عشروں پہلے کسی سادہ لوح شہری نے جب یہ سنا کہ ’’ پیسہ
پیسے کو کھینچتا ہے‘‘ تو اپنے حالات بہتر ہونے کی توقع کی خوشی میں جھوم
اٹھا اوراپنی کل جمع پونجی ایک اٹھنی لیکر محلے کی دکان پر گیا اور دکاندار
سے پوچھا کہ کیا واقعی پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے؟جہاندیدہ کاندار معاملہ
سمجھ گیا اور مسکر اتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔شہری
نے معصومیت سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو دکاندار نے اس کی اٹھنی لیکر اپنے
پیسوں کے گلے کے سوراخ کے ساتھ رکھ دی اور اسے کہا کہ دیکھنا پیسہ پیسے کو
کھینچے گا۔اپنے حالات بہتر ہونے کے خواب دیکھنے والا شہری نہایت اشتیاق اور
تجسس سے گلے کے سوراخ کے ساتھ پڑی اپنی اٹھنی کودیکھنے لگا کہ کس طرح یہ
اٹھنی پیسے کو کھینچے گی۔کچھ دیر گزری تو شہری نے دکاندار سے پوچھا کہ پیسہ
پیسے کو کیوں نہیں کھینچ رہا،دکاندار نے کہا ،ذرا صبر۔کچھ دیر گزری تو شہری
کبھی اپنی اٹھنی کو دیکھتا اور کبھی ارد گرد نظر ڈالتا۔چالاک دکاندار نے جب
دیکھا کہ شہری کی توجہ دوسری جانب ہے تو اس نے اٹھنی کو اپنی انگلی سے ہلکا
سا دھکا دیکر گلے کے اندر ڈال دیا۔اپنے سنہرے مستقبل کے خواب سجانے والے
شہری نے جب گلے پر پڑی اپنی اٹھنی کی جانب نظر دوڑائی تو اسے غائب پا کر
ایک دم چلایاکہ ’’میری اٹھنی کہاں گئی؟‘‘دکاندار نے کہا کہ پیسہ پیسے کو
کھینچتا ہے،میرے پیسے زیادہ تھے لہذا میرے پیسوں نے تیری اٹھنی کو کھینچ
لیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں گاڑیوں کی قرضہ سکیم شروع
کی تو اس سے لوگوں کو بہت فائدہ ہوااور ملک بھر میں عوام کو کھٹارا پبلک
ٹرانسپورٹ کی جگہ نئی گاڑیاں میسر آئی۔اب وزیر اعظم نواز شریف نے ’’ پرائم
منسٹر یوتھ پروگرام ‘‘ کے نام سے نوجوانوں کے لئے بنک قرضے کی سکیم شروع کی
ہے تا کہ 21سے 45سال تک کے افراد مختلف نوعیت کے کاربار کر سکیں۔اس سکیم کے
تحت ایک لاکھ افراد کو کاروبار کرنے کے لئے بنکوں سے ایک لاکھ روپے سے بیس
لاکھ روپے تک کا قرضہ دیا جائے گا۔پچاس فیصد قرضہ خواتین کے لئے
مخصوص،بیواؤں،شہداء کے بچوں اور خصوصی افراد کے لئے پانچ فیصد کوٹہ۔قرضہ
ساتھ سال کی مدت میں واپس کرنا ہو گا۔اس قرضے پر بنک آٹھ فیصد منافع لے گا
جس میں سے سات فیصد حکومت ادا کرے گی اور ایک فیصد قرض دار ادا کرے
گا۔رہنمائی کے لئے بیالیس کاروبار تجویز کئے گئے ہیں تاہم اس کے علاوہ کوئی
بھی کاروبار اختیار کیا جا سکتا ہے۔یہ سکیم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے
لئے بھی ہے۔درخواست فارم نیشنل بنک،فرسٹ ویمن بنک اور سمیڈا سے مل رہے ہیں
اور ان فارموں کے ساتھ ایک ضامن(گارنٹر) کا فارم بھی دیا جا رہا ہے جس میں
ضامن سے تصدیق مانگی جا رہی ہے کہ وہ دستاویزات کی تصدیق،نادرا تصدیق،ای سی
آئی بی رپورٹ،رہائش/دفتر پتے کی تصدیق،چھ ماہ کے بنک سٹیٹمنٹ کی تصدیق،ٹیلی
فون پر تصدیق،کل مالیت کی تصدیق اور اس کے علاوہ بنک کی طرف سے طلب کردہ
کوئی بھی تصدیق فراہم کرنے کا پابند ہو گا۔تصدیق کنندہ بنک کے مخصوص
کاغٖذات پر گارنٹی ایگریمنٹ پر دستخط کرے گااور قرضے کی مالیت کے برابر تین
چیک ،بعد کی تاریخ کے دستخط کر کے بنک کے حوالے کرے گا۔قرض ادا نہ کئے جانے
کی صورت ضامن اس کا بڑا /مرکزی ذمہ دار ہو گا۔ قرضے کافارم،ضامن کے تصدیق
ناموں کے فارم کے ساتھ اپنا بزنس پلان بھی دینا ہو گا جس کی کل مالیت کا
نوے فیصد قرضہ دیا جائے گا۔درخواست پر پندرہ دنوں میں فیصلہ ہو گا اور قرضے
