وینڈی ایک عام سا لڑکا تھا جو
سرکس اور تھیٹر بڑے شوق سے دیکھتا اور جاسوسی ناول بڑی رغبت سے پڑھتا
۔وینڈی کے والد نے اپنے بچوں سے کہہ رکھا تھا کہ جو لڑکا سب سے زیادہ بے
ساختہ فقرہ کَسے گا اُسے آملیٹ اور مربّہ زیادہ مقدار میں ملے گا ۔چونکہ
وینڈی کو آملیٹ اور مربّہ بے حد پسند تھے ، ا س لیے فقرے بازی میں وہ بہت
جلد تیز و طرارہو گیا ۔ایک دفعہ وینڈی کے ہاتھ قانون کی کتاب لگی جو اُسے
جاسوسی ناولوں سے بھی زیادہ دلچسپ محسوس ہوئی اور اُس نے وکیل بننے کا پختہ
ارادہ کر لیا ۔1864ء میں وینڈی نے ہاورڈیونیورسٹی سے لاء گریجوایٹ کیااور
وکالت شروع کر دی لیکن وکیل بننے کے بعد ایک سال تک وہ اتنے پیسے بھی نہ
کما پایا کہ اپنے دفتر پر اپنا بورڈ لکھوانے میں بھی کامیاب ہو سکے ۔ اپنے
باپ کے گھر کی تیسری منزل پررہنے والے وینڈی کی بیوی پورا سال محنت کرتی
رہی تب کہیں جا کر وہ اپنا الگ گھر لینے میں کامیاب ہو سکے ۔وینڈی کے پاس
چونکہ سارا وقت فالتو ہی ہوتا تھا اِس لیے اُس نے عظیم قانونی کلاسک کتاب
’’امریکی قانون پر تبصرہ‘‘ کی از سرِ نَو تدوین شروع کر دی ۔وہ اکثر اپنی
بیوی سے پوچھتا ’’ فینی! کیا میں کامیاب ہو جاؤں گا‘‘ ۔فینی جواب دیتی
’’کیوں نہیں وینڈی ! مجھے یقین ہے کہ تم ایسا کرکے رہو گے ‘‘۔آخر کار وہ
اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اور اپنی چالیسویں سالگرہ پر وہ کتاب لکھ ڈالی
جسے امریکی قانون میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔کچھ ہی عرصے بعد’’ ماسا
چوسٹس‘‘ کی سپریم کورٹ میں اُسے جج بنا دیا گیا ۔یہ وہی وینڈی تھا جسے
دُنیا ’’آلیوروینڈل ہومز‘‘ کے نام سے جانتی ہے اور جسے حکومتِ برطانیہ نے
بھی ایک بہت بڑا اعزازبخشا ۔
وینڈل ہومز اکثر معاملات پر دوسرے ججوں سے اختلاف کرتا رہتا ۔ اُسوقت
امریکہ میں کسی دوکان کے سامنے مزد وروں کے مظاہرے کرنے کو غیر قانونی قرار
دیا جاتا تھا لیکن 1896ء میں جب وینڈل ہومز کی عدالت میں ایک ایسا کیس آیا
تو اُس نے مزدوروں کے اِس حق کو جائز قرار دے دیا ۔فیصلہ سنانے کے بعد اُس
نے کہا’’میں نے اپنی ملازمت میں ترقی کا راستہ خود ہی بند کر لیا ہے‘‘۔
لیکن اُس کا یہ اور ایسے دوسرے کئی فیصلے اُس کی مزید کامیابیوں کا پیش
خیمہ ثابت ہوئے ۔اُن دنوں امریکی صدر روزویلٹ واشنگٹن میں ٹرسٹ کی اجارہ
داریاں ختم کرنے پر تُلا ہوا تھا اُس نے وینڈر ہومز کو امریکہ کی سپریم
کورٹ کا جج بنا دیا ۔اُسے یقین تھا کہ وینڈر ہوم اُس کی مرضی کے مطابق عمل
کرے گا لیکن پہلے ہی بڑے مقدمے میں ہی ہومز نے ویلٹ کے خلاف فیصلہ سنا دیا
جس پر وہ غصے سے کھول اُٹھالیکن اِس کے بر عکس امریکی بہت خوش تھے جن کی
