زمانہ قدیم سے ہی ترسیل کا عمل
چلا آرہا ہے جو ہر دور میںترقی کے زینہ طے کر رہا ہے۔آج ترسیل کا عمل ہماری
روز مرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے ۔بیسویں صدی کے وسط میں کمپیوٹر کی
ایجاد نے روایتی ترسیل کو ترقی دے کرا لیکٹرانک ترسیل میں تبدیل کر دیا۔تیز
تر اور آسان پیغام رسانی کے پیش ِ نظر مغربی ممالک میں حکومتی اداروں کی
جانب سے تحقیقی عمل ہوتا رہا ۔خاص طور سے امریکہ کے "ARPA" (Advance
Resarch Project Agency)کے سائنسدانوں نے ۰۶۹۱ میں نیٹ ورکنگ کا جال فوجی
ہیڈکواٹراور ان کے اداروں میں پھیلایا جس کی غرض یہ تھی کہ ضروری ہدایات و
معلومات بسرعت پہنچایا جاسکے ۔پھرانٹرنیٹ ۲۸۹۱ میں عالمی سطح پر کارگر ہوا
۔ اور ۰۹۹۱ میں ’یورپین ہائی انرجی فزکس لیبریٹری‘ نے ایک ایسے سافٹ ویر کو
فروغ دیا جس کی مدد سے کسی بھی طرح کی معلومات کو انٹرنیٹ پر تلاش کیا جا
سکتا ہے اور اس کا نام ’ورلڈ وائڈویب‘ رکھا گیا ۔اس ویب یعنی جال نے پوری
دنیا کو اپنے دائرے میں لے لیا ۔ ۰۹۹۱ میں ہی انٹرنیٹ عوام کے پاس آگیا اور
اس کے ساتھ ہی دنیا ایک گلوبل ویلج (Global Village) کی شکل اختیار کر گئی۔
انٹرنیٹ دراصل عالمی طور پر پھیلا ہوا کمپیوٹروں کا ایک جال ہے جس میں
کروڑوں کمپیوٹر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جب آپ اپنا کمپیوٹر انٹرنیٹ
سے جوڑتے ہیں تو آپ بھی اس جال کا ایک حصہ بن جاتے ہیں اور اب آپ اس جال سے
جڑے ہوئے دوسرے کمپیوٹر سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور بھیج سکتے ہیں
۔کمپیوٹر کو ٹیلی فون لائن،کیبل لائن اور سٹیلائٹ وغیرہ کے ذریعہ آپس میں
ایک دوسرے سے جوڑا جاتاہے۔یہ بالکل آزاد نیٹ ورک ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرانی
ہو گی کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے ہر شخص اس سے جڑ سکتا ہے اور اس میں اپنی
مرضی سے ڈاٹا کا اضافہ کر سکتاہے پھر بھی اس پورے نظام کی تکنیکی دیکھ بھال
کے لیے’ ICANN ‘نامی ادارہ قائم ہے جس کا ہیڈکواٹر کیلیفورنیا (امریکہ )
میں قائم ہے ۔ جس کو تین بڑے ادارے’ انٹرنیٹ سوسائیٹی،انٹرنیٹ آرکیٹیکچر
بورڈ اور انٹرنیٹ انجینیرنگ ٹاسک بورڈ ‘مل کر چلا رہے ہیں جن میں پوری دنیا
کے ممالک کے نمائندے شامل ہیں ۔
انٹرنیٹ کے استعمال کنندوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی ایک وجہ
یہ بھی ہے کہ اب انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے لیپ ٹاپ اور وائی فائی جیسی
ٹکنالوجی ہے اور اس سے بھی آسان اور سستی ٹکنالوجی یعنی ٹو جی اور تھری جی
ہے جس کے ذریعہ موبائل میں انٹرنیٹ کا استعمال ہو رہا ہے جس کو دنیا ایک
بڑی آبادی استعمال کر رہی ہے ۔International Telecommunication Union کے
سروے کے مطابق ہندوستان کی جملہ آبادی میں 10.5فیصدی حصہ انٹرنیٹ استعمال
کرتا ہے ۔اور اگر پوری دنیا کی بات کی جائے ہندوستان کا شمار تیسرے نمبر پر
ہوتا ہے اس سے آگے پہلے نمبر پر چین اور دوسرے نمبر پر امریکہ کا نام آتا
ہے ۔چنانچہ اب بجا طورپر ہندوستان میں انسان کی بنیادی ضرورت کا نعرہ ’روٹی
کپڑا مکان او ر انٹرنیٹ‘ ہونا چاہیے۔
انٹرنیٹ موجودہ زمانے کی سب سے اہم ایجاد ہے ۔جس کا وجود انسان کی مزیدترقی
اور معلومات کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہے ۔ ہر شئے کا استعمال کارآمد تب ہی
ہو سکتا ہے جب اس کو استعمال کرنے والا اپنی استعداد اور شئے کی افادیت کے
اعتبار سے کام میں لائے۔بیمار کو دوا سے شفا تب ہی مل سکتی ہے جب اس کا
استعمال صحیح وقت اور ٹھیک مقدار میں ہو۔ چنانچہ اگر انسان کی نیت صحیح ہے
او ر اس کو مفید معلومات حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے انٹرنیٹ بہت کارآمد ہے
مگر اس کی نیت صحیح نہ ہو تو غلط اور مخرب اخلاقی مواد بھی انٹرنیٹ پر
موجود ہے ۔اس طرح سے انٹرنیٹ جہاں اچھی معلومات کا ذریعہ ہے وہیں فحش
لٹریچر اور جنسی ہوس سے متعلق مواد ،فلم،وویڈیو وغیرہ کا خزانہ بھی ہے ۔
انٹرنیٹ کے فوائد:انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے
اگرچہ ہم مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔ہم نے مذہب اور سائنس کو الگ
کر دیا ہے جب کہ کسی زمانے میں ہم لوگ سائنس کے میدان میںیورپ والوں سے آگے
تھے ۔ آپ ﷺ کے فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے یہ بھی
