی فرق نمایاں رول ادا کرتا
ہے ۔ایک ہی گھر میں بچے، بچیاں ایک دوسرے سے ذہنی،جسمانی،نفسیاتی،خصوصی
صلاحیت اور دلچسپی وغیرہ میںمختلف ہوا کرتے ہیں۔ والدین کو اس فرق کو
سمجھنا چاہیے اور سب سے ایک جیسی امید نہیں رکھنا چاہیے لیکن عموما والدین
اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں اوربچوں کی ناکامی یا غلطیوں پر ان کے
ہم عمروں کی مثالیں دیتے ہیں جیسے عمر کو دیکھو کتنا پڑھتا ہےہمیشہ کلاس
میں فرسٹ آتا ہے ،ایک تم ہو کبھی فرسٹ نہیں آئے یا فلاں کو دیکھو اس نے
فلاں ٹسٹ نکال لیا ایک تم ہواس طرح کی نکتہ چینی،ہم عمروں کی مثالیں یا
توہین آمیز کلمات سے بچوں کی خود اعتمادی اور قوتِ فیصلہ کا خاتمہ ہو جاتا
ہے اور وہ والدین کو طعنہ دینے والا،ہر وقت ڈانٹنے والا سمجھنے لگتا ہے۔ماں
باپ کے جلد غصہ آنے کی وجہ ان کا بچوں کو اس وقت بیس پچیس سال کا نوجوان
سمجھنا ہے یا اپنے معیار پر جانچنا ہے مگر ان کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اس
وقت کی عمر میں وہ بھی ایسے ہی تھے اور ان کا یہ توقع رکھنا کہ بچے بہت جلد
اپنی کمزوروں پر قابو پا لیں گے ،ایک بڑی بھول ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کی وجہ سے تیزی سے تبدیل ہوتی جا
رہی ہے ۔ پرانے اقدار اس نئے ماحول کا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں۔نئے اور
پرانے حالات میں مطابقت پیدا کرنا والدین کے لیے مشکل ہو گیا ہے جس کے
نتیجہ میں یہ لوگ اپنے خیالات وافکار زبردستی بچوں میں ٹھونستے ہیں اور اس
کی فطرت کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس سے بچوں کی شخصیت تباہ ہو جاتی ہے
اور وہ زندگی بھر اپنی فطرت سے لڑتے نظر آتے ہیں ۔ان میں کم خوابی،احساسِ
کمتری ،عدمِ تحفظ اور بے بسی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ان تمام کاباتوںکا
اثر ان کی تعلیم پر پڑتا ہے۔
عموما والدین بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینے دیتے یا اگر
کسی نے لیا تو ناراض ہونے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔خاص کر مدرسے
میں پڑھنے والوں کے والدین اس سے مکمل طور سے غافل ہوتے ہیں۔نتیجے میں اکثر
و بیشتر بچوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں مل پاتا اور مختلف
طرح کے قواعد و ضوابط میں لگی بندھی مشینی زندگی کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں
دم توڑ دیتی ہیں اور مدرسے سے فراغت کے بعد جب وہ باہر کی دنیا میں قدم
رکھتے ہیں تو احساسِ کمتری کا شکار ہو کر منہ چھپائے پھرتے ہیں ۔ غیر نصابی
سرگرمیوں کے لیے وقت کی فراہمی،حوصلہ افزائی ، معیاری تعاون ،چیلنج اور
مقابلہ کی دعوت دینے والا ماحول ،معلومات اور صلاحیتوں کا مناسب استعمال
ضروری ہے ۔
اس کے علاوہ والدین کو بچوں پر غیر ضروری دباﺅ نہیں ڈالنا چاہیے کہ بیٹا
ہماری ساری توقعا ت تم سے ہی ہیں ،تم ہی اس گھر کے کمانے والے ہوگے اورساری
