باسمہ تعالیٰ
۱۱؍دسمبرکوسپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا،ایک ایسافیصلہ جوملک کی
تہذیب واقدارکی محافظ اورفطرت سے بغاوت کرنے والوں کے لیے کاری ضرب ہے،اس
فیصلہ نے جہاں ایک طرف ملک کے سنجیدہ اورمہذب طبقہ کوراحت پہونچائی ہے ،اوراس
طبقہ میں یہ امیدجگی ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی تہذیب کوبچانے میں اہم
کرداراداکرے گااورایسے لوگوں کوراہ راست پرلانے کاایک مؤثرطریقہ بھی ثابت
ہوسکتاہے جوکم ازکم الٰہی قانون کے خوف سے نہیں بلکہ انسانی قانون کے خوف
سے اس قبیح جرم کے ارتکاب سے محفوظ رہیں وہیں ایک مخصوص طبقہ جوکہ تعدادمیں
آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہیں انہیں شدیدرنج وغم سے دوچارکیاہے
اورانہوں نے اس دن کویوم سیاہ سے تعبیرکرتے ہوئے اس فیصلہ کے خلاف منظم
تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے،اس فیصلہ کے خلاف مخصوص طبقہ کاغم وغصہ توسمجھ
میں آتاہے کہ ان کے زعم میں ان سے ان کابنیادی حق چھیناجارہاہے لیکن یہ بات
اس وقت سمجھ سے باہرہوجاتی ہے اورافسوس ہونے لگتاہے جب ملک کے قانون بنانے
والے اوراس کونافذکرنے والی شخصیات بھی اس فیصلہ کوغلط قراردینے لگے،اس وقت
ان کی عقل کاماتم کرنے کوجی چاہتاہے۔ہم جنس پرستی صرف مذہب کے ہی خلاف نہیں
ہے بلکہ یہ انسانی فطرت کے بھی خلاف ہے جس کانتیجہ انتہائی سنگین ہوتاہے جب
اس پرسپریم کورٹ نے اپنافیصلہ سناتے ہوئے اسے سنگین جرم قراردیاتوجہاں اس
سے تعلق رکھنے والاطبقہ اپنے غم وغصہ کااظہارکررہاتھا وہیں کچھ سیاسی
رہنمابھی اس فیصلہ کوشخصی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی مان
رہے تھے ان میں سے ایک مشہورسیاسی رہنماجدیوکے رکن پارلیمنٹ شیوانندتیواری
ہیں جن کامانناہے کہ یہ انسان کابنیادی حق ہے کہ وہ کس طرح جیناچاہتاہے
حکومت یاعدالت کواس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی،ان کے اس بیان سے ان کے
دماغی دیوالیہ پن کاواضح ثبوت ملتاہے۔
ہم جنس پرستی کایہ معاملہ ۲۰۰۹ء سے عدالت میں زیرسماعت تھاجب کہ ہندوستان
میں ہم جنس پرستی کی تحریک چلانے والی غیرسرکاری تنظیم نازفاؤنڈیشن کی
مفادعامہ کی عرضی پرسماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے اسے
جائزٹھہرایاتھااورہم جنس پرستی کوقانوناصحیح مانتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ
سنایاتھا،دہلی ہائی کورٹ کایہ فیصلہ تعزیرات ہنددفعہ ۳۷۷کے خلاف تھاجس کے
مطابق ایک ہی جنس کے دولوگوں کاایک ساتھ رہنایاجنسی عمل کرناجرم ہے،اس
فیصلہ پرجہاں نازفاؤنڈیشن اوراس سے تعلق رکھنے والے مخصوص طبقہ نے خوب جشن
منایاتھاوہیں ملک کاسنجیدہ طبقہ بے چین ہواٹھاتھااورانہیں یہ فکرستانے لگی
تھی کہ اگراس کے خلاف کوئی مؤثرقدم نہ اٹھایاگیاتوہندوستانی تہذیب کے ساتھ
ساتھ ہندوستان سے اسلامی تہذیب کابھی خاتمہ ہوجائے گا،اس قبیح فعل
کوقانونادرست ٹھہرانے کامطلب یہ ہے کہ اگرکسی کے بہکاوے میں آکرآپ کی
اولادیاآپ کاکوئی عزیزاس قبیح فعل میں ملوث ہوجاتاہے توآپ چاہ کربھی اس
کاکچھ نہیں بگاڑسکتے،نتیجہ یہ ہوگاکاپوراانسانی معاشرہ تباہ ہوجائے گا۔ اس
سلسلہ میں ملک کے کچھ باشعوراورمہذب افراداورکچھ ملی و مذہبی تنظیموں نے جس
میں مسٹرکوشل،مسٹرتراچی والااورمسلم پرسنل لاء بورڈوغیرہ نے دہلی ہائی کورٹ
کے اس غیرمہذب اوراخلاق باختہ فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کادروازہ
کھٹکھٹایااوربالآخر۱۱؍دسمبر۲۰۱۳ء کوسپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں ہم
