لہجہ انسا ن کی اوقات بتا دیتا ہے

زبان قدرت کا ایک بیش قیمت عطیہ ہے جس سے ہم بات کرتے ہیں۔اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں’’لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘(البقرہ۔۸۳)ایک اور جگہ فرمایا ’’بری بات کہنے سے بچو۔‘‘(الحج۔۳۰)

اور نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا’’مسلمان کامل وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘(بخاری،کتاب الایمان)

زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔زبان دیکھنے میں ذرا سا گوشت کا ٹکڑا ہے لیکن انسان کے لیے زبان کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔کیوں کہ اسی زبان کی بدولت بڑی بڑی لڑائیاں،جھگڑے اور فساد کا باعث ہوتی ہے۔دلوں میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔دشمن دوست اور دوست دشمن بن جاتے ہیں،اور رشتہ داروں سے قطع تعلق ہوجاتا ہے۔بعض اوقات تو یہی زبان کی وجہ سے قتل و خون،فساد کا موجب بھی بن جاتی ہے۔زبان سے ان گنت گناہوں کا صدوربھی ہوتا ہے۔زبان وہ شے ہے جس کے دنیاوی فائدے ہیں تو نقصان بھی ہیں۔آخرت کی زندگی میں جنت یا جہنم پانے کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ہم چاہیں تو زبان سے بے حساب نیکیاں بھی کما سکتے ہیں۔دنیا و آخرت کی کامیابی اور بہت سی مصیبتوں سے چھٹکارے کی سب سے اچھی اور عمدہ ترکیب یہ کہ زبان کو قابو میں رکھی جائے۔زبان کوئی انسان کی خریدی ہوئی چیز نہیں ہے،بلکہ اﷲ کی دی ہوئی امانت ہے،جس کے بارے میں قیامت دن پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی زبان سے خیرو بھلائی کی باتیں کہی تھیں یا شر وفساد کی بات کہی تھی،حق و انصاف کی بات کہی تھی،یا باطل اور ظلم کی بات کہی تھی،سچائی اور امانت داری کی آواز بلند کی تھی یا جھوٹ اور خیانت کا معاملہ کیا تھا،اپنی زبان سے اﷲ رب العزت کی حمد و ثناء بیان کی تھی یا شیطانی بکواس میں مصروف ہو گیا تھا۔اپنی زبان سے محبت و الفت کے میٹھے بول کہے تھے یا کڑوی کسیلی باتیں کرکے لوگوں کا دل دکھا یا تھا۔قرآن پاک کی تلاوت کی تھی یا فلمی گانے گائے تھے۔لوگوں کو اپنی زبان سے دعائیہ کلمات کہے تھے یا بد دعا ئیں دی تھیں۔امن و سلامتی کی باتیں کہہ کر ماحول کو پرسکون بنایا تھا،یا فتنے اور شر انگیزی کا بھیا نک ماحول پیدا کیا تھا۔اخلاق ایک دکان ہے اور زبان اس کا تالا ہے،تالا کھلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا کوئلے کی۔اس لیے جب بھی زبان کھولیں سوچ سمجھ کر کھولیں،ورنہ خاموش رہیں۔پیارے آقاؐ کا فرمان ہے:’’جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔‘‘(مشکوٰۃ)

زبان سے بڑے بڑے گناہ ہوتے ہیں۔زبان کے بارے میں علماء نے لکھا:’’اس کی جسامت تو چھوٹی ہوتی ہے،لیکن اس سے ہونے والے جرم بہت بڑے ہوتے ہیں۔‘‘زبان سے سرزد ہونے والے جرم اتنے ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔کفریہ کلمات زبان سے ہی نکلتے ہیں،انسان ہی زبان سے غیبت کرتا ہے،غیبت اتنا عظیم گناہ ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا:’’غیبت تو زنا کاری سے بھی زیادہ سخت ہے۔‘‘(مشکوٰۃ)جھوٹ ،چغلی ، بہتان، لعنت، گالیاں،طعنے،عیب جوئی اور اسی طرح کے دیگر گناہ اسی زبان سے ہوتے ہیں۔حضرت علیؓفرمایا کرتے تھے کہ:’’انسان اپنی زبان کے پردے میں چھپا ہے۔‘‘کسی نے سچ کہا ہے کہ عقل مند سوچ کر بولتا ہے اور بے وقوف بول کر سوچتا ہے،پہلے تو زبان سے جو کہنا تھا کہہ دیا پھر سوچنے لگا.....ارے میں نے یہ بات کیوں کر کہہ دی۔زبان کے استعمال میں لہجہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔لہجہ کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂
لاکھ پہچان چھپائے کوئی اپنی لیکن :لہجہ انسان کی اوقات بتا دیتا ہے

بزرگوں کا قول ہے کہ:’’پہلے تولو پھر بولو‘‘یعنی کوئی بات کرنے سے پہلے،منہ سے الفاظ نکالنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ایسی بات کرنی چاہیے یا نہیں۔الغرض!جہاں تک ہوسکے بلکہ زیادہ سے زیادہ ہمیں اپنی زبان کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے،ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے جس سے ہم گناہ گار کہلائیں ۔زبان کا استعمال اچھی اور خوش گوئی سے کرنا ایک نیکی ہے اور ہم ثواب کے مستحق ہوں گے۔لا یعنی فضول باتوں سے دور رہیں،یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ہمیشہ اس بات کا حد درجہ خیال رکھیں کہ ہماری زبان نرم و میٹھی ہو تا کہ لوگ آپ کی زبان و بیان کے دیوانے بن جائیں۔آخر میں اﷲ عزوجل سے دعا ہے کہ ہم سب کو زبان کے شر سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ثم آمین
Irfan Muniri
About the Author: Irfan Muniri Read More Articles by Irfan Muniri: 26 Articles with 30890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.