بہنوں کی شادی تمہارے ہی ذمے ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کی باتوںسے بچے دباﺅ
میں آجاتے ہیں یا ڈپریشن اور گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔پھر رزلٹ خراب
آیا تو کمزور دل والے خودکشی کر لیتے ہیں اور والدین زندگی بھر پچھتاتے اور
روتے ہیں۔اس لیے ان کو ذہنی طور پر پرسکون رہنے دینا چاہیے۔
بعض والدین بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں یا زبردستی پڑھنے پرمجبور کرتے ہیں
۔ان کاپورا زور’ نمبرات یا پوزیشن ‘پر ہوتا ہے اور بچوں کی صلاحیت پر ان کی
توجہ نہیں ہوتی ہے۔اس سے بچوں میں خوف پیدا ہوجاتاہے پھر وہ امتحانات سے
ڈرنے لگتے ہیں اور امتحان آتے آتے یا تو وہ بیمار پڑ جاتے ہیں یا ان کے
اندر گھبراہٹ،بے چینی،بھوک کا نہ لگنا ،ڈر اور خوف بیٹھ جاتا ہے۔اور رزلٹ
آنے تک وہ سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔جب کہ اصل چیز صلاحیت ہوتی ہے۔اکثر دیکھا
گیا ہے کہ اسکولوں میں جن بچوں کی پوزیشن آتی ہے وہ جب کالج یا یونیورسٹی
میں انٹرنس دیتے ہیں تو ناکام ہو جاتے ہیں اور جن بچوں کا شمار پوزیشن
ہولڈر میں نہیں ہوتا تھا وہ آسانی سے انٹرنس نکال لیا کرتے ہیں۔
بعض والدین بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق مضامین دلاتے ہیں ،چاہے بچہ اس کو
پسند کرے یا نہ کرے۔اس طرح سے وہ کہیں نہ کہیں اپنی ناکامی کو بیٹے کے
ذریعہ کامیابی کی شکل میں تبدیل کرنا چاہتے ہیںمگر اس کے نتیجے میں بچہ
پڑھائی میں کمزور ہوتا ہے کیو نکہ اس کو اس مضمون میں دلچسپی نہیں ہوتی
ہے۔اس لیے والدین کومضامین یا کورس کا انتخاب بچوں پر ہی چھوڑ دینا
چاہیے،البتہ رہنمائی ضرور کر دینی چاہیے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ والدین کو بچوں کے احساسات کی نفی کرنے کے بجائے اس کو
تسلیم کرنا چاہیے کیوں کہ جب احساسات کی نفی کی جاتی ہے تو بچے ہمت ہار
دیتے ہیں اور اگران کی پریشانیوں کے احساسات کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ
اپنا رویہ تبدیل کر لیتے ہیں اور آئندہ بہتر طرزِ عمل اختیار کرتے
ہیں۔اورنہ ہی ان پر تنقید اور نصیحتوں کے حملے کریں ،اس سے ان کو ذمہ داری
تسلیم کرنا اور مسئلہ پر سوچنا مشکل ہو جاتا ہے۔اگر ان کی خواہشوں کو
تصوراتی شکل میں پیش کیا جائے تو ان کو حقیقت کا سامنا کرنے میں آسانی ہوتی
ہے۔کسی غلطی پر ان کو مجرم نہ ٹہرائیں نہ ہی مذاق اڑائیںبلکہ صرف مسئلہ
بیان کریں اور اپنے احساسات سے آگاہ کریں یا متبادل طریقہ بتائیںاس سے وہ
خود بخود اپنا رویہ تبدیل کر لیں گے۔اور ان کی خوبیوں کا تعین نہ کریں بلکہ
ا س کی وضاحت کریںاس سے ان کو تحریک ملے گی۔بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی
مشکلوں کو حل کرنے کی کوشش کریں اور اس میں ان سے تجاویز اور مشورے
مانگیںپھر اس میں سے بہتر کی طرف رہنمائی کریں ۔اگرچہ یہ باتیں دیکھنے میں
معمولی لگتی ہیں مگر اس سے بچوں کو خوشی ملتی ہے اور ان کو سیکھنے کو ملتا
ہے جس سے ان کو امتحانات میں آسانی ہوتی ہے۔ |