اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے"ان سے پوچھو،
کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں ؟"(الزُّمَر:۹)۔مزید
کہا کہ :"حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس
سے ڈرتے ہیں"(فَاطِر:۲۸)۔معلوم ہوا کہ علم سے مراد فلسفہ و سائنس اور تاریخ
و ریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہی بلکہ صفات الہٰی کا علم ہے قطع نظر اس سے
کہ آدمی خواندہ ہو یا نا خواندہ۔جو شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علّامہ دہر بھی
ہو تو اس علم کے لحاظ سے جاہل محض ہے۔ اور جو شخص خدا کی صفات کو جانتا ہے
اور اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اَن پڑھ بھی ہو تو ذی علم ہے۔علم
کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کو اگر حل کر لیا جائے تو پھر زندگی کا مقصد
حل ہو جاتا ہے اور اگر اس کے جواب میں ترد ّداور تذبذب ہو،تامل و شک و شبہ
ہو،اندیشہ خوف اور ڈر ہوتو پھر زندگی کا ہر کام ایک لا حاصل عمل ہوگا جو
یقین و اعتمادپر نہیں بلکہ گمان،شک و شبہ اور وہم پر منحصر ہوگا۔نتیجتاً
انسان کی فکر اس کا نظریہ اس کا عمل اور اس کی شخصیت سب کچھ مجروح ٹھہرے
گی۔یہ معاملہ تو ایک انسان کا ہے لیکن اگر انسانوں کے گروہ اس پر عمل پیرا
ہوں تو وہ گروہ کے گروہ اور وہ اجتماعیت مکمل طور پر ناکامی کا شکار
ہوگی۔وہ لوگ جو اس نظریہ اور فکرکے علمبر دار ہیں وہ خود بہ خود ایک عرصہ
بعد ثابت کر دیں گے کہ ان کی بات میں وزن نہیں ۔ اور جس بات میں وزن نہ ہو
اس کے پیش کرنے والوں کی نہ وقعت ہوتی ہے اور نہ ہی قدر ومنزلت۔کہا کہ:"اور
لْوط کو ہم نے حکم اور علم بخشا اور اْسے اْس بستی سے بچا کر نکال دیا جو
بدکاریاں کرتی تھی۔۔۔۔ درحقیقت وہ بڑی ہی بْری ، فاسق قوم تھی"(الانبیا:۷۴)۔"حکم
اور علم بخشنا" بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کرنے کا ہم معنی ہوتا
ہے۔"حکم" سے مراد حکمت بھی ہے ، صحیح قوت فیصلہ بھی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف
سے سند حکمرانی (Authority) حاصل ہونا بھی۔ رہا " علم" تو اس سے مراد وہ
علم حق ہے جو وحی کے ذریعہ عطا کیا گیا ہو۔ قرآن کی روشنی میں یہاں یہ بات
ثابت ہوتی ہے کہ علم وہ ہے جو اﷲ کے ذریعہ انبیا علیہ السلام کو حاصل ہوا
اور جس میں ذرہ برابر کمی بیشی کیے بنا اﷲ کے بندوں کو پہنچادیا گیا ہو۔اب
جو حکمت ِ خداوندی سے محروم ہو، جس میں قوتِ فیصلہ نہ پایا جاتا ہو اور جس
کے پاس "علم"ہی نہ ہو وہ کیونکر صحیح الدماغ ٹھہرے گا اور کیونکر وہ علم کی
بنا پرصحیح فیصلہ کر سکے گا۔یہی وجہ رہی کہ جن لوگوں نے بھی "علم"کے بغیر
مسائل کو حل کیا وہ نفسانی خواہشات کے علمبردار بن گئے۔پھرانھوں نے نفسانی
خواہشات کی تشنگی کو دور کرنے کے لیے خواہشاتِ نفس کی اس قدر بندگی کی کہ
وہ انسانوں کے زمرہ سے نکل کر حیوان ،اور بعض مواقع پر حیوانوں کو بھی
شرمسار کر نے والے ٹھہرے۔ فی الوقت ہم اپنی بات کے پس منظر میں ہم جنس
پرستی کے اُس اہم موضوع کو اٹھانا چاہتے ہیں جس کی زد میں آج بڑے پیمانہ پر
نوجوان نسل گمراہی کا شکار ہو رہی ہے۔
ہم جنس پرستی پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے:
