’’ماں‘‘ کا لفظ ان گنت وحساب معانی کا
مرقّع، لا تعداد وشمار خوبیوں کا مرصّع ہے، ’’ماں‘‘ دنیائے الفاظ کا سب سے
خوبصورت ترین گوہر ہے، کلمات کے بیکراں محیطوں کا نفیس یاقوت ومرجان ہے،
اسی لئے جب حسن ِ الفاظ کا مقابلہ ہوتا ہے تو صدارت کی کرسی اسے کے لئے
مختص کی جاتی ہے اور صدرِ کلام کے لقب سے ملقب ہوتا ہے، الفاظ کی دنیا میں
سب سے زیادہ استعمال ہونے کا شرف بھی ’’ماں‘‘ کو ہی حاصل ہے، کسی بھی زبان
میں پرکھیں تو لفظ ِ ’’ماں‘‘ سب سے پیارااور جاذبیت سے بھرا ہوتا ہے
بالاجمال چند زبانوں میں ملاحظہ فرمائیں: ماں، الا ُم، مادر، ماتا، والدہ،
ماما، مام۔۔۔ وغیرہ کیا ہی خوب الفاظ وکلمات ہیں، جن سے موتی کی چمک، گلاب
کی نکہت، غنچے کی رعنائیت، سونے کی تمتماہٹ، ستارے کی جھلملاہٹ نیز دنیائے
حسن ولطافت کی تمام تر خوشنمائی ورعنائی چھلکتی ہیں جو دلوں کو خوش وخرم
اور شاداں وفرحاں رکھنے کی رسد واسباب کا کلیدی کردار ادا کرتی ہیں؟؟
اور یہ سب کیوں نا ہو کیونکہ ’’ماں‘‘ اس سے بھی بڑھ کر فضائل وشمائل کی
حامل ہیں، خصائل ِ حمیدہ اور خصائص ِ نبیلہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی
ہیں، بایں ہمہ اس کے حق میں گفتنی کے لئے شایانِ شان الفاظ وتراکیب ناپید
ہیں، جذباتِ فرطِ محبت کو الفاظ وجملوں کے قالب وڈھانچے میں ڈالنے میں
تقصیر وعجز کا شکار ہوتا ہے، قلم کو جنبش دینے میں نامرادی اور لا حاصلی
دامن گیر رہتی ہے، ’’ماں‘‘ ایک ایسی وسیع وفسیح کائنات ہے کہ پتہ نہیں کہاں
سے، کیسے، کس طرح، کب اس کی تصویر کشی کی جائے تو بہتر ہوگا اسی سوچ وبچار
میں گم صم اس کے سامنے سب انگشت بد نداں ہو کر حیران وششدر کھڑے ہیں؟؟؟!!!
اگر میں فن مصوری سے آشنا ہوتا تو اسکی تصویری شکل پیش کر پاتا، اگر سخن
پرداز ہوتا تو الفاظ کے ذریعے بیان کرتا، اگر سخن دان ہوتا تو گفتاری کے فن
آزماتا، اگر شاعر ہوتا تو سخن وری کے جوہر دکھاتا، مگر اس کی تصویر
آنکھوں کے تلے میں پھرتی رہتی ہے، اور اسے حروف سے تشکیل نہیں دی جا سکتی۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ سب اہلِ ہنر مل بیٹھیں تب بھی ’’ماں‘‘ کے حقوق کا عشرِ
عشیر بھی ادا کرنے سے قاصر و عاجز رہیں گے، کیونکہ اس کی ذات دنیا آباد
رکھنے کا واحد ذریعہ وسبب ہے، سننے میں ملتا ہے کہ عورت نصفِ مجتمع ہے،
لیکن اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں بلکہ بجا ہو گا کہ ’’ماں‘‘ ہی پورا
معاشرہ اور مجتمع ہے کیونکہ نا ہو یہ سبب تو مسبَّب کا تصور ہی نا ہو۔
اس عالم ِ ہست وبو میں اسی سے حلاوتِ عطوفت وحنان ہے وہی رحمت وشفقت کا
مصدر، الفت ومحبت کا منبع، صبر وتحمل کی پیکر، وفا وایثار کی دیوی ہے۔ اسی
لئے الفتوں کے لالہ زاروں کا نکھار ، وفاؤں کے دیوتاؤں کے گلستانوں کا
سنگار، سخن سنجوں کے باغوں کے بلبلوں کا ترنم، بستانوں کے گلوں اور غنچوں
