امت محمدیہ

اللہ تعالی نے قرأن مجید فرقان حمید ایک ایسی کامل ھدایت امت محمدیہ کو اپنے پیارے حبیب ﷺ کے ذریعے عطا فرمایَ جسکی مثال نھیں ملتی۔ اس بہر بیکراں سے لاکھوں کروڑوں فرزندان توحید ھدایت کے موتی چنتے رہتے ہیں اور امت کے عام لوگوں کو بھی مستفید کرتے رہتے ہیں۔ کویٔ اپنی تقاریر و بیان سے تو کویٔ اپنی تحریر و تصیفے سے۔ انہی میں ایک سر فہرست نام علامہ اقبالؒ کا بھی ہے جن کی شاعری میں قرآن کی تفسیر بھی ملتی ہے:
کھل گۓ یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ینسلون

اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی احسان سے انسانوں کو ایک سچے اور آخری رسول کی امت میں سے ہونے کی سعادت بخشی اور اس امت کے بہترین امت ہونے کی بشارت بھی اسی قر آن کے ذریعے مسلمانوں کو دی گییَ۔ فرمایا گیا:
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تا مرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ ٌ
سورۃ ال عمران آیۃ ۱۱۰: ۳

اللہ تغالی نے اپنی آیت کریمہ میں یہ بھی ھدایت فرمایٔی کہ تم اس لیے بہترین امت ہو کہ بھلایٔ اور خیر کی تلقیین کرتے ہو اور برا یٔی سے روکتے ہو ، تمھیں لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔
بتررین امت ہونے کی صفت پر پورا اترنے کے لیے اللہ نے جناب محمد ﷺ کے اتباع کا حکم فرمایا:
قل ان کیتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفر لکم ذنوبکم، وللہ غفور رّحیم۔
سورۃ ال عمران آیۃ ۳:۳۱
قارئین کرام یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ دین صرف اتنا ہی ہے جو اور جتنا نبی اکرم ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو بتایا:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔
سورۃ المآیٔدہ آیۃ ۵:۳

عجیب اتفاق ہوا کہ ہم آج کے مسلمانوں نے اپنی زندگیوں میں بے تحاشا چیزوں کا اوران سے متصل کاموں کا، خود اپنی عقل سے نہایت بےجا اضافہ کر لیا۔ آج کے دور کی وہ تمام چیزیں ہم نے اپنا لیں اور اپنی زندگی کے معمولات کا لازمی حصہ قرار دےدیا جن کی نہ تو صحابہَ کرام سے نہ خلفاےَ راشدین سے اور نہ ہی ہمارے آقا جناب محمد ﷺ کی حیات طییبہ سے ان معمولات کا پتا ملتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اسی رنگ میں ڈھالنا شروع کیا جس طور سے غیر ممالک کے کفارو مشرکین اور یہود و نصارا نے اپنی زندگیوں اور شہروں قصبوں کی تشکیل کی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ہم ان چیزوں کے اور اس طریقہَ زندگی کے غلام بنتے چلے گےَ جس نے ہمیں دین سے بہت دور کر دیا۔

مثال کے طور پر آج ہر مسلمان کی جیب میں یہ موزی موبایَل ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ کویَ صاحب دین یہ نہیں کتاا کہ یہ چیز نہ میرے ماں باپ کے پاس تھی نہ ہی ان کے باپ دادا کے پاس تو میں اسے کیوں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناؤں؟ ہم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس چیز کا استعمال نہ تو صحابہَ کرام سے نہ خلفاےَ راشدین سے اور نہ ہی ہمارے آقا جناب محمد ﷺ کے اسوہَ حسنہ سے ثابت ہے، مگر پھر بھی آج ہماری زندگی اس کے بغیر بالکل ادھوری ہے بلکہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے چند منٹ بھی اس کے بغیر گزارنے کا۔ اب ہر جماعت کی نماز میں ایک سے زیادہ مرتبہ موبایل فون کا بج جانا عیب کی بات نہیں۔ ہم اس حد تک اپنے دین میں تبدیلی لے آۓ ۔

