بیسویں صدی کا مرثیہ کے خالق جناب عالم نقوی کے لہو چراغ
سے پرامید مستقبل کی اذان
اخبارجسدِکاغذپر خبروں کے نقوش سے عالمِ وجود میں آتا ہےلیکن اس کی روح
فکروتجزیہ ہوتی ہے۔غالب کے نقشِ فریادی کی مانند خبر اپنے کاغذی پیکر سمیت
بہت جلد فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے اوراسی کے ساتھ اخباری تبصرے بھی موت کی
نیند سو جاتے ہیں لیکن ہر خبر کے ساتھ مکافاتِ عمل کا سلوک یکساں نہیں ہوتا
بلکہ کچھ واقعات و سانحات تاریخ کے صٖفحات پر انمٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں اور
ان پر لکھے جانے والے چندتجزیے بھی حیات جاودانی سے معمور ہوجاتے ہے ۔ ان
کی تازگی سدا بہار ہوتی ہے خزاں کا جھونکاانہیں چھو کر نہیں گزرتا اس لئے
وہ نہ پرانے ہوتے ہیں اور نہ مرتے ہیں ۔وہ عالم صاحب کی کتاب مستقبل کی طرح
ایک اہم تاریخی دستاویز بن جاتے ہیں۔علامہ اقبال اس کیفیت کو یوں بیان کیا
ہے ؎
ہے مگر اس نقش ميں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کيا ہو کسی مردِ خدا نےتمام
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
محترم عالم نقوی چونکہ اپنے نغموں کی آبیاری خون جگر سے کرتےہیں اس لئے وہ
فصلِ گل و لالہ پابند نہیں ہوتا بلکہ سدا بہار رہتا ہے۔ تاریخ نویسی میں
زمانہ ٔ ماضی کے مختلف ادوار کا رخ بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے مؤٔرخ کو
ماضی کی قبر میں اتر کر گڑے مردے اکھاڑنے پڑتےہیں۔ واقعات و سانحات کےچہرے
پر پڑی گرداب کو صاف کر کےقرطاس و قلم کے حوالے کرنے سے قبل ان کی ضروری
آرائش و زیبائش کا اہتمام بھی ضروری ہوتاہے تاکہ ایک خوشنما رخِ زیبا
کوقارئین کے لئے قابلِ قبول بنایا جاسکے۔ لیکن اس مرحلے میں کبھی کبھار
دانستہ اور نادانستہ حقائق فسانے کا روپ دھارن کرلیتے ہیں ۔مؤرخ اپنے فکرو
نظرکے مطابق واقعات کو ایسے تناظر میں پیش کرتا ہے کہ قاری کا زاویۂ نگاہ
بدل جاتاہے لیکن ایک دیانتدارصحافی کے قلم سےجستہ جستہ رقم ہونے والی تاریخ
نویسی سے حفیظ میرٹھی کو یہ شکایت نہیں ہوسکتی کہ ؎
مؤرخ ! تیری رنگ آمیز یاں تو خوب ہیں لیکن
کہیں تاریخ ہوجائے نہ افسانوں سے وابستہ
تاریخ نویسی چونکہ ماضی سے بحث کرتی ہے اس لئے اس میں کی جانےوالی قیاس
آرائی بے جان ہوتی ہے مثلاً کسی مؤرخ کی رائے کہ اگر ایسا نہیں بلکہ ایسا
ہوا ہوتا تونہ جانے کیا سے کیاہوجاتا اسی قبیل کی چیز ہے جیسےنریندرمودی کا
بیان کہ اگر پنڈت نہرو کے بجائے سردار پٹیل ہندوستان کے وزیر اعظم ہوتے تو
حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ اس لئے کہ جو ہونا تھا سو ہوچکا اور اس پر نہ
منموہن کو کوئی اختیار تھا اور نہ مودی کوہےلیکن ۲۰۱۴ میں جو کچھ ہونے