کا تبسم اسی کے دم سے ہے۔ آفتاب کی کرنوں کی تپش، مہتاب کی چاندی روشنی،
دھنک کی خوبرو رنگت، گلابوں کی مہکتی نکہت میں ’’ماں‘‘ کی محبت وخلوص کی پر
تاثیر آمیزش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ’’ماں‘‘ کو جو منزلت وفوقیت عطا کی ہے وہ کسی اور
کو حاصل نہیں ہے اور کسی مذہب یا ثقافت نے اتنی برتری اسے دی ہے نا ہی ان
کے ہاں اس کا تصور پایا جاتا ہے، اسلام نے والدین کی فرمانبرداری کو اپنا
نصب العین گردانا ہے، انکا ہر فرمان واجب الاذعان ہوتا ہے بشرطیکہ خالق کی
معصیت سے پاک ہو، ان کی نافرمانی سے احتراز لا محالی ہے، یہاں تک کہ رب
کریم نے اپنی رضا اور خفا کو ان کی رضا و خفا سے مربوط کر دیا ہے، اسی لئے
اف ’’تافیف‘‘ تک کہنا بھی شریعت ِ محمدی علی صاحبہا افضل الصلاۃ والسلام
میں محظور و ممنوع قرار پایا ہے، اگر اس سے بھی کوئی ادنی اذیت رسا لفظ
ہوتا
تو اس سے بھی اجتناب ضروری ٹھہرتا، دین ِ حنیف میں والدین کے ساتھ اچھے
برتاؤ کرناعین عبادت ہے اور صبح وشام، لیل ونہار، سرما وگرما، بہار وخزاں،
جوانی وبڑھاپے میں بلا تمییز وتفریق انکی خدمت وعزت، احترام واکرام، ان سے
پیار ومحبت، الفت ویگانگت کرنا فرض ہے، اس میں کوئی خاص دن یا خاص گھڑی
متعین نہیں ہے بلکہ ہر وقت، ہر لمحہ، ہر ساعت سرمدی وابدی احسان کرنا فرضِ
کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہے، صرف یہ کافی ہے کہ ’’ماں‘‘ جنت میں جانے کا
شارٹ کٹ راستہ اور فردوس کا بابِ عظیم ہے، ان کے قدموں کے نیچے جنت چھپی
ہوئی ہے۔
دین ِ اسلام میں اقدار وقیم، تہذیب وتمدن، کردار وگفتار کے ہر وہ گر وزاد
موجود ہیں جن کو اپنا کر کوئی بھی معاشرہ زندگی کی پستیوں سے اوجِ ثریا پر
کمندیں باندھ سکتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں جو روایات اور ثقافت رائج ہیں
اور اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں ہیں ان کو چھوڑ کر مغربی اقدار وتقالید
کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا، ان کے ہر قول وفعل کو اپنانا یقینا ہمارے
انحطاط وتنزل کا منہ بولتا ثبوت ہے، مگر صدہائے افسوس ستم ظریفی دیکھیں کہ
کس حد تک مشرقی آدم زادہ مغرب زدوں کی اقتدا وپیروی میں بھاگم بھاگے جا
رہے ہیں اور یہ سوچتا بھی نہیں ہے کہ آیا یہ میرے مذہب و کلچر کا منافی تو
نہیں ہے؟؟!! یوں ہی مغرب کے رنگوں میں رنگتے جاتے ہیں یہ سوچنا بھی گوارا
نہیں کرتا ہے کہ یہ کلرز خوش نما اور خوش رنگ ہے کہ بدنما و بد رنگ؟؟
٭٭٭٭٭
۸ مئی کو دنیا میں مغرب کی ایجاد کردہ سینکڑوں اعیاد میں سے ایک عید ’’مادر
ڈے‘‘ بڑی شان وشوکت اور پر تپاک انداز میں منائی جا رہی ہے، جس میں بیش بہا
ہدیے ، تحائف، گفٹز ’’ماؤں‘‘ کو پیش کی جا رہی ہیں، ان تمام ماؤں کو
