گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رواں سال
احاطہ عدالت میں قتل کرنے پر گیارہ سالہ بچے کو دو بار عمر قید اور 2 لاکھ
جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔
اس موقع پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج چوہدری امتیاز احمد کے مطابق
بچہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے سزا دینے میں رعایت کی اور کم سے کم سزا دی
ہے۔
|
|
اس سے قبل 20 جون کو 2013 کو ملزم حافظ غیاث اقدام قتل کے الزام میں عدالت
میں پیش کیا گیا جہاں سماعت کے بعد ملزم کو باہر لے جایا جارہا تھا کہ اسی
دوران احاطہ عدالت میں موجود زخمی شخص کے بیٹے گوہر نواز نے ملزم پر فائرنگ
کر کے اسے قتل کر دیا۔
مقتول ملزم نے گوہر کے والد کو ذاتی دشمنی پر فائرنگ کر کے شدید زخمی کردیا
تھا جس سے وہ معذور ہو گیا۔
پولیس نے واقعے کے فوراً بعد ملزم کو گرفتار کر لیا جہاں اس کے خلاف احاطہ
عدالت میں قتل کرنے پر انسداد دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
قتل کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بچے کا کہنا تھا کہ وہ اپنے باپ کے
قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا جبکہ اس نے یہ پستول 500 روپے میں خریدا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق لڑکے نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور
ایک پختون شخص سے پستول خریدی جس نے اسے پستول چلانے کی تربیت بھی دی۔
|
|
آٹھویں جماعت کے طالبعلم گوہر نے بتایا تھا کہ ملزم اپنے چھ ساتھیوں کے
ہمراہ ان کے گھر میں داخل ہوا اور اسے بہن بھائیوں سمیت کمرے میں بند کرنے
کے بعد اس کے والد اور والدہ کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ان پر فائر کھول دیا۔
’’فائرنگ سے میرے والد کی ٹانگیں بری طرح متاثر ہوئیں جبکہ ملزمان فرار
ہوتے وقت گھر سے 60 ہزار روپے کی رقم بھی ساتھ لے گئے۔
بعد میں بچے نے تسلیم کیا کہ وہ لیڈیز ہینڈ بیگ میں پستول چھپا کر لے کر
گیا تھا-
ہفتہ کو سیالکوٹ روڈ پر واقع گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی مقامی
عدالت نے گیارہ سالہ گوہر کو مجرم قرار دیتے ہوئے اسے دو سال عمر قید(50
سال قید) اور دو لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا سوموٹو نوٹس
لینے کا مطالبہ
اس فیصلے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں اور انہوں نے چیف
جسٹس تصدق حسین جیلانی سے اس فیصلے پر سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
معروف سماجی رہنما انصار برنی اس فیصلے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور سوال کیا کہ اس بچے پر مقدمہ انسداد
دہشت گردی کی عدالت کی جگہ بچوں کی عدالت میں کیوں نہیں چلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بچے نے یقیناً جرم کیا لیکن اسے کم سزا بھی دی جاسکتی تھی،
اب اسے 50 سال سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا ہے جہاں سے وہ یقیناً ایک عادی
جرم اور برا دہشت گرد بن کر نکلے گا۔
برنی نے مزید کہا کہ ملک میں جن دہشت گردوں کو سزا دی جانی چاہیے وہ آزاد
گھوم رہے ہیں اور 11 سال کے بچے کو انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا
دی گئی، اس طرح کے فیصلے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بنیں گے۔
انہوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مقدمے پر سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے
جج کو طلب کر کے قرار واقعی سزا دیں۔ |