ہندوستانی تعزیرات کی دفعہ 377 کے تحت ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے لوگوں
کے درمیان جسمانی تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس فعل کے لیے انہیں
دس سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔دراصل دفعہ 377 تقریباً ڈیڑھ سو برس پرانا
ایک قانون ہے جس کے تحت صرف مرد اور عورت کے درمیان روایتی اور مروجہ جنسی
تعلق کو ہی جائز جنسی فعل مانا گیا ہے۔ جبکہ دوسر ے تمام طریقوں کو نہ صرف
غیر فطری قرار دیا گیا ہے بلکہ انہیں غیرقانونی اور قابل سزا عمل کے زمرے
میں رکھا گیا ہے۔گزشتہ ہائی کورٹ فیصلہ جس میں ہم جنس پرستی اختیار کرنے
والوں کو آزادی فراہم کی گئی تھی اور جس کے خلاف ہندو، عیسائی اور مسلم
مذہبی تنظیموں نے چیلینج کیا تھا،سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنا رخ واضح
کردیا ہے۔2009 میں ناز فاؤنڈیشن اور دیگر کی مفاد عامہ کی عرضی پر فیصلہ
سنانے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ہم جنس پرستی کو تعزیرات ہند کی
دفعہ 377 کے تحت جرم کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔لیکن ہائی کورٹ کے اس
فیصلہ کے خلاف مسٹر کوشل، مسٹر تراچی والا اور کئی دیگر غیر سرکاری اور
مذہبی تنظیموں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔چار سالہ طویل مدت کے
بعد سپریم کورٹ آف انڈیا نے ہائی کوٹ کے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا جس
میں اس نے باہمی رضا مندی سے ہم جنس پرستی کو جرم کے دائرہ سے باہر کردیا
تھا۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ میں جسٹس سنگھوی نے فیصلہ کی تلخیص پڑھ کر
سناتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پرستی کے تعلقات کو جرم کے دائرہ سے باہر رکھنے
کے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کیا جاتا ہے۔ تاہم عدالت نے کہا کہ
پارلیمنٹ متعلقہ دفعہ کو ہٹانے کے سلسلے میں کوئی قانونی فیصلہ کرنے کے لیے
آزاد ہے۔عدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ کو دفعہ 377 کو منسوخ کرنے کا اختیار ہے
لیکن جب تک سزا سے متعلق یہ دفعہ موجود ہے، تب تک عدالت اس طرح کے جنسی
تعلقات کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کرسکتی۔عدالت عظمی کے اس فیصلہ کے بعد
اب ہم جنس پرستی ایک بار پھر جرم کے دائرہ میں آگئی ہے۔حالاں کہ ہم جنس
پرستی کی حمایت کرنے والی تنظیموں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے
خلاف نظر ثانی کی عرضداشت دائر کریں گے۔اس پورے واقعہ کے پس منظر میں غور
فرمائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور اِن جیسے تمام مطالبات حقیقت میں اس
وقت ہی اٹھائے جاتے ہیں جب کہ" علم" کو پس پشت ڈالتے ہوئے غیر فطری خواہشات
کو فوقیت دی جاتی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبات ان لوگوں کی جانب سے
اٹھائے جاتے ہیں جو عام طور پر پڑھے لکھے،دقیانوسی خیالات سے بالا تر اور
روشن دماغ و روشن خیال تصور کیے جاتے ہیں۔اورجن کا دعویٰ ہے کہ" علم" کی
تشکیل وحی کے بغیر ممکن ہے۔
علم کی تکمیل وحی کے بغیر ممکن ہے، ایک کھوکلا دعویٰ!