ـ’’تعزیت‘‘ پیش کرتا ہوں جو بے چارے ان بے معنی تحفوں کے حصول میں اپنی
عمرِ عزیز کی ایک بہار کھپا چکی ہیں اور آئندہ اور ایک بہار کی مدتِ دراز
کاٹنے پر انہیں پھر ایک اور گفٹ ملے گی۔
جب سے مغرب میں حتی کہ چند مسلم ممالک میں ’’اولڈ ہاؤسنگ‘‘ کا سلسلہ جاری
ہوا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہاؤسز ’’باباؤں‘‘ اور ’’ماماؤں‘‘ سے
معمور ہوتے گئے اور ساتھ ہی بہت سے خاندانی روایات کے جنازے اٹھ گئے، اولاد
کو اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بال کرنا وبال جان لگنے لگا، بیگمات کی
فرمائش اور دوسروں کی دیکھا دیکھی میں یہ روایات بلکہ زندگی کا ایک حصہ بن
گیا اور اپنے والدین کو ان ہاؤسز میں دھکیل دینے میں کسی قباحت یا مضائقہ
کا احساس تک دل میں نا رہا، لہذا سال میں اپنے ہی گھروں سے دھتکارے ہوئے بے
سہارا بوڑھی ماؤں اور باپوں کے لئے ایک دن مختص کر کے اس زعم میں مبتلا
رہے کہ ہم نے ان کے حق چکا دیئے ہیں، اور وہ بے چارے احساسِ محرومی کی نظر
ہو گئے، اس کا احساس ان ہٹے کٹے نوجوانوں کو اس وقت ہو گا جب اس کا ٹھکانہ
بھی ان شاء اللہ وہی بھیانک اور خوفناک فیسیلیٹیز سے معمور ’’ ہاؤسز‘‘
ہونگے، پھر ان کو ’’مادر ڈے‘‘ اور ’’فادر ڈے‘‘ کی اصلی حقیقت سے روشناسی
حاصل ہو گی۔ یہ مادر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے، کتا ڈے، بلی ڈے، سور
ڈے،،،،،، پتہ نہیں کیاکیا ڈیز ایجاد کر رکھے ہیں، یہ سب ان لوگوں کے لئے
ہیں جو سال بھر میں ایک دفعہ ان جذبات کا اظہار کر کے اس زعم ِ خویش میں
مبتلا رہتے ہیں کہ انہوں نے ان کا کما حقہ حق ادا کر دیئے ہیں، حالانکہ
انہوں نے ان کے حقائق کو پہچانا تک بھی نہیں ہے۔
اسی لئے ہر روز، ہر شب، ہر صبح، ہر شام، ہر آہٹ، ہر ساعت اس عظیم ہستی کے
نام ہونا چاہئے، جو کہ ہم سب کے اس فانی دنیا میں وجود کا مجازی سبب ہے اور
ہم سب جس کے ٹکڑے ہیں جس نے ہمیں اپنے خون سے سینچا ہے، بالتخصیص اس دور
میں ہر دن (ایوری ڈے) عید ِ ام (مادر ڈے) ہونا چاہئے جب ’’اولڈ ہاؤسز‘‘ کا
دائرہ آئے روز پھیل رہا ہے اور اس تنگ وتاریک دنیا کے باسیوں کی تعداد میں
ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، مغرب سے چلنے والی اس گھناؤنی آندھی کے آثار
اسلامی ریاستوں، مملکتوں، معاشروں میں بھی نمودار ہو نا شروع ہو چکا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو ان عظیم، جلیل القدر ہستیوں کی قدر دانی کرتے ہوئے حتی
الوسع انکی خدمت گزاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، جن کے والدین داغِ مفارقت
دے چکے ہیں ان کی لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر فرما، {رب ارحمہما کما ربیانی
صغیرا }کے معانی کو سمجھ کر کثرت سے ورد کرنے کی توفیق دے، اور خدا کرے کہ
ہر دن ماؤں کے نام ہو۔ آمین یا رب العالمین۔ |