ہاتھ پہ بندھی گھڑی، بغیر داڑھی کا چہرہ اور یہود کے بنکاری نظام کی اولاد کرنسی نوٹ جیب میں، پان بیڑی سگرٹ کی لت، جھوٹ کی سیاست یہ سب ہم مسلمانوں کے روز مرّہ کے معمولات ہیں۔ ذراےَ آمد و رفت کے لیے موٹر گاڑیاں اور ہوايَ جہاز ہمیں ایک لمحہ بھی یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتیں کہ ہماری زندگی کہاں سے کہاں آ گیٔ ہے۔

اللہ کی زمین پر ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا ممنوع نہیں پیغمبروں سے یہ عمل ثابت ہے۔ لیکن اس سفر کی حیٔت ہم لوگوں نے خود سے تبدیل کر لی۔ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں اور دنوں کا سفر منٹوں میں کرنا کفارو مشرکین کی ایجاد ہے ہم نے صرف ان کی اندھی تقلید کی۔ یہ طریقہ دین میں کسی سے ثابت نہیں۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں متعدد بار سفر کیا۔ اللہ رب العزت نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑہی مارنے پرجب پانی کا چشمہ جاری فرمایا (جسے آج بھی حجاج کرام اور زایٔرین بھر بھر کے لے جاتے ہیں اور جو قیامت تک جاری رہے گا) اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر ۴۰ دن یا اس سے کچھ کم تھی۔ آپ اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ اس بے آب و گیاہ وادی میں کیونکر پہنچے؟ آپ کی تو جاۓ پیداشٔ ارض مقدّس (موجودہ فلسطین)ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے والد صاحب آپ کو اور آپکی والدہ ماجدہ کو آپکی پیداشٔ کے یا تو فوراٍ ہی بعد یا پھر چند روز بعد ہی اللہ کے حکم سے لے کر چل پڑے اور اللہ ہی کے حکم سےاس جگہ چھوڑ کر واپس پلٹ گۓ جوجگہ بعد میں مکۂ معذمہ کہلایٔ۔ یہ سفر اس مختصر قافلے نے یقینا اونٹ پہ کیا۔ آج ہم دور دراز کا سفر دنیا کے حصول کیلیۓ اختیار تو کرتے ہیں لیکن اس کا طریقہ نہایت غیر اسلامی ہے۔ نبیوں کے طریقے پر سفر کرنے کا سوچنابھی آج مسلمانوں کے لیۓ ایک مزحکہ خیز بات ہے۔

گویا اللہ کے برگزیدہ نبی اور ان کی آل اولاد تو سفر کریں اونٹ کی پیٹھ پر اور ہم موٹر گاڑیوں اور ہواییٔ جہازوں میں سفر کرتے پھریں۔ یہ سراسر زیادتی ہے، غلط ہے، بدعت ہے۔ اگر تو مسلمانوں نےمحظ اپنے علم کے بل پر ، صرف اپنی کاوشوں سےہواییٔ جہاز اور موٹر کاریں بنا لی ہوتیں تب بھی کویٔ بات تھی کہ ہم لوگوں نےاپنے علم کے بل پر اتنی ترقی کر لی کہ اب ہم یہ چیزیں بنا کر دوسروں کو بھی بیچتے ہیں اور خود بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ چیزیں بنانے والےخوب سارا روپیہ لے کر ہم کو اپنی شرا یٔط پر یہ چیزیں دیتے ہیں اور یوں ہمیں اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ وہ روپیہ کمانے کے لیے ہمیں مزید دنیا میں کھپنا پڑتا ہے۔دو بیٔ جانا پڑتا ہے۔

Adil N. Rashid
About the Author: Adil N. Rashid Read More Articles by Adil N. Rashid: 4 Articles with 3919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.