آئین اور قانون کی حکمرانی کا تاریخی کا باب

ڈر ہے کہ جس ڈر کی وجہ سے ملک کا نظام ماضی کے60 سال کے مقابلے میں درست سمت کی جانب بڑھنے لگا تھا ، سیاست دان، بیورو کریٹ ، سرکاری نوکر ، پولیس اور حساس ادارے تک قانون پر عمل کررہے تھے، اب کہیں دوبارہ وہ لاقانونیت کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے جو ملک کے اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ کرکے قانون شکن عناصر کو طاقتور کررہا تھا۔آزاد عدلیہ کے خوف نے ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھنے میں مدد دی ، یہ ہی خوف تھا جس کی وجہ سے ملک کی تاریخ میں ایک جمہوری حکومت نے اپنا ’’ جمہوری دور ‘‘ مکمل کیا اور دوسری جمہوری حکومت قائم ہوئی ۔ ایسا کیونکر ہوا ۔۔۔۔اس لیے ممکن ہوا کہ آمریت پسندذہن کے جرنیلوں کو آئین توڑنا ، ملک سے جمہوریت کی بساط کو لپٹنا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن لگنے لگا ۔یہ سب کچھ اس ایک شخصیت کی وجہ سے ممکن ہوا جس نے آمر پرویز مشرف کے سامنے جھکنے سے انکار کردیاتھا، ان کی پیشکش ٹھکراکر انہیں آئینہ دکھادیا تھا۔چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے 2007 میں سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کی بات ماننے سے انکار کرکے دراصل آمروں کے سامنے ،ملک کے آئین کی بقا کے لیے ڈٹ جانے کا طریقہ متعارف کرایا، لوگوں کو پیغام دیا کہ حق کے لیے ڈٹ جانے اور قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے سے ہی ملک کا نام دنیا میں روشن کیا جاسکتا ہے ۔

محترم افتخار چوہدری 11 دسمبر کو ریٹائرڈ ہوگئے ہیں ،آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے تو جناب افتخار
محمد چوہدری ’’ سابق چیف جسٹس ‘‘ ہوچکے ہونگے ۔ مجھے ان کی ریٹائرمنٹ سے نہیں بلکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پرانے لاقانونیت کے راج کے بحال ہوجانے کے خدشات سے ڈر ہے ،ان خدشات سے ہی میں ڈر رہا ہوں۔اگر ہم زبردستی کسی کی خواہشات کے تحت یہ مان لیں کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کچھ بھی نہیں کیا تب بھی ہم کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار عام افراد کو یہ بتایا کہ ’’ عدالت کسے کہتے ہیں ؟

سپریم کورٹ کیا ہوتی ہے ؟ قانون کتنا طاقتور ہوتا ہے؟ ‘‘۔ نئے پاکستان کی شروعات اس وقت نہیں ہوئی جب ملک میں پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنا دورانیہ پورا کیا بلکہ اس وقت شروع ہوچکی تھی جب افتخار چوہدری کی سربراہی میں وکلا اور سول سوسائٹی نے آئین اور قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔نئے پاکستان کی توثیق اس وقت ہوئی جب ملک کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ میں اس وقت کے
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بدعنوانی کیس میں پیش ہوئے اور بعدازاں عدالت سے سزا پائی ۔پھر دوسرے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی قانون کا سامنا کرنا پڑا۔جسٹس افتخار چوہدری کے پورے دور میں لوگوں کو احساس ہوتا رہا کہ پاکستان میں آزاد عدلیہ ہے ۔سی این جی کی قیمتوں میں 35 روپے کی کمی بھی افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن کے باعث ہی ممکن ہوسکی تھی ۔ وہ ہی سوموٹو ایکشن جس کی وجہ سے لاپتہ افراد کا معاملہ قانون کی گرفت میں آیا اور اب تمام لاپتا افراد کا علم ہونے کا یقین ہو چلاہے ۔ یہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس ہی تھا جس کی وجہ سے سی این جی اور بجلی کے نرخ حکومت بڑھانے میں ناکام رہی، یہ سوموٹو ایکشن ہی تھا جس کے باعث ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مسلسل 29 ,28سال سے ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کی صورتحال کا سدباب کرنے کی سبیل پیدا ہوئی ۔اور یہ ہی وہ سوموٹو ایکشن ہے جس کے بارے میں نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی رخصتی کے وقت اور اپنا عہد ہ سنبھالنے سے قبل موقٗف اختیار کیا کہ’’ ازخود نوٹس کے معاملات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ‘‘۔نئے چیف جسٹس کے اس بیان پر تبصرہ یا بحث کرنا مناسب نہیں ہے ،توہین عدالت کا بھی الزام لگ سکتا ہے اس لیے اس معاملے کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اسی عمل سے قلم کا اور میرا تحفظ ہوگا۔مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ میں کالم کے آغاز پر ہی کہہ چکا ہوں۔لیکن ابھی مزید بات کرتے ہیں افتخار محمد چوہدری کی ۔ لوگ کہتے ہیں وہ ریٹائر ڈ ہوگئے لیکن میں کہتا ہوں وہ جو کام کرگئے اس میں لوگ ریٹائرڈ نہیں ہوتے ، ان کے اقدامات قانون کی کتابوں کاحصہ بن چکے ہیں ۔اس لیے ان کا ہر اقدام ’’ جاریہ ‘‘ کہلایا جائے گا ،مقدمات میں ان کے فیصلوں سے رہنمائی لی جائے گی ۔۔۔اس طرح وہ ہمیشہ خدمت کرتے رہیں گے ،قانون دانوں کو رہنمائی ان کے فیصلوں اور ریمارکس سے ہمیشہ ملتی رہے گی۔

جناب افتخار محمد چوہدری
16مارچ 2009کو اپنے عہدے پر بحال ہوکر نہ صرف پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے سمیت کئی مقدمات پر فیصلے سنائے بلکہ پاکستان کا دنیا بھر میں قانون اور آئین کی حکمرانی کے حوالے سے نام بھی بلند کیا ، انہیں ہارڈ ورڈ لاء اسکول کی طرف سے میڈل آف فریڈم ایوارڈ دیاگیاوہ پہلے پاکستانی اور دنیا کی تیسری شخصیت ہیں جنہیں یہ ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اس سے قبل جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا اور اولیور ہل کو یہ ایوراڈ دیاگیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جو کچھ کرسکتے تھے ، ملک اور قوم کے لیے کرکے ملازمت سے باعزت طریقے سے رخصت ہوگئے ،ان کی رخصتی بھی آمد کی طرح تاریخی تھی۔بس اب دعا کی جاسکتی ہے کہ اﷲ ہمارے دیگر جج صاحبان کو ان کے اقدامات سے رہنمائی حاصل کرنے اور ان کی تقلید کرنے کی توفیق عطا کرے ،آمین۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165788 views I'm Journalist. .. View More