والا ہےوہ بظاہر ان دونوں کے اختیارِ عمل میں ہے۔ اس لئے کہ آئندہ قومی
انتخاب ماضی کی داستاں پارینہ نہیں بلکہ مستقبل کا معمہ ہے۔ ان زندہ مسائل
پر مؤرخ نہیں بلکہ مبصر یا صحافی اپنے قلم کو جنبش دیتا ہے۔ مبصر کی نگاہ
ماضی پر کم اور حال پر زیادہ ہوتی ہے۔قیاس کی خامیوں اور گمان کے عیوب سے
مبراّ صحافی حال کا رشتہ مستقبل سے جوڑ نے میں کامیاب ہو جاتاہے ۔ عالم
نقوی صاحب کی کتاب مستقبل کا مطالعہ اس تناظر میں کیا جانا چاہئے کہ یہ
زندہ تاریخ ہے۔عصرِ حاضرمیں اس کا تعلق حال اور مستقبل سےہے لیکن مستقبل
میں یہ اس دور کی مستند تاریخ کہلائیگی ۔
صحافی اور مؤرخ میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں حالاتِ زمانہ رقم کرتے ہیں
لیکن ماضی کو انسان چشم بینا سے دیکھ نہیں سکتا لیکن صحافی اپنی قوت بصارت
سے کام لے کرحالات حاضرہ کو قلمبند کرتاہے ۔ زورِ قلم کی دولت سے مالامال
صحافی قیمتی معلومات کے ہیرے جواہرات کو زبان و بیان کی شیرینی کی لڑیوں
میں پروکرخوبصورت ہار بنادیتا ہے ۔ یہ سب عملاًکس طرح رونما ہوتا ہے اس کے
مشتاق قارئین کو مستقبل کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔عالم نقوی صاحب نے
چونکہ نوکِ قلم کو خونِ جگر سے بھگو کر صٖفحۂ قرطاس کا سینہ چاک کیا ہے اس
لئے ان کے دل کی بات سیدھے قارئین کے دل میں اترتی چلی گئی ۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو بصارت وبصیرت کے علاوہ وجدان کی قوت سے بھی
نوازہ ہے ۔ کم لوگ ہیں جو ان عظیم نعمتوں سے کما حقہ استفادہ کرتے ہیں ۔
ایک نامہ نگار صرف اپنی بصیرت کو کام میں لاتے ہوئے جو کچھ دیکھتا ہے اسے
من و عن بیان کردیتا ہے لیکن ایک صحافی صرف کیا ہوا؟ پرا کتفا نہیں کرتا
بلکہ کیوں ہوا؟ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتاہے اور اپنی خدادا بصیرت سے
مشاہدے کے پس پردہ کارفرما اسباب و عوامل کا پتہ لگا کر ان کی نشاندہی کرتا
ہے ۔ اس طرح وہ تجزیہ عالمِ وجود میں آتا ہے جس سے قارئین کو یک گونہ سکون
و اطمینا ن حاصل ہوتا ہے لیکن بہترین صحافت اس منزل سےنکل کر قیادت کی منصب
پر فائز ہو جاتی ہےجہاں اخبارنویس اپنے وجدان کوکام میں لاتے ہوئے قارئین
کی عملی رہنمائی کرنے لگتا ہے ۔ اس سے اعلیٰ مقام پر چند گنے چنےمربی و
مزکی ہوتے ہیں جو اپنے زورِ قلم سے قارئین کو ایسا صاحبِ نظر بنا دیتے ہیں
کہ وہ حقیقت شناس ہو جاتا ہے اور کائنات کے اسرارو رموز ازخود اس پر عیاں
ہونے لگتے ہیں ۔ عالم نقوی صاحب کی کتاب مستقبل اس معیارِ صحافت کا اعلیٰ
نمونہ ہے۔
ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ جب صحافت ایک مقدس خدمت ہوا کرتی تھی لیکن مادہ
پرست دور نے اسے ایک صنعت میں بدل کر رکھ دیا ہے اس لئے آج کل خبریں بننے
اور بکنے لگی ہیں ۔ جس طرح کسی زمانے میں غلاموں کے بازار لگا کرتے تھے فی
زمانہ خبررساں مزدوروں کے بازار سجتے ہیں فرق صرف یہ ہے اب بکنے والا اپنی
قیمت خود طے کرتا ہے ۔ بھاؤ مول کرکے اپنی قیمت خود وصول کرتا ہے لیکن اس
فرق کے باوجود اپنے آقا کی بندگی اسی طرح بجا لاتا ہے جیسے کہ ماضی کے
غلام بجا لاتے تھے بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ فرمانبردار اور اطاعت گزار ہوتا
ہے ۔ اس لئے کہ خودساختہ غلامی بہرحال مسلط شدہ جبرکی بنسبت پسندیدہ شہ
ہے۔اگلے وقتوں میں غلام اپنی گردن چھڑانے کی سعی کیا کرتے تھے اور اپنی
آزادی کا جشن منایا کرتے تھے لیکن آج کل غلامی کی زنجیر کو باعثِ سعادت
سمجھا جاتاہے اور اس کے ٹوٹ جانے پر لوگ غمزدہ ہوجاتے ہیں ۔ اس دورِ پرفتن
میں جن چیدہ چیدہ صحافیوں نے فکری و عملی آزادی کا علم بلند کررکھا ہے ان
میں ایک نمایاں نام جناب عالم نقوی کا ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب مستقبل کے
مندرجہ ذیل شہ پارے اس دعویٰ کی دلیل ہیں:
فساد: سامراج نے زمین کوفساد سے بھر دینے کے سوا کچھ اور نہیں کیا ۔بنام
ترقی جوکچھ بھی آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ ان کے پھیلائے ہوئے فساد فی الارض
کا پاسنگ بھی نہیں ہے۔فساد کیا ہے؟راہِ حق سے روکنا فساد ہے۔حکومت اور
اختیار پاکراللہ کے مقابلے میں خود مختاری اختیار کرلینااور مخلوق کو فائدے
سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔حق ظاہر ہوجانے کے بعد اس کوماننے سے انکار
کردینا فساد ہے۔ملک گیری (کالونائزیشن ) فسادہے۔مفتوح قوموں میں ذلیل و
رذیل اخلاق پیدا کرنا فساد ہے۔رعایہ کو مختلف طبقوں میں تقسیم کردینابعض کو
اٹھانا اور بعض کو دبانا(یعنی ان پر ظلم کرنا) فساد ہے۔ہر طرح کے ناروا
ہتھکنڈوں سے ناجائز مقاصد پورے کرنا فساد ہے۔اللہ کی مقرر کردہ حدود کو
توڑنا فساد ہے۔شتربے مہار بن کر رہنا فساد ہے۔ناپ تول میں کمی کرنا فساد
ہے۔دولت سمیٹنا اور اسے روک رکھنا فساد ہے۔فواحش کا ارتکاب فساد ہے۔اللہ کی
مقرر کردہ حدود کو توڑنا فساد ہے۔چاہے اس کا تعلق اخلاقیات سے ہو،معاشیات
سے ہویا سیاسیات سے۔ اور سامراجی عزائم فسادفی الارض پھیلانے یعنی دنیا کے
تمام قدرتی وسائل پر قبضہ کرنےاور تمام دنیا کو اپنا غلام بنانے کے سوا اور
کیا ہیں۔(ص۲۵)
انقلاب:مغرب بھلے ہی اعتراف نہ کرے لیکن ہم جانتے ہیں کہ باب مدینہ العلم
امام علی ؑنے چودہ سو سال پہلے دنیا کو بتا دیاتھا کہ من عرفہ نفسہ عرفہ
ربہ، جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا یعنی جس نے اپنی خود شناسی و خود آگاہی
کی اعلیٰ ترین منزل سر کرلی اس نے اپنے پروردگار کی معرفت بھی حاصل کرلی۔