17 ویں اور 18 ویں صدی کے مفکرین نے مغرب میں برپاہونے والے مذہب [عیسائیت]
اور جدیدیت کی کشمکش کے دوران اس بات کا دعویٰ کیا کہ علم کی تشکیل وحی کے
بغیر خالصتاً عقل کی بنیادوں پر کی جاسکتی ہے۔ اس دعوے کا اصل محرک وہ بے
اطمینانی تھی جو ان مفکرین کو مذہب عیسائیت کے ایمانیات سے تھی ۔یعنی انھیں
مذہب سے یہ شکایت تھی کہ اس میں ایمان پہلے لایا جاتا ہے اور عقل کی حیثیت
ثانوی ہوتی ہے۔ لہذا انھیں اس بات پر اصرار تھا کہ عقل کو بنیاد بنا کر ایک
ایسے علم کی تعمیر کی جاسکتی ہے جو نہ صرف آفاقی ہوگا بلکہ ہر قسم کے
ایمانیات، نظریات و مفروضات سے پاک بھی ہوگا۔اور اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو
پھر وحی کو علم کی بنیاد بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔لہذا انسان کو ہر قسم
کی مذہبی جکڑبندیوں سے آزاد کرکے ایک ایسے برتر اور اعلیٰ مقصد کے حصول کی
طرف گامزن کیا جانا چاہیے جو سب کی فلاح کا باعث ہو۔ اس کے لیے انھوں نے
استقرائی نظریہ سائنس کی مدد لی۔استقرائی منطق کے نظریے کے مطابق سائنس کا
آغاز مشاہدے سے ہوتا ہے، یعنی سائنس حصولِ علم کا ایسا طریقہ ہے جس میں
مشاہدات کی بنیاد پر نظریات قائم کیے جاتے ہیں۔ ان مشاہدات کی بنیاد انسان
کے حواس خمسہ پر ہے یعنی سماعت، بصارت، لمس، سونگھنا اور چکھنا۔ دعوی یہ ہے
کہ ان حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات کوبنیاد بنا کر آفاقی نوعیت کے
نظریات قائم کرنا ممکن ہے۔لیکن جب ان بنیادوں پرمعاشرتی نظریات قائم کیے
گئے تو وہ کھوکھلے ثابت ہوئے ۔یہی وجہ ہے کہ آج مغرب اور مغربی فکر کے
علمبردار دنیا کے ہر حصے میں معاشرے کو صحیح رخ دینے میں ناکام رہے ہیں اور
معاشرتی برائیاں بڑے پیمانہ پر پروان چڑھی ہیں۔معاشرتی خرابیوں کا نتیجہ ہے
کہ خاندان منتشرہوئے اور فرد اور معاشرہ اخلاقی زوال میں مبتلا ہو گیا۔نفس
اور نفسانی خواہشات کو فوقیت دینے کا نتیجہ تھا کہ انسان کا ہر عمل اس کے
مفاد کے گرد ہی ٹھہر کر رک گیا۔محبت و ہمدردی اور احساس ذمہ داری کے
رجحانات تبدیل ہو ئے اور دوسروں کے حقوق بڑے پیمانے پر پامال کیے گئے۔پھر
وہی چیز صحیح ٹھہری جس میں ایمانیات،عقائد،اور غیب پر ایمان کی نفی کی گئی
تھی اور ان ہی چیزوں کو فروغ دیاگیا جس میں ذاتی غرض اور ذاتی مفاد کو
اولیت دی گئی ہواور جس میں خواہشات ِ نفس کو تسکین مل جائے۔پھر جن لوگوں نے
ذاتی مفاد کی خاطر مذہب سے دوری ایک مخصوص وقت اور حالات میں حاصل کی تھی
اب ان کے درمیان ہی ہر فرد اپنی ذاتی غرض کو اولیت دینے لگا۔رائے عامہ اور
فرد کی ذاتی آزادی کو بنیاد بنا کر ۔۔۔۔۔۔جہاں بھی چند لوگ کسی خاص مطالبے
کو لے کر اکھٹے ہو گئے انھوں نے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔۔۔اپنے
مخصوص مفاد کے لیے قوانین تبدیل کر والیے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج تک مغربی معاشرے میں جتنے انقلابات آئے وہ سارے معاشی
انقلابات تھے جن کے پیچھے محرومیاں اور طبقاتی انتقام کارفرما تھے ۔ ان
معاشروں میں مادی آسائشیں اور سہولیات ضرور موجود ہیں مگر انسان کی تعلیم و
تربیت میں روحانی تسکین اور تعمیر چونکہ عنقا ہے اسلئے وہ نت نئے جسمانی
اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کارل مارکس، لینن اور
فریڈرک اینجلز وغیرہ جیسے کمیونسٹ انقلابی مفکرین نے جب سرمایہ داریت کے
چنگل سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنا شروع کیا تو انہوں نے ایک نیا معاشی نظریہ
دیا جس میں انفرادی ملکیت کے تصور کی نفی کی گئی ۔ معاشی مساوات پر مبنی یہ
نظریہ چونکہ محروم المعیشت لوگوں کے دلوں کی آواز تھی اس لئے اسے بظاہر
پذیرائی ملی اور اس کے نتیجے میں وہاں سوشلسٹ انقلاب بھی برپا ہوگیالیکن
منزل چونکہ معاشی ضرورت کی تکمیل تک محدود تھی اس لئے وہاں مذہب سے بغاوت
نے لوگوں کو اﷲ کے وجود کا منکر بھی بنادیا۔ صاف ظاہرہے جس معاشرے میں اﷲ
ہی نہ رہے وہاں الوہی اخلاقیات و قیودات کیسے بچ سکتی تھیں۔ چنانچہ خاندانی
نظام یوں بکھرا کہ "عورت" ماں، بہن اور بیٹی کے تقدس سے بھی محروم
ہوگئی۔اورآج جو کچھ ہندوستان میں ہو رہا ہے اور جس میں ہر طبقہ کے افراد
خواہشات نفس کے پیچھے سرکرداں ہیں وہ یہی ثابت کرتا ہے کہ الہامی ہدایات سے
بے زار معاشرہ حد درجہ ذلت و پستی میں مبتلا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج چاہے وہ
مذبہی گروہوں،سیاستداں ہوں،قانونی چارہ جوئی میں اور بظاہر عدل و انصاف کے
قیام میں مصروف قانون و مقننہ کے افراد ہوں یا دیگر مختلف طبقہ حیات سے
وابستہ ذمہ دار افراد، آج ان کی مثال اس بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی
سطح سے اْکھاڑ پھینکا جاتا ہے اور جس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔
اسلام نے مرد و عورت کو بڑے پیمانے پر حقوق فراہم کیے اور ساتھ ہی راہنمائی
کی کہ نامحرم مرد و خواتین جائز حدود سے تجاوز نہ کریں۔پھر پاک بازاسلامی
معاشرے کے قیام و استحکام کے لیے کہا کہ مرد اپنی نظروں کو نیچی رکھیں اور
عورتیں حجاب اختیار کریں ساتھ ہی وہ مرد و خواتین جو بلو غت کو پہنچ چکے
ہوں وہ شادی کر لیں۔ اس کے برخلاف مغربی مفکرین نے نا محرم عورت و مرد کے
درمیان اسلامی تعلیمات کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے غیر اخلاقی بنیادوں پر
ایک دوسرے کے درمیان نزدیکیاں پیدا کیں اور ساتھ ہی کھلے مواقع بھی اور اس
کو انھوں نے "حقوقِ نسواں"کا نام دیا۔ایک طرف انھوں نے شادی کے معتبر رشتے
کومشکوک نگاہوں سے دیکھا تو دوسری طرف عورت کی عفت و عصمت پامال کرتے ہوئے
اسے بے حجاب بنایا۔اِس کے لیے انھوں نے "حقوقِ نسواں"کے اِس نام نہاد نعرے
کی آڑ میں عورت کے ساتھ بے انتہاظلم کیاہے۔کہیں اُسے مرد بنا کر نسائیت یا
عورت پن سے محروم کردیا۔کہیں اُس پر معاش کا بوجھ ڈال دیاتو کہیں اُسے ایک
شے یا product بنادیا۔ اﷲ رب رحیم نے مرد و عورت کے پر جو ذمہ داریاں عائد
کی تھیں وہ متاثر ہوئیں۔حاصل یہ کہ عورتیں اپنی ذمہ داریاں اور وہ اخلاقی
معیاربرقرار نہ رکھ سیکیں جو مطلوب تھا۔آج مغربی دنیا میں خاندانی نظام
مکمل طور پر منتشر ہوچکا ہے اور اس کے راست اثرات معاشرتی زندگی پر نمودار
ہوچکے ہیں۔موجودہ مغربی معاشرے میں کروڑوں بچے ایسے ہیں جنہیں ماں باپ کی
محبت کا کوئی تجربہ ہی نہیں۔ مغرب میں کروڑوں والدین ایسے ہیں جن کے لیے وہ
خدمت ایک خواب ہے جو اولاد سے مخصوص ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی معاشرے
نفسیاتی اور جذباتی تسکین کے لیے ترس گئے ہیں اور طرح طرح کے نفسیاتی‘ ذہنی
اور جذباتی عوارض نے انہیں گھیر لیا ہے۔یہی وہ نفسیاتی،جذباتی اور ذہنی
دباؤ ہے جس کی وجہ سے آج ان کے زیادہ تر فیصلے غلط رخ ہی اختیار کرتے
ہیں۔وہ جو فیصلہ بھی کرتے ہیں وہ ان کی اِس متذبذب زندگی کی بھرپور عکاسی
کرتا ہے۔ایسے معاشرے اور ایسے اقتدار پذیر لوگوں سے مرعوب ہو کراگر کوئی
اپنے گھر، خاندان اور بیوی بچوں کواُس رخ پر چلانے کا خواہاں ہو!تو وہ کیا
کہلائے گا؟ کیا اُس شخص کا دماغی توازن برقرار کہلائے گا جس کے سامنے شواہد
موجود ہوں اور پھر بھی نہ وہ اس کے منفی اثرات کودیکھ سکتا ہواور ناہی
محسوس کر سکتا ہو۔کیاایسے خبط الحواس لوگوں کی ہر معاملہ میں پیروی کی جانی
چاہیے؟ اِن کے مطالبے ہم جنس پرستی کی بھی؟ نہیں ،ہرگز نہیں، اس کے برخلاف
حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی ہم ستائش کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ
عدلیہ مستقبل میں بھی صحیح فیصلوں پر قائم رہے گی! |