کی فراہمی کے ایک سال کے بعد قرضے کی رقم کی واپسی کی اقساط اور ایک فیصد
منافع کی ادائیگی شروع ہو گی۔
ایک لاکھ روپے قرضہ لینے والے کو قرضہ لینے کے ایک سال بعد سے ہر ماہ
تقریبا دو ہزار روپے (ایک ہزار قرضے کی رقم کی قسط اور ایک ہزار روپے منافع
کی رقم) مسلسل سات سال( چوراسی ماہ) ادا کرنے ہوں گے۔پانچ لاکھ روپے قرضہ
لینے والے کو ایک سال بعد سے مسلسل سات سال تک تقریبا گیارہ ہزار روپے
ماہانہ(تقریبا ساڑھے پانچ ہزار قسط اورتقریبا ساڑھے پانچ ہزارمنافع ) بنک
کو ادا کرنا ہوں گے۔دس لاکھ روپے قرضہ لینے والے کو ایک سال بعد سے تقریبا
بیس ہزار روپے ماہوار (تقریبا دس ہزار قسط اور تقریبا دس ہزار منافع بحساب
ایک فیصد)دینے ہوں گے۔اسی طرح بیس لاکھ روپے قرضہ لینے والے کو ایک سال کے
بعد سے مسلسل چوراسی ماہ تک ماہانہ تقریبا چالیس ہزار روپے بنک کو ادا کرنے
ہوں گے(تقریبا بیس ہزار قسط اور تقریبا بیس ہزار روپے منافع،بحساب ایک
فیصد) ۔اگر یہ حساب کتاب غلط ہے تو مجھے بتا یا جائے اور یہ بھی کہ ایسا
کونسا کاروبار ہے جو تقریبا بیس لاکھ روپے سے شروع کیا جائے اور صرف ایک
سال کے بعد اس سے تقریبا چالیس ہزار روپے منافع حاصل ہو جو بنک کو قسط اور
منافع کی مد میں واپس کیا جا سکے؟
ضامن کی ضمانت ایسی ہے کہ جس میں بنک کو باقی کئی گارنٹیز کے علاوہ قرضے کی
رقم کی مالیت کے برابر تین چیک بھی بعد کی تاریخ کے دستخط کر کے بنک کو
دینا ہوں گے۔یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ کسی کو دیا گیا چیک بنک سے واپس
ہونے پر مقدمہ درج ہو سکتا ہے اور چیک دینے والا جیل جا سکتا ہے۔اس صورتحال
میں وہ کون ہو گا جو ایک لاکھ سے بیس لاکھ روپے تک کا کاروبار شروع کرنے
والے کی ضمانت دے سکے؟یوتھ لون پروگرام کی چیئر پرسن مریم نواز کو بنایا
گیا ہے اورمسلم لیگ(ن) کے کئی افراد کو اس حوالے سے ذمہ داریاں بھی دی گئی
ہیں۔اب معلوم نہیں کہ وہ قرضے کی درخواستیں جمع کرانے والوں کی سفارش کریں
گے،فارم حاصل کرنے اور اس کے لوازمات پورے کرنے میں معاونت کریں گے یا قرضے
لینے کے خواہشمندوں کے ضامن بنیں گے؟
میرے خیال میں یوتھ لون پروگرام اپنی تفصیلات و انتظامات کے تحت بیروزگاروں
کی کوئی مدد نہیں کرتا بلکہ اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ قرض لینے والے
قرضے کی رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور جیل یاترا ہونے کے امکانات بھی
روشن ہیں۔اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس سکیم سے موجودہ کاروباری افراد
کو ایسے گاہک میسر آجائیں گے جو ہاتھوں میں قرضے کی نقد رقم لئے مختلف
نوعیت کے کاروبار شروع کرنے کے لئے موجودہ تاجروں سے مختلف نوعیت کا سامان
خریدیں گے۔یوں پیسہ پیسے کو کھینچے گا ،لیکن بیروزگاروں کا پیسہ دوسرے کے
پیسے کو نہیں بلکہ ان کے پیسوں کو زیادہ پیسے والوں کا پیسہ اپنے پاس کھینچ
لے گا۔ ’’ پرائم منسٹر یوتھ پروگرام ‘‘ کے تحت اس یوتھ لون پروگرام کو
کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ بنک ضامن ودیگرشرائط چھوڑ کر صرف قرض
دہندہ سے گارنٹی کے چیک لے،منافع کی ایک فیصد رقم بھی معاف کر کے لون سکیم
میں منافع کے بجائے صرف اصل رقم ایک سال بعد اقساط میں وصول کی جائیں۔اس
بارے میں عام شہریوں کے مفاد کو مقدم قرار دیتے ہوئے ایسی تبدیلیاں
ناگزیرہیں کہ جس سے قرض لینے والوں کو حقیقی طور پر روزگار میسر آ سکے اور
عوامی مفاد کے اس اہم اقدام سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو سکے۔ |