عہدِ حاضر میں مشترکہ خاندانی
نظام کو بہتر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ خصوصا برِ صغیر میں الگ الگ گھروں میں
رہنے کو مغربی تہذیب کے مشابہ قرار دیا گیا ہے ۔ مگر کیاواقعی یہ نظام صحیح
ہے ؟ اسلام اس کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے اور اس میں کیا فوائد و
نقصانات ہیں ؟ اس پر عموما توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام سے مراد وہ گھر ہے جہاں ساس ،سسر ،بیٹے ،بیٹیاں اور
بہویں وغیرہ ایک ساتھ رہتے ہوں ۔ یہ اس لحاظ سے یقینا اچھا ہے کہ اس سے
خاندانی روایات کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے ۔لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد
میں شریک ہوا کرتے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس کے نقصانات زیادہ اور فوائد
کم ہیں۔یہ نظام نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے خلاف بھی ہے
اسی لئے محمدﷺ نے اپنی تمام بیویوں کو الگ الگ مکان دیا تھا ۔ حضرت فاطمہ ؓ
جو آپ ﷺ کی سب سے چہیتی بیٹی تھیں اور علیؓ جو آپ ﷺ کو بہت عزیز تھے ،اس کے
باوجود شادی کے بعدان کو الگ مکان دیا۔
مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا مسلم معاشرے کو کرنا پڑ
رہا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں جس کے نہایت بھیانک اثرات واضح طور پر
نظر آ رہے ہیں۔
بے پردگی اور نامحرم سے اختلاط: اسلام نے انسانی زندگی کے ہر پہلو میں
رہنمائی کی ہے ۔ان میں سے ایک پردہ اور نامحرم سے اختلاط کو روکنا بھی ہے ۔ہمارے
یہاں پردے کا تصور عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم اور نوکری سے روکنا ،
زبردستی شادی کرانا اور اجنبیوں سے پردہ کرانے تک محدود ہے۔نامحرم قریبی
رشتے داروں،دیور ،جیٹھ ، کزنس،اور دوستوں وغیرہ سے پردہ کرنا معیوب سمجھا
جاتا ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام میں اس طرح کے رشتہ دار عموما ساتھ رہا کرتے
ہیں ۔ ایک لڑکے کا پورا خاندان اس کے لئے تو محرم ہے لیکن اس کی بیوی کے
لئے اسی خاندان کے زیادہ تر لوگ نامحرم ہیں ، اب اگر بیوی سارے وقت پردے
میں رہے تو خود اس کو مشکل ہو گی اور سسرال والے بھی ناراض ہو اجائیں گے کہ’
دلہن نامعقول لگتی ہےگھلتی ملتی نہیں ہےمغرور ہے یاملانی ‘ہے وغیرہ وغیرہ ۔اس
لئے کسی انسان کو حق نہیں کہ بیوی کو ایسے گھر میں رہنے پر مجبور کرے جہاں
غیر محرم رہتے ہوں چاہے وہ اس کے کزنس یا بھتیجے بھانجے ہی کیوں نہ
ہوں۔حدیث ِ نبوی ہے رسول ﷺ نے فرمایا ! اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو،
ایک انصاری نے عرض کیا : یا رسول اللہ حمو کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا حکم ہے؟
آپﷺ نے فرمایا کہ حمو تو موت ہے(صحیح مسلم:۲۷۲۱) حمو سے مراد شوہر کے عزیز
و اقارب ہیں جن سے عورت کا نکاح ہو سکتا ہے ۔ شوہر کے رشتے داروں سے خلوت
نشینی ،اجنبیوں کے ساتھ خلوت میں رہنے سے کہیں زیادہ اندیشہ ناک ہے اور اسی
وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام میں خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پرائیویسی کا خاتمہ: مشترکہ خاندانی نظام میں پرائیویسی کے ان اصولوں کو
اپنانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے جس کی ہمیں قرآن و حدیث تعلیم دیتے ہیں ۔ارشادِ
ربانی ہے ! اے ایمان والو!تمہارے غلام اور وہ لڑکے جو حدِ بلوغ کو نہیں
پہنچے ہوں ، تین وقت میں تم سے (تخلیہ میں آنے کی) اجازت حاصل کر لیں۔ایک
نمازِ فجر سے پہلے ، دوسرے ظہر کے وقت جب تم آرام کے لئے کپڑے اتار لےتے ہو
اور عشاءکے بعد، تین وقت تمہارے پردے کے ہیں ۔ان کے علاوہ نہ تم پر کوئی
الزام ہے نہ ہی ان پر(النور:۸۵)جب کہ مشترکہ خاندانی نظام میں صورتِ حال
عموما یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی کمرے میں میاں بیوی ، بچے اور بسا اوقات دوسرے
لوگ بھی رہتے ،سوتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں کتنے مسائل کھڑے ہوتے ہیں اس کا
اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں شوہر اور بیوی کا زیادہ ملنے کا بھی
موقع نہیں ملتا ۔ شرم و حیاکی وجہ سے نمازیں قضا ہو جایا کرتی ہیں ۔اگر الگ
گھر یا کمرے ہوں تو ان تمام مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
باہمی سوچ کا مختلف ہونا : اللہ تعالی نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف
بنایا ہے اور سب کو الگ الگ مقاصد اور صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ مشترکہ
خاندانی نظام میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ سب کا مقصد ایک ہو اور سب کی
پسند ایک ہو ؟ہر کوئی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کھانا پینا ،اٹھنا
بیٹھنا چاہتا ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے ۔اب اگر اس کو اپنا بنیادی حق
ہی نہ ملے تو کیسے گھر میں سکون اور خوشی میسر ہوسکتی ہے؟ایک گھر میں بیس
پچیس افراد ہوں اور کئی بہویں مل کرساس کی نگرانی میں کھانا پکاتی، صفائی
کرتی ہوںاور کیا مجال کہ بیٹا یا بہو منہ کھول سکے تو اس کا عموما نتیجہ یہ
ہو تا ہے کہ دلوں میں کینہ و بغض بھرا ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر
اعتراضات،لعن طعن،تنقیدیں کی جاتی ہیں ۔گھر کا سکون درہم برہم ہوجاتا ہے۔
گھریلو کام کاج کا مسئلہ: ہمارے یہاں ایک بڑے طبقہ میں لڑکوں کی شادی ہی اس
غرض سے کی جاتی ہے کہ کوئی گھر چلانے والی آجائے ،سب کی خدمت کرے،ساس سسر
کا دھیان رکھے۔اب اگر بہو تعلیم حاصل کرنا چاہے یا کوئی کتاب ہی پڑھنے لگے
تو گھر میں طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔آج کا دور کمپیوٹر ،انٹرنیٹ کا دور ہے
۔گھر کے تمام افرادکمپیوٹر چلا سکتے ہیں حتی کہ بچے بچیاں اس پر گیم کھیل
سکتے ہیں مگر بہو صرف کمپیوٹر’ صاف‘ کرنے کے لئے ہوتی ہے۔
بہو کو ساس سسر کی خدمت کرنے پر زور دیا جاتا ہے ۔ مگر خدمت و اطاعت کا حکم
ماں باپ اور شوہر کے لئے ہے نہ کہ ساس سسر کے لئے۔ان کی خدمت کے لئے بیٹے
ہوا کرتے ہیں تو بیٹوں سے اپنی خدمت کرائیں مگر انھیں بہوﺅں سے ہی خدمت
کرانے کا شوق ہوتا ہے ۔یہ تو تب ہی ممکن ہوگا جب ساس سسر بہو کو بیٹی کا
درجہ دیں اور کسی خدمت کی توقع نہ کریں۔کیوں کہ اولاد سے تو کوئی زیادتی
نہیں کرتا ہے اور نہ ہی امید رکھتا ہے کہ بیٹے، بیٹیاں خدمت کے لئے ایک
ٹانگ پر کھڑے رہیں۔جب بہو کو بیٹی کا درجہ ملے گا تو وہ بھی بے لوث محبت کے
ساتھ ساس سسر کو والدین کا درجہ دے گی ا ور خوشی خوشی خدمت کرے گی۔
خاندان کا ایک ذات پر منحصر رہنا: عموما مشترکہ خاندانی نظام میں ایک کمانے
والا ہوتا ہے اور دس بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑنے والے ہوتے ہیں۔ان گھروں
میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو کام کر سکتے ہیں مگر کرنا نہیں چاہتے۔ مغربی
ترقی یافتہ ممالک میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔ ایسے خاندانوں میں ایک عجیب
و غریب مفروضہ ہوتا ہے کہ کسی بے کار آدمی کی شادی کر دو تو وہ خود ہی ’سیٹ
‘ہو جائے گا لیکن اگر اس میں ناکامی ملی تو خاندان کے دوسرے لوگوں کو اس
غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ مرد اگر بیوی کو
روٹی ، کپڑا اور مکان مہیا نہ کر سکے تو اسے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ ارشادِ
ربانی ہے ! اور چاہیے کہ بچے رہیں (پاکدامن رہیں) وہ جو کہ نکاح (مقدور)
نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ تعالی انھیں اپنے فضل سے غنی کر دیں(النور:۳۳)
ورنہ جب تک والد زندہ رہتے ہیں خرچ برداشت کرتے ہیں کیوں کہ ان کو بہر حال
اولاد سے محبت ہوتی ہے پھر ان کے انتقال کے بعد بھائیوں میں بٹوارا ہو جاتا
ہے اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔ آپسی تعلقات ختم ہو جاتے ہیںکیوں کہ
بڑا بھائی تمام افراد کا خرچ اٹھانا نہیں چاہتا اور گھر والوں سے الگ ہونے
کی کوشش کرنے لگتا ہے۔بعض دفعہ مالی تنگی کی وجہ سے لوگ خلیج ممالک کا رخ
کرتے ہیں اور سالہا سال باہر رہتے ہیں ،بیوی کو دیور یا قریبی رشتے داروں
کے رحم و کرم پر چھوڑ جاتے ہیں جس سے غیر مسلوں تک سے تعلقات قائم ہو جاتے
ہیںاورمعاشرے میں سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں پھر گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ آج کل
اس طرح کی مثالیں کثیر تعداد میں نظر آتی ہیں۔
بچوں پر منفی اثرات:ان تمام باتوں کا بچوں پر بھی نمایا ں اثر ہوتا ہے۔ ان
کی تعلیم و تربیت صحیح سے نہیں ہو پاتی ہے کیوں کہ جب ایک ہی گھر میں مختلف
سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں تو بچے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیںکہ کس کی بات
صحیح ہے اور کس کی غلط؟ جس سے ان کی خود اعتمادی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور
آگے کی زندگی میں ان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کے
خاندانی نظام میں بچے ،بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات زیادہ ہوتے
ہیں اور اس میں قریبی رشتے داروں کا ہی ہاتھ ہوا کرتا ہے جو ان کے درمیان
رہا کرتے ہیں کیوں کہ بچے، بچیاں اجنبی لوگوں کے مقابلے صرف مانوس لوگوں سے
گھلتے ملتے ہیں ۔ ماں باپ ساتھ رہنے والوں پر اندھا اعتماد کرکے بچے بچیوں
کو ان کے پاس چھوڑ دیا کرتے ہیں جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑتا ہے۔
اسلام نے ان سب وجوہات کی بنا پر مشترکہ خاندانی نظام کی حوصلہ شکنی کی ہے
اور آسان طرزِ زندگی اپنانے پر زور دیا ہے جو تب ہی ممکن ہے جب خاندان
چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں رہیں چاہے یہ حجرہ( فلیٹ) کی شکل ہی میں
کیوں نہ ہو جیسا کہ آپ ﷺ کا طریقہ تھا۔
|