جنس پرستی کوہندوستان میں غیرقانونی قراردیااوراس فعل بدکوانجام دینے والے
کومجرم گردانا،لیکن اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ کہہ کرحکومت کے پالے
میں گیندکواچھال دیاکہ حکومت چاہے توایک بل پاس کرکے دفعہ ۳۷۷ کومنسوخ
کرسکتی ہے جس کے تحت ہم جنس پرستی جرم ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل دہلی ہائی
کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس کوقانوناجائزٹھہرایاتھاکہ دفعہ ۳۷۷؍شخصی آزادی کے
خلاف ہے اوراس سے انسان کابنیادی حق مجروح ہوتا ہے اوریہ کہ یہ مساوات کے
اصول کے خلاف ہے،کیوں کہ دفعہ ۳۷۷؍کے مطابق ایک جنس سے تعلق رکھنے والے
دواشخاص کاجنسی عمل کرناقانوناجرم ہے۔لیکن مذہبی وملی تنظیموں کی اپیل
پرسپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے دفعہ ۳۷۷؍کوصحیح مانتے ہوئے اس کی روشنی
میں ہم جنس پرستی کوجرم قراردیا۔یقیناسپریم کورٹ کایہ فیصلہ تاریخی اہمیت
کاحامل ہے، اوراگرحکومت اس معاملہ میں سخت رویہ اپنائے توانشاء اﷲ وہ دن
دورنہیں جب کہ ہندوستان کے اس عمل کومثالی قراردیکردنیاکے وہ دیگرممالک
جواسے نام نہاد شخصی آزادی اور انسان کے بنیادی حقوق کی آڑمیں اس فعل بدکے
ذریعہ قانون فطرت سے بغاوت کررہے ہیں وہ بھی اس کی تقلیدکرتے ہوئے اپنے
اپنے ممالک میں اسے جرم کے دائرہ میں لے آئیں گے۔
سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلہ سے جہاں ملک کے سنجیدہ اورمہذب طبقہ میں
امیدکی نئی کرن جگی ہے اورملک کی ملی تنظیموں بالخصوص مسلم پرسنل لاء بورڈ
نے اس فیصلہ کاخیرمقدم کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ کاتاریخی قدم بتایاہے وہیں
اس خلاف فطرت عمل کرنے والوں میں مایوسی دیکھی گئی ہے،ہم جنس پرستوں کی سب
سے بڑی معاون تنظیم ناز فاؤنڈیشن نے اسے یوم سیاہ سے تعبیرکیاہے اوراس
سپریم کورٹ میں اس کی پیروی کرنے والے وکیلاروندنارائن نے اسے یوم سیاہ
ماناہے،ان کاکہناہے کہ ہم اس فیصلہ کے خلاف اپنی تحریک جاری رکھیں گے
اورساتھ ہی انہوں نے سپریم کورٹ پرالزام لگایاکہ سپریم کورٹ دستورمیں دیے
گئے مساویانہ حقوق کی فراہمی کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے ، وہیں کئی لوگوں
نے اس فیصلہ کوبدترین قراردیاہے جب کہ اس کے مخالفت کرنے والوں نے اس فیصلہ
کومشرقی تہذیب کی فتح سے تعبیرکیاہے۔لیکن ان سب کے ساتھ سب سے افسوسناک
پہلویہ ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت کاموقف واضح نہیں ہے،ابھی تک حکومت نے
اپنے لچیلے رویہ والی سیاست کونہیں چھوڑاہے،اس فیصلہ کے آنے کے بعدحکومت نے
کہاہے کہ ابھی فیصلہ کامطالعہ نہیں کیاہے پہلے ہم فیصلہ کاتجزیہ کریں گے
پھراس سلسلہ میں کوئی قدم اٹھائیں گے،ذراغورکیجیے!آخراس میں غورکرنے والی
کون سی بات ہے؟ہروہ انسان جوتھوڑابہت بھی عقل وفہم اوربصیرت رکھتاہے وہ اس
فیصلہ کوفطرت کے عین مطابق مانے گااوراس عمل کوفطرت کے خلاف،پھرایک ایساملک
جس کی اپنی تہذیب ہے، جو دنیا کی سب سے پرانی تہذیب ہونے کافخررکھتی ہے جس
تہذیب میں خلاف فطرت عمل کی کوئی جگہ نہیں ہے ایسے عمل کے بارے میں حکومت
کاایسالچیلارویہ سوائے اس کے کچھ نہیں ملک کی موجودہ حکومت ہندوستان کی
تہذیب کومغرب کے پاس گروی رکھ دیناچاہتی ہے اورہراس قبیح عمل کوجائزٹھہرانے
پرتلی ہوئی ہے جسے مغرب ایک بڑی سازش کے تحت ملک میں ایکسپورٹ کرتاہے۔ہمیں
وقت رہتے اس کاادراک کرناہوگااوریہ دیکھناہوگاکہ اس سلسلہ میں حکومت
کااگلاقدم کیاہوگا،کیاوہ دفعہ ۳۷۷کومنسوخ کرنے کاارادہ رکھتی ہے اگر حکومت
