پاکستان کے عام آدمی کا آج کل جو حال ہو رہا ہے وہ یا تو
عام آدمی جانتا ہے یا پھر اس کا خدا اگر کسی کو اس کے حالات کا اندازہ نہیں
ہے تو وہ ہیں ہمارے حکمران۔ پچھلے دنوں جب آسان قرضہ سکیم کا بڑا چرچا ہوا
جس دن اس کا اعلان ہوا اگلے دن تقریبا پاکستان کے تمام ہی غریب،عام آدمی اس
قرضہ سکیم کے فارم کے وصولی کے لئے ہر اس جگہ پر نظر آئے جہاں پر یہ فارم
دستیاب ہو سکتے تھے عام آدمی یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ قرضہ ان کو دو یا
تین ہفتوں میں مل جائے گا مگر جب وہ فارم وصول کرنے کے بعد اس کی شرائط کسی
پڑھے لکھے شخص سے پڑھانے جاتے تو واپسی پر ان کا منہ ایسے ہی لٹکا نظر آتا
جیسے ہمارے حکمران الیکشن میں شکست کے بعد منہ لٹکائے ہوئے مخالف پر
دھاندلی کے الزمات لگاتے ہوئے اسے بڑی دھاندلی قرار دیتے ہیں ایسے ہی عام
لوگ اس کی شرائط کو سمجھنے کے بعد اسے حکومتی دھاندلی قرار دیتے ہوئے اسے
صرف بڑے لوگوں کے لئے قرضہ تصور کرتے ہیں جو کھلی حقیقت ہے یہاں دو سوال
پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ اگر کوئی شخص بے شک وہ پڑھا لکھا ہے مگر بے روز
گار ہے تو کون ایسا پاگل ہو گا جو اسکی جگہ پر گارنٹی اٹھائے گا کیونکہ آج
کل حالات ایسے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی بھائی بھی بے روزگار ہو تو وہ اس کی
گارنٹی نہیں اٹھاتا تو ایسے شخص کی کون گارنٹی اٹھائے گا اور ساتھ میں اس
کی گارنٹی ایک چیک بھی چلو یہ اچھا ہوا کہ حکومت نے چیک والی شک ختم کر دی
مگر غریب آدمی جس کو کئی دفعہ اپنے کاغذات کی اٹسٹیشن کے لئے اِن سولہ گریڈ
کے آفیسروں کے گھر کے چکر لگانے پڑتے ہیں پھر اس کے نین نخرے اٹھانے کے بعد
اس کا کوئی قریبی شخص ضمانتی لانا پڑتا ہے تب جا کہ وہ اپنی سٹیمپ سے ان
کاغذات کو نیلا پیلا کرتا ہے ایسے شخص کو بھلا کیا پڑی ہے کہ وہ کسی بے روز
گار شخص کی گارنٹی اٹھا کر اپنے لئے نئی مصیبت کھڑی کر لے اوپر سے ان عام
لوگوں کے پاس اس رقم کے اوپر لگایا جانے والا سود جو کہ پہلے ہی آٹھ فیصد
ہے اور جس میں اضافے کی نوید اسی فارم کی ایک شک میں موجود ہے کہ اگر کہیں
حکومت کو ضرورت پڑی تو دروبدل بھی ہو سکتا ہے ایک پڑے لکھے شخص کو اس بارے
میں بخوبی علم ہے سکیم کے اعلان کے بعد اور فارم کی بینکوں سے وصولی کے بعد
دیکھی جانے والی تیزی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے وہ جس طرح کہتے ہیں نہ
کہ: ملا کی دوڑ مسجد تک :اسی طرح عام آدمی کی دوڑ فارم کے حصول تک ہی تھی
اس کے بعد جب اس کو پتا چلا کہ یہ سب کیا ماجرا ہے تو عام آدمی بھی یہ کہنے
پر مجبور ہو گیا ہے کہ یار یہ تو: بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والی بات:
ہے جو یقین درست بھی ہے دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس قرضے میں کہیں پر
یہ پلان نہیں رکھا کہ اگر کسی موقع پر نقصان ہو جاتا ہے تو اس کا کیا
متبادل ہو گا کیونکہ کاروبار میں دو چیزیں لازمی ہوتی ہیں ایک نفع اور
دوسرا نقصان اگر کسی کو نفع نہ ہو سکے تو نقصان لازمی امر ہے ایسے میں عام
آدمی کا آخری ٹھکانا جیل ہی نظر آتا ہے اسی بات کو اگر گارنٹی والے طرف لے
کر جائیں تو وہ گارنٹڈ شخص بھی اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی اس عام آدمی
کے پیچھے لٹانے کا رسک کیوں لے گا یہ وہ اہم باتیں ہیں جو عام آدمی کو یہ
سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ :ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے اور:
آپ یقین جانیے کہ اس سکیم کے اعلان کے بعد جس طرح لوگ معلومات لے کر پریشان
ہو رہے تھے ان کے چہرے سے یہ بات عیاں تھی کہ حکومت نے ان کے زخموں پر مرہم
رکھنے کے بجائے ان کی بے بسی اور بے روزگاری کا مزاق اڑایا ہے ۔ضرورت اس
امر کی تھی کے ملک میں جاری دوسری چھوٹی فنانس سکیموں کی طرح جو بہت حد تک
کامیاب بھی ہیں جن میں صرف اور صرف شخصی گارنٹی پر قرض فراہم کیا جاتا ہے
اگر ایسا کوئی سسٹم لایا جاتا تو یقینا اس سے نوجوان بھر پور استفادہ حاصل
کرتے لیکن جس طرح کی شرائط ا س قرض کے حصول کے لئے دی گئی ان کو پورا کرنا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جو کسی عام ، غریب آدمی کے لئے پورا کرنا مشکل
ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔اس لئے راقم کی اس تحریر کے ذریعے وزیر اعظم
پاکستان میاں محمد نواز شریف ، وