65 سالہ مرد درویش، صحافی،پاکستان کے سچے محافظ اور تحریک
اسلامی کے مجاہد عبدالقادر ملا کے حوالے سے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا لیکن
میرے دین اوروطن سے حد درجے عشق کی بناپر ان سے اب مجھے بے پناہ عقیدت ہو
گئی ہے‘اس وقت میرے سامنے ان کا موت سے چند لمحے قبل تحریری کیا جانے ولاا
ٓخری خط موجود ہے‘آخری لمحات میں بھی ان کی للٰہیت ‘استقامت اور مدینے کی
طرح نظریے کی بنیاد پر حاصل کئے جانے والے ریاست سے عشق قرون اولیٰ کے
مجاہدوں کی یاد تازہ کر رہا ہے۔انہوں نے لکھا کہ ’’مجھے نئے کپڑے فراہم کر
دئے گئے ہیں٬ نہانے کا پانی بالٹی میں موجود ہے‘ سپاہی کا حکم ہے کہ جلد
غسل کر لوں، کال کوٹھری میں بہت زیادہ آنا جانا لگا ہوا ہے‘ ہر سپاہی جھانک
جھانک کر جا رہا ہے‘ کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے۔
ان کا بار بار آنا جانا میری تلاوت کلام پاک میں خلل ڈال رہا ہے ۔۔میرے
سامنے سید مودودی ؒ کی تفہیم القرآن موجود ہے، ترجمہ میرے سامنے ہے۔۔’’غم
نہ کرو، افسردہ نہ ہو۔تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔‘‘ سبحان اﷲ۔۔کتنا
اطمینان ہے ان کلمات میں ۔۔میری پوری زندگی کا حاصل مجھے ان بات میں مل گیا
ہے۔زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں یہ رب کے علاوہ کوئی نہیں
جانتا۔۔مجھے اگر فکر ہے تو اپنی تحریک اور کارکنان کی ہے۔۔اﷲ سے دعا ہے کہ
وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے۔اﷲ پاکستان کے مسلمانوں پر اور
میرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر آسانی فرمائے، دشمنان اسلام کی سازشوں کو
ناکام بنادے ۔آمین ۔عشا کی نماز کی تیاری کرنی ہے‘پھر شاید وقت نہ ملے،
میری آپ سے گذارش ہے کہ ہم نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس پر ڈٹے
رہیں۔۔میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ راستہ سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے ۔آپ کا
مسلمان بھائی۔۔۔عبدالقادر ملا
ملا صاحب آپ کامیاب ہو گئے آپ کے دشمنوں نے آپ کو ہیرو بنا دیا ‘ بنگلہ دیش
اور پاکستان کے گوشے گوشے سمیت بارات برت‘ آسٹریلیا، امریکہ ، ترکی ، مصر ،
پورے عر ب سمیت دنیا بھر میں غائبانہ نماز جنازہ کے ذریعہ بندگان خدا نے آپ
کے حق پر ہونے کی شہادت دی آپ کا مشن ضرور مکمل ہو گا ۔
پاکستان کے لئے جان دینے والا پاکستانیوں ، بالخصوص پاکستانی میڈیا کے لئے
جانا پہچانا سااجنبی ٹھہرا ۔۔کچھ دنوں قبل انتقال کر جانے والے سابق ساؤتھ
افریقی کی طبعی موت پر ہمارا میڈیا ایسے مناظر پیش کر رہا تھا جیسے منڈیلا
کے انتقال سے عالم اسلا م بالخصوص پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہو گیا
ہو۔مگر مملکت خداد سے وفا کے جرم میں سولی پر جھول جانے والے ’’ملا ‘‘
کیلئے پاکستانی میڈیا کے پاس ’’فالتو ٹائم‘‘ بالکل نہیں ‘کیونکہ اسے اور
’’بہت سے کام‘‘ کرنے ہوتے ہیں۔بعض چینلز نے تو ان کی پھانسی تک کی خبر کو
انتہائی منفی انداز میں پیش کیا۔ نمبر ون ہونے کا دعویدار چینل تو ملا قادر
کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا واویلا ایسے مچا رہا تھا جیسے اس کے پاس
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی الوداعی فل کورٹ ریفرنس کی طرح 71میں ملا
عبدالقادر کے کیے گئے جنگی جرائم کی بھی کوئی ’’ایکسکلیوسو فوٹیج ‘‘موجود
ہو۔اور وہ ایسا کیوں نہ کرتا، آخر وہ اس بھارت مہان سے امن کی آشا اور
دوستی کی پینگیں بڑھا رہاہے جس کی ایماء پر اس محسن پاکستان کو تختہ دار پر
لٹکایا گیا۔جس ملک کے عشق میں ملاعبدالقادر نے جان دی ، اس ملک کا
میڈیااپنے عاشق کے بلاواسطہ قاتل ملک کے ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ میں مبتلا ہے۔۔’’چکنی
چمیلی ‘‘ کی ’’دھوم 3‘‘ کی پروموشن میں مصروف ہے۔مجھے شکوہ پاکستان کی دینی
و سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی ہے جو اس سانحے کو صرف جماعت اسلامی کا
مسئلہ سمجھ کر خاموش ہیں۔ زرداری یا بلاول سے تو ایسی کوئی امید ہی فضول