نے اپنے خواب وخیال میں بھی ایساکرنے کاارادہ کیاتواسے دہلی والے حشرکی
یاددہانی کرانی ہوگی۔
اس فیصلہ کے آنے سے جہاں مہذب طبقہ نے راحت وسکون کاسانس لیاہے وہیں فطرت
سے بغاوت کرنے والوں کی نینداڑگئی ہے انہیں میں جنتادل یوکے اخلاق باختہ
لیڈر شیوانندتیواری بھی ہیں،اس موقع پرچاہیے کہ نتیش جی ان کی کان کھینچیں
ورنہ ان کے حق میں یہ بہترنہیں ہوگااگرسنجیدہ طبقہ نے اس بیان کوسنجیدگی سے
لیاتوان کی شامت آنی طے ہے،اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکیٹواننت
پدبھنانے کہاہے کہ ہمارااگلاقدم حکومت پردباؤ بناناہوگا،اورحکومت ہندکے
ایڈیشنل سالیسٹرجنرل اندراجے سنگھ نے کہا ہے آئینی اقدارکی توسیع کاتاریخی
موقع کھودیاگیا،ہم جنس پرستی پرسزاکاتعین قرون وسطیٰ کی سوچ کی علامت ہے۔یہ
توان لوگوں کی سوچ ہے جوذہنی واخلاقی دیوالیہ پن کاشکار ہوچکے ہیں اورچاہتے
ہیں کہ شخصی آزادی اوربنیادی حقوق جیسے کھوکھلے اوردلفریب نعروں سے اس ملک
کواخلاقی وتہذیبی طورپردیوالیہ کردیاجائے،ہمیں ایسے لوگوں کی سوچ سے اپنی
آنے والی نسل کومحفوظ رکھناہوگااورایسی گندی سوچ رکھنے والوں کوسبق
سکھاناہوگااس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں لچیلارویہ چھوڑکرسخت
موقف اپنائے اورواضح طور پراعلان کردے کہ سپریم کورٹ کافیصلہ اس سلسلہ میں
حتمی اورآخری فیصلہ ہے ،دفعہ ۳۷۷؍اپنی جگہ پربرقراررہے گااس میں کسی قسم کی
ترمیم نہیں کی جائے گی،اورایسے تمام لوگوں کو متنبہ کردے کہ وہ اس طرح کی
غیراخلاقی بیان بازیوں سے ہوشیاررہیں ورنہ انہیں بھی اس دفعہ کے تحت
لاکرمجرم قراردیاجائے گا۔
اس موقع پرمسلم اراکین پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کوتاریخی قدم
بتاتے ہولئے اس کاخیرمقدم کیاہے،اوران اراکین پارلیمنٹ نے واضح کردیاہے کہ
اس سلسلہ میں پارلیمنٹ میں کسی بل کوپاس نہیں ہونے دیاجائے گا،ان ممبران
میں کشمیرسے رکن پارلیمنٹ غلام عباس نے کہاکہ اس سلسلہ میں نہ توکوئی بل
پارلیمنٹ میں آئے گااورنہ ہی اسے پاس ہونے دیاجائے گا،اس موقع پرآزادرکن
پارلیمنٹ محمدادیب نے بڑی اچھی بات کہی ہے انہوں نے کہا کہاکہ ہم سپریم
کورٹ کے فیصلہ کاخیرمقدم کرتے ہیں، اور ۳۷۷میں کسی ترمیم کی کوئی گنجائش
نہیں ہے،کچھ لوگ مغربی ممالک کاحوالہ دے کرہم جنس پرستی کوجائزقراردینے کی
کوشش کرتے ہیں جب کہ ہماراکہناہے کہ اگرپوری دنیاوحشی ہوجا ئے توکیاہم بھی
وحشی ہوجائیں اورغیرفطری عمل میں ملوث ہوجائیں،انہوں نے کہاکہ مغرب کی
جوقابل قبول چیزیں ہیں وہ ہم لے رہے ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ان کا
ہرعمل اورہربات ہمارے لیے قابل قبول ہوجائے۔
واضح رہے کہ اس سلسلہ میں۱۹۷۷ء کے درمیان مغرب میں ایک نعرہ بہت
مشہورہواتھاجسے کنزرویٹیوکرسچن نے دیاتھا’’God made adam and eve not Adam
and Steve‘‘یعنی اﷲ نے فطرت کے مطابق آدم اورحواکوپیداکیانہ کہ آدم
اوراسٹیوکو۔اسی طرح انگلینڈکے ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کے ایم پی ڈویڈسمپسن
نے بھی ہم جنس پرستی قانون کے خلاف آوازاٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ایوان حکومت
میں یہ نعرہ بلندکیاتھا۔بہرحال ہمیں اس فیصلہ کاہرچہارجانب سے خیرمقدم
کرناچاہیے اورحکومت پرمستقل دباؤ بناناچاہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ
کوبرقراررکھے اوردفعہ ۳۷۷؍میں کسی قسم کاچھیڑچھاڑنہ کرے،ورنہ جس طرح ۲۰۱۳ء
کے اسمبلی الیکشن میں اس چارریاستوں میں براحال ہوا۲۰۱۴ء کے عام انتخابات
میں اس سے بھی براحال ہوسکتاہے۔٭٭٭ |