یہی خودشناسی جب خوداعتمادی میں ڈھل کر خودفروزی بنتی ہے تو اسے انقلاب
کہتے ہیں اور جب یہ انقلاب اصول، فطرت سے ہم آہنگ ہو تو وہ اسلامی انقلاب
کہلاتا ہے(ص۳۴)دینِ مبین کی قوت میں یقین پیدا ہوجانے سےمسلمانوں میں وہ
خوداعتمادی آئی کہ وہ جابر و قاہر و ظالم حکمرانوں کے سامنے کوہِ استقامت
بن گئے۔(ص۳۷)
مسلک: ہم یہ بات پھر سے دوہراتے ہیں کہ قرآن و سنت کے سوا کوئی چیز حجت
آخر نہیں۔ نہ کوئی ملک نہ کوئی مملکت نہ کوئی بادشاہت نہ کوئی شخصیت
۔اتباع اور پیروی کا معیار صرف قرآن و سنت ہے اور بس۔(ص۵۷)ہم اعلان کرتے
ہیں کہ ہم قرآن و سنت کے خلاف کئے جانے والے کسی بھی فیصلے سے اعلانِ
برأت کرتے ہیں(ص۵۸)اسلام اور جاہلیت میں تعاون نہیں ہوسکتا ہماری بقاصرف
اس پر منحصر ہے کہ ہم طرف سے منہ موڑ کر من یکفر بالطاغوت ویومن باللہ کو
اپنے عمل و کردار میں ڈھال لیں (ص۵۹)۔ حق گوئی کیلئے سخت کوشی ،فقیری اور
سادگی ضروری ہے۔ محلوں میں قیام اور عیش و عشرت کا رہن سہن سب سے پہلے وہ
صلاحیت ختم کرتا ہے جوحق گوئی وبیباکی کیلئے ضروری ہے(ص۹۵)
توکل:ایٹمی تحدید اسلحہ کی باتیں اس وقت تک بے سود ہیں جب تک کہ وہ فکر اور
نظام موجود ہے جس نےWMDsکو جنم دیا ہے(ص۶۳)ہم پوری شرحِ صدر کے ساتھ یہ بات
جانتے ہیں کہ شیطان کو شکست دینے کیلئے شیطانی ٹکنالوجی کا حصول ہر گز
ضروری نہیں ہے ۔ اس کیلئے صرف رحمٰن کا اشارہ اور اس کی مدد کافی ہے۔ اور
اگر ہم مسلمان ہیں اور خلق خدا کے تعلق سے اپنی وہ ذمہ داریاں پوری کررہے
ہیں جو امتِ مسلمہ،خیرِ امت اور امتِ وسط کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتی ہیں
تو پھر اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔ اور اس سے اچھا کوئی وکیل نہیں اور اس سے
بڑھ کر کوئی مولیٰ ہے نہ اس سے بہتر کوئی مددگار۔ وھوالعزیز الجبار۔(ص۷۵)
اسباب و علل:قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک و اتعالیٰ نے لے رکھا ہے
لہٰذہ جب تک قرآن محفوظ ہے اسلام بھی محٖوظ ہے۔اب مسلمان صرف اپنے تحفظ کی
فکر کرے ۔اللہ کو کسی نافرمان قوم یا حد، اعتدال سے گزرجانے والی قوم سے
کوئی ہرگز ہرگز کوئی دلچسپی نہیں(ص۶۲)ڈیڑھ ارب مسلمان اور پچاس سے زائدمسلم
ممالک متحد ہو جائیں تواللہ کی مدد سے ہر وہ کام ممکن ہے جست مستکبرینِ
مغرب اور جبارانِ صہیونیت ناممکن کہتے ہیں۔وھن پیدا ہوجانے ، قرآن کو چھوڑ
دینے اور اسے مھجور بنا دینے کے باعث عالمِ اسلام سے توفیقِ اتحاد سلب کرلی
گئی ہے اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ اس وقت کسی قوم کی حالت نہیں بدلی جاتی جب
تک کہ وہ قوم اور اس کے افراد خود اپنی بدحالی سے نجات حاصل کرنے کیلئے