اُمیدوں کے مطابق ہومز ایک غیر جانبدار جج نکلا۔اُس کی حکومت سے اختلاف
پسندی روایت بن چکی تھی اسی لیے اُسے ’’عظیم اختلاف پسند‘‘ کہا جاتا تھا
۔سپریم کورٹ کے سب سے معزز جج کو لوگ اُس وقت بھی سپریم کورٹ کا سب سے جوان
جج کہا کرتے تھے جب وہ ستاسی برس کا تھا ۔
مجھے وینڈل ہومز اور جسٹس افتخار محمد چوہدری میں بہت سی مماثلتیں نظر آئیں
جن کی بنا پر میں نے وینڈل ہومز کا تذکرہ کیا ۔چیف صاحب پر یہ اعتراض کیا
جاتا ہے کہ ججز کے فیصلے بولتے ہیں زبان نہیں جبکہ چیف صاحب اپنے جذبات کا
بَر ملا اظہار کردیتے ہیں ۔وینڈل ہومز ستّر سال کی عمر میں بھی امریکی
سپریم کورٹ میں فقرے بازی سے باز نہ آتا اور اُس کے اکثر معنی خیز فقرے
ریکارڈ میں سے خارج کرنے پڑتے ۔ہومزعوام میں اپنے حکومت مخالف فیصلوں کی
وجہ سے بے پناہ مقبول ہوا ۔یہی مقبولیت جسٹس چوہدری کے حصے میں بھی آئی
لیکن اُنہیں آمرمشرف نے پسند کیا نہ پیپلز پارٹی نے اور نواز لیگ بھی اسی
انتظار میں رہی کہ جسٹس چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی بڑے بڑے فیصلے کرنے
میں عافیت ہے لیکن شاید اکابرینِ نواز لیگ نہیں جا نتے کہ اب سپریم کورٹ
میں ایک نہیں سترہ افتخار محمد چوہددری بیٹھے ہیں۔کون ہوگا جو اپنی ملازمت
کے آخری حصے میں عظمتوں کی اُن انتہاؤں کو چھونے کا طلبگار نہ ہو گا جو
جسٹس چوہدری کے حصے میں آئیں؟۔
ایک نیوز چینل کے ٹاک شو میں ایک بزرجمہر کہہ رہا تھا کہ جسٹس افتخار محمد
چوہدری تو انٹر کے امتحان میں فیل ہو گیا تھا اور ایسے اوسط ذہن کے مالک
شخص کا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن جانا ہی بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے
۔اُس ٹاک شو کا اینکر بھی کا غذ لہرا لہرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا
تھا کہ چیف صاحب باربار فیل ہوتے رہے ہیں ۔(جعلی) ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی
اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے نئے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ ارسلان
افتخارکیس پر از خود نوٹس لیتے ہوئے کیس ری اوپن کیا جائے اور ’’باپ ، بیٹے
‘‘ کا نام ای۔سی۔ایل میں ڈالا جائے ۔اعتزازاحسن کہتے ہیں ’’ چیف جسٹس کی
بحالی میں میرا بہت بڑا کردار تھا ، میں جیل گیا ، جلسے جلوس نکالے ،
لاٹھیاں کھائیں لیکن وہ میری توقعات پر پورا نہیں اُترے ‘‘ ۔اعتزاز صاحب کے
خیال میں چیف صاحب پیپلز پارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے تھے جبکہ نواز لیگ
کے ساتھ اُن کا رویہ مشفقانہ تھا ۔کچھ ایسے ہی خیالات علی احمد کُرد ،عرفان
قادر اور محترمہ عاصمہ جہانگیرکے بھی تھے ۔نیوز چینلز نے بھی اپنے ٹاک شوز
میں چُن چُن کے ایسے لوگوں کو بلایا جن کی چیف صاحب سے مخاصمت مسلمہ تھی
۔نیوز چینلز تو خیر ہیں ہی کاروباری ادارے جنہیں بہرحال اپنی ریٹنگ بڑھانی
ہوتی ہے ۔رہی دیگر ’’افلاطونوں‘‘ کی بات تو شاید ہی اہلِ فہم میں سے کوئی
ایسا ہو جو عرفان قادر اور احمد رضا قصوری کی باتوں کا جواب دینا پسند کرتا
ہو ۔محترمہ عاصمہ جہانگیر تو ہیں ہی ’’مُوڈی‘‘ ۔ اگراُن کے ’’متضادبیانات‘‘
کو مرتب کیا جائے تو انسائیکلوپیڈیا سے بڑی کتاب مرتب ہو سکتی ہے ۔علی احمد
کُرد صاحب کی تو بلوچستان میں بھی کوئی پہچان نہیں تھی ۔یہ تو محض چیف صاحب
کی برکت تھی جو اُنہیں سپریم کورٹ بار کا صدر منتخب کر لیا گیا وگرنہ لوگ
اُن کی تقریریں محض ’’ چسکے‘‘ لینے کے لیے سنا کرتے تھے ۔بابر اعوان کو’’
شاعری ‘‘لے ڈوبی وہ پہلے بھی اپنی بدکلامی کے ہاتھوں توہینِ عدالت بھگت چکے
ہیں ۔اعتزاز احسن صاحب کو تو پیپلز پارٹی نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے
لیے ہی چیف صاحب کا ’’ڈرائیور‘‘ بنایا تھا لیکن جب سپریم کورٹ نے’’احسان نا
سپاسی‘‘ کرتے ہوئے اعتزاز صاحب کی مَن مرضی کے فیصلے دینے سے انکار کر دیا
تو پیپلز پارٹی کی سازشوں کا محل دھڑام سے گر گیا ۔ٹاک شو کے ’’بزرجمہر ‘‘
کو کون بتلائے کہ تاریخِ عالم میں ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں
واجبی سی تعلیم کے حامل افراد نے محیر العقول کارنامے سر انجام دیئے ۔ ۔۔
مجھے ہمیشہ دو اصحاب کی حالت قابلِ رحم لگتی رہی ، ایک جناب آصف زرداری اور
دوسرے اعتزاز احسن ۔ محترمہ بینظیر کی شہادت کے جذباتی ماحول میں جنابِ
زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر آسمان کی وسعتوں کو چھو لیا اور
جنابِ اعتزاز احسن نے عدلیہ بحالی تحریک میں فعال کردار ادا کرکے۔آقا ﷺکا
فرمان ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور چونکہ اِن دونوں اصحاب
کی نیتوں میں فتور تھا اِس لیے دونوں آسمان کی وسعتوں سے سیدھے پاتال کی
گہرائیوں میں جا گرے۔اہلِ نظر خوب جانتے ہیں کہ ربّ ِ کردگار اپنے بندوں کے
لیے جگہ جگہ نشانیاں چھوڑتا ہے ۔کیا چیف صاحب کی دیانتوں کی یہ گواہی کافی
نہیں کہ آج وہ آمر جگہ جگہ رُسوا ہو رہا ہے جس کے حکم پر چیف صاحب کو بالوں
سے پکڑ کرگھسیٹا گیا اور چیف صاحب کو ایسے الوداع کیا گیا کہ جس کی نظیر
پوری تاریخ میں نہیں ملتی اور جس کے بارے میں اُس کی ٹیم کہتی ہے کہ وہ بڑے
فخر سے اپنے پوتوں کو بتلایا کریں گے کہ وہ اُس ٹیم کا حصہ تھے جس کی سر
براہی جسٹس افتخار چوہدری کے پاس تھی اور نئے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ افتخار
محمد چوہدری میرے ’’رول ماڈل‘‘ ہیں۔ |