تھی کیونکہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے میں خود بانی پیپلز پارٹی
کا بڑا گھناؤنا کردار تھا۔مسلم لیگ کے بے شمار دھڑوں میں صرف عوامی مسلم
لیگ کی جانب سے احتجاج سامنے آیا۔ ایک بڑی دینی جماعت کے لیڈر اور محترم
عالم دین اس وقت ملاعبدالقادر شہید کے بلاواسطہ قاتل ملک میں موجود
ہیں‘موصوف کتے کو شہید قراردینے میں تو کوئی عار محسوس نہیں کی۔کاش کہ وہ
وہاں ملا کے قتل کی بھی مذمت کر دیتے۔عمران خان کو میں نے ٹوئٹر پر فالو
کیا ہوا ہے، دن بھر میں ان کے کئی ٹوئٹس میرے سیل فون پر وصول ہوتے ہیں ۔ملا
کی شہادت کے بعد سے عمران خان کے ملنے والے ہر ٹوئٹ پر میں امید لگائی کہ
انہوں نے شہید پاکستان کے لئے ایک عدد ٹوئٹ کر ہی دیا ہوگا مگر افسوس کے
مجھے ایسا کوئی ٹوئٹ اب تک موصول نہ ہوا، نہ ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا
میں خان صاحب کا ایسا کوئی بیان نظر سے گذرا۔قائد تحریک کی تو بات ہی نرالی
ہے‘بلکہ سچی بات یہ ہے کہ سنجیدہ لوگوں نے ان کی باتوں کو خاطر میں لانا
چھوڑ دیا ہے۔انہوں نے ملا کی شہادت پر لب شائی کی بھی تو جماعت اسلامی کے
خلاف زہر اگلنے کے سوا کچھ نہ کیا۔
نواز شریف صاحب نے اپنے پہلے دور حکومت میں جذبہ خیر سگالی کے تحت بنگلہ
دیش جا کر پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک مکتی باہنی کے غنڈوں کی قبروں پر
تو پھول چڑھا دئے، مگر آج پاکستان کی سالمیت اور وحدت کی خاطر جان دینے
والے عاشق کے قتل پر ان کے لب کو مصلحت کے دھاگے نے سی دیا ہے۔اس سے بڑی
افسوسناک اورشرمناک بات کیا ہوگی کہ پاکستان کے نام پر سولی چڑھنے والے
کیلئے پاکستان کی قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد تک منظور نہ کی جاسکی۔
وزارت خارجہ کی جانب سے اس معاملے کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیا
جانا بے حسی کی انتہا ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کے امیر کے خلاف بیان داغنے
والا آئی ایس پی آربھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما کے حق میں کوئی
پریس ریلیز جاری نہیں کر رہا ۔حالانکہ مقتول کا جرم ہی پاک فوج کا ساتھ
دینا ٹھہرا ہے۔جب یہ صورتحال ہوگی تو مارکیٹ میں ایسے میسجز تو گردش کریں
گے ناکہ ’’بنگلہ دیش میں ’پاکستان ‘ کو پھانسی۔۔90ہزار ہتھیار ڈالنے والوں
کو گرم لحاف اور ڈیفنس کے پلاٹ مبارک ہوں۔‘‘
یہاں پر میں ارباب اختیار کو ایک سلگتے خدشے کی طرف بھی ضرور متوجہ کرادوں
کہ آج تک میں خود کو بڑا محب وطن محسوس کرتا تھا اور وطن عزیز کی سالمیت
اور حفاظت کی خاطر جان دینے کا جذبہ رکھتا تھا‘مگر ملا عبدالقادر اور ان کے
ساتھیوں کا انجام دیکھ کر میں سہم سا گیا ہوں، اب اگر کل کو کوئی کراچی یا
کسی اور حصے کو پاکستان سے الگ کرنے کی بات کرے گا تو شاید میں اس کے خلاف
اور وطن عزیز کو مزید ٹکڑے ہونے سے بچانے کیلئے کھڑا نہیں ہو سکوں
گا۔کیونکہ اگر اﷲ نہ کرے کراچی جناح پور میں تبدیل ہو گیا تو مجھے بھی غدار
قرار دے کر ٹانگ دیا جائے گا۔میرے لئے تو باقی ماندہ پاکستان کا وزارت
خارجہ اتنا کہنے کی زحمت بھی نہیں کرے گا کہ جناح پور کا اندرونی معاملہ
ہے۔
سوشل میڈیا پر عبدالقادر ملا صاحب کی تصویر کے ساتھ گردش کرتی یہ پوسٹ تلخ
مگر سچ ہے کہ ’’42سال گذر گئے، مگر لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا، وہی
دسمبر کا مہینہ ۔۔وہی دوسرا عشرہ۔۔ وہی سرفروش اور وہی وعدہ فراموش۔۔ وہ کہ
جنہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا وہ آج بھی اس انکار پر قائم ہیں اس بات
کا اعلان بھی کر دیا کہ ہمیں پاکستان سے ہمدردی پر کوئی شرمساری نہیں، یہ
جان تو جا سکتی ہے پر نظریے اور اصول پر سمجھوتہ ہماری سرشت میں نہیں۔ ہم
آج بھی ہتھیار ڈالنے کے انکاری کوئی معافی کی درخواست گذار نہیں ہیں۔۔یہ
ہیں وہ کہ جو تاریخ ساز ہیں۔اور دوسری طرف وہ کہ جنہوں نے 42سال قبل ہتھیار
ڈالے تھے ، آج بھی ڈال دئیے۔۔میرا ایمان ہے کہ پاکستان اﷲ کے فضل و کرم سے
قیامت کی صبح تک قائم رہے گا ، مگر تاریخ کا سبق ہے کہ وہ احسان فروموشوں
کا معاف نہیں کرتی!!!!! |