ہے کہ فاصلے سمٹ جائیں گے ۔جس کی دو شکلیں واضح طور پر سامنے آتی ہےں ۔اول
یہ کہ نقل و حمل کی ترقی کہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگے لگا
۔چنانچہ آج پوری دنیا کا سفر چوبیس گھنٹوں میں ممکن ہے اور دوم یہ کہ ذرائع
ابلاغ کی ترقی تو اب ٹیلی گرام ، ٹی وی ،ٹیلی فون ،موبائل اور انٹرنیٹ کی
ایجادات نے اس میدان میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم
ایمیل،ای کامرس،ای بزنس،آن لائن تعلیم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن اکزامس،
یونیورسٹی، کمپنی کی معلومات ، اشیاء،اخبار و رسائل و جرائد ،فلاحی و زرعی
تنظیمیں ،سیاسی پارٹیوں کی جانکاری،بینکنگ اور تمام طرح کے بلوں کی ادائیگی
، طبی و سائنسی معلومات ،شریعت کے احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و
بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ متنازعہ فلم’ انوسنس آف
مسلم‘ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہنچ سکی اور اسی طرح مشرقی وسطی میں
تیونس ،مصر ،لیبیا میں مطلق العنان حکومتوں کے خلاف جو انقلاب آیا اس میں
انٹرنیٹ کا اہم رول رہا ہے۔اس سے سرحدی فاصلے ختم ہو گئے اور بجا طور پر
کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا ایک انسان کی مٹھی میں آگئی
ہے۔اگر انٹر نیٹ کا استعمال بہتر مقاصد اور تعمیری کاموں کے لیے ہو
،معلومات میں اضافے کے لیے ہو ، تعلیم و تعلم میں ہو تو یہ جائز اور مستحب
ہے کیونکہ ایسے کاموں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے ﴾ و تعاونوا علی
البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ﴿ سورةالمائدہ: ۲ ( نیکی
اور پر ہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو)
انٹرنیٹ کے نقصانات : انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے ،بلو فلمیں،بے
حیائی کے مناظر ،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی ، عریانیت ،بت پرستانہ و
مشرکانہ رسوم ،معاشی دھاندلیاں ،رقومات کی منتقلی، نجی معلومات کی فریب
دہی، جلد دولت مند بننے کے چکر میں دھوکہ دہی ، فریب دہی کے نئے نئے طریقے
،دھمکی آمیز پیغامات کی ترسیل اور فحش پیغامات و فحش مواد دوسروں
کوبھیجناوغیرہ ہے ۔یہ کانوں اور آنکھوں دونوں کی لذت کا سامان مہیا کرتا ہے
اس لیے لوگ اس کے دلدادہ ہیں۔مگرایجاد کو شرعی حدود کا پابند ہونا چاہیے
کیونکہ کان آنکھ دل سب کی بازپرس ہوگی ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے﴾ ان السمع و
البصر و الفواد کل اولئک کان عنہ مسﺅلا﴿سورة بنی اسرائیل:۶۳ ( اور کان آنکھ
اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے) اوراسی بے حیائی کی
وجہ سے نمازیں بے اثر ہوتی جا رہی ہیں۔جب کہ نماز تو بے حیائی سے روکتی ہے
جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے ﴾ان الصلوة تنھی عن الفحشاءو المنکر﴿ سورة
العنکبوت: ۵۴(یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے )فوائد کے حصول کے
لیے آپ کو کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔اور یہی اس ایجاد کا منفی پہلو ہے
جس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے
ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یہود کا ’ذرائع ابلاغ‘ کہا جا سکتا ہے۔ اور ان
ذرائع ابلاغ (خاص کر ٹی وی،ڈش اور انٹرنیٹ)کوبد قسمتی سے ہم لوگ بنا کسی
روک ٹوک کے اپناتے جا رہے ہیں جس کی سخت وعید ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد
فرماتے ہیں﴾ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و
یتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین﴿سورة لقمان:۶(اور کوئی انسان ایسا بھی ہے
جو اللہ تعالی سے غافل کرنے والی باتیں خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے بے
سمجھے بوجھے (دوسروں کو) گمراہ کرے اور اس راہ کی ہنسی اڑائے ،ایسے ہی
لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے )اگر یہ جاری رہا تو پھر ہم لوگوں کو تباہی کے
لیے تیار رہنا ہوگا ۔کیونکہ ہاری ہوئی جنگ کو تو جیت میں تبدیل کیا جا سکتا
ہے مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔آج
زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت،
مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر
بے حیائی و فحش فلموں و ویڈیو کی بات کی جائے تو اس کو دیکھنا ،سننا اور
پسند کرنا بھی حرام ہے ۔قرآن کریم میں بے حیائی کی باتوں کو پھیلانے والوں
کے لیے دردناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے ۔ارشادِ ربانی ہے ﴾ان الذین یحبون
ان تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا و الآخرة و اللہ
یعلم و انتم لا تعلمون﴿ سورة النور: ۹۱ (جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ
مومنوں میں بے حیائی پھیلے ،ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب
ہوگا اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے )آج کل سوشل نیٹ ورکنگ کا
چلن فروغ پا رہا ہے ۔ جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس ، یوٹیوب
اوریاہووغیرہ ۔جس میں سب سے زیادہ فیس بک کا استعمال ہو رہا ہے۔ فیس بک ایک
امریکی نوجوان طالب علم’ مارک زکر برگ‘ اور اس کے ساتھیوں نے
ہارڈورڈیونیورسٹی میں اپنے دوستوں کے لیے قائم کیا تھا مگر چند دن ہی میں
اس کو پورے برطانیہ میں مقبولیت حاصل ہو گئی اور ۵۰۰۲ تک یہ پوری دنیا میں
پھیل گیا ۔اس وقت ۵۴۸ ملین سے زائد افراد اس کو استعمال کرتے ہیں اور اس
معاملے میں ہندوستان دوسرے نمبر پر آتا ہے جہاں ۴۴ ملین سے زائد لوگ اس کو
استعمال کر رہے ہیں ۔ عموما فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی
طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنفِ مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر
معاملات پیار،شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں ۔فیس بک کی وجہ سے غیر مذہب
میں شادی اور طلاق کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔
فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ
ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوںپر کاری ضرب لگتی ہے چنانچہ اس سلسلے میں
والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے کہ بیٹا یا بیٹی انٹرنیٹ پر کیاکیا دیکھ
رہے ہیں ۔ایک عجیب بات ہے کہ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں
رکھا ہوتا ہے ۔رات رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ
پڑھائی ہو رہی ہے جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے اور نہ
والدین کو توفیق ہوتی ہے کہ وقتا فوقتا اس کو چیک کرتے رہیں ۔یامخصوص فحش و
غیر اخلاقی ویب سائٹوں کو بند کرا دیں ۔جب کہ اس کی سہولت موجود ہے ۔بہتر
ہوگاکہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس’ معلوماتی ہائی وے‘ پر تنہا نہ
چھوڑیں۔اور انٹرنیٹ کے لیے سائبر کیفے بھی ہوتے ہیں جہاں کیبن بنے ہوتے ہیں
اور پردہ لٹکا ہوتا ہے اور والدین کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ اولاد وہاں
کیا کرتی ہیں۔جب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ہوش آتا ہے۔
اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس
کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے ۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا
کوئی دوسرا بدل نہیں ہے ۔یہودیوں نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلامی تہذیب و
اقدار کو تباہ و برباد کرنے کاعزم کر رکھا ہے۔ جب کہ ہمارے علمائے کرام چین
کی نیند سو رہے ہیں۔ہمارے علمائے کرام ،مذہبی و ملی تنظیموں کا فرض بنتا ہے
کہ وہ ان ذرائع کو زیادہ سے زیادہ خیر اور نیکی کے کاموںمیں استعمال کرنے
کے لیے رہنمائی کریں ۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا ملک جہاں
انٹرنیٹ میں فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹ کے استعمال پر نا بالغوں کے لیے
پابندی ہو ؟(کیونکہ بچے ہی قوم کامستقبل ہواکرتے ہیں)آپ کے ذہن میں سعودی
عرب یا افغانستان کا تصور آئے گا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ملک اسرائیل ہے
۔اور اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ خود قرآن کریم کے مطابق چلتا ہے اور عمل
کرتا ہے کیونکہ اسی میں اس کی بھلائی ہے اور دنیا کو خاص طور سے مسلم ممالک
میں فحاشی و غیر اخلاقی مواد کو انٹرنیٹ یا دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ
فروغ دے رہا ہے تا کہ مسلمان ذہنی و اخلاقی طور پر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں
اور ترقی نہ کر سکیں۔ |