عزمِ مصمم کے ساتھ جدوجہد شروع نہیں کردیتے ۔ اپنے نفسوں کی تبدیلی کا یہ
عمل سردست مفقود ہے۔(ص۹۴)
انتباہ:ہم نجومیوں کی نہیں روحانین کی باتوں پر ضرور اعتماد کرتے ہیں ۔ جن
کی گفتگو قرآن و حدیث کے حوالے سے ہوتی ہے اور ایسے لوگ جنہیں قرآنو حدیث
کا تھوڑا سا بھی شعور ہے حتمی گفتگو سے ہمیشہ پرہیز کرتے ہیں۔کیونکہ حقیقی
علیم و خبیر اور عالم الغیب و الشہادۃ تو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ
ہے۔(ص۲۱۶)انصاف پر مبنی امن کا حامی دنیا کا ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ
صہیونیت سے تعاون کرنا ایک ایسی سرنگ میں داخل ہونے کے مترادف ہے جس میں
اپنی مرضی سے داخل تو ہوا جاسکتا ہے ، اپنی مرضی سے صحیح سلامت باہر نکلا
نہیں جاسکتالیکن مشکل یہی ہے کہ جگایا تو اسے جاسکتا ہے جو سو رہا
ہو!(ص۲۴۸)ابلیس کا سب سے خطرناک ہتھیار وہی ہے جو حق کے خلاف خود حق کو
کھڑا کر کے استعمال کیا جاتا ہے (ص۱۸۴)
اس کتاب کچھ مضامین ایسے ہیں کہ ان سے اقتباس نکالنا پورے مضمون کوتبصرے
میں شامل کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے عنوانات کی نشاندہی کرنے پر اکتفا کیا
جاتا ہے مثلاً:(۱)سن لو میری نوا(۲)آئینہ مستقبل (۳)گناہ کوئی کرے شرم ہم
کو آتی ہے (۴)طاقت پرستی سے دانشورانہ دہشت گردی تک (۵)حق و باطل کی جنگ
کا تسلسل (۶)عالم اسلام نشاۃ ثانیہ کی طرف ! (۷)نہیں کچھ اور تری راہ کے
سوا معلوم (۸)جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ وغیرہ
ایک زمانے میں عالم نقوی صاحب نے روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی میں دستاویز نام
کا ایک کالم شروع کیا تھا لیکن چونکہ ان کے اکثر و بیشتر مضامین اس زمرے
میں آتے ہیں اس لئےممکن ہے دستاویزکالم میں شمولیت سے محروم رہنے والے
مضامین کے احتجاج پر اسے بند کردیا گیا ہو۔اب یہ ہم جیسے قارئین کی خوش
بختی ہے کہ ان مضامین کو کتابی دستاویز کا جامہ نصیب ہو رہا ہے۔ مستقبل
۲۰۱۳ میں شائع ہونے والی جناب عالم نقوی کی تیسری کتاب ہے ۔ان کی پہلی
کتاب لہو چراغ ۲۰۰۲ میں شائع ہوئی اور اس کے بعد سات سالہ طویل انتظار کے
بعد ۲۰۰۹ میں’ امید ‘ منصۂ شہود پر آئی۔ اس کے تین سال بعد یکے بعد
دیگرے تین کتابیں اذان،بیسویں صدی کا مرثیہ اور مستقبل شائع ہوگئیں تو ایسا
محسوس ہوا گویاکسی پہاڑی ندی پر لگے بند کا دہانہ کھل گیا ہےاور برسوں سے
جمع شدہ آبی ذخیرہ تشنہ کام صحراؤں اور میدانوں کو سیراب کرتا چلا جارہا
ہے۔ ان دستاویزی کتب سے نہ صرف عصر حاضر کا قاری وقتاً فوقتاً استفادہ
کرسکتاہےبلکہ ان جھروکوں سے جب آنے والی نسلیں اپنے ماضی میں جھانک کر
دیکھیں گی تو وہ انہیں اپنی تاریخ کا نہایت صاف و شفاف عکس بھی نظر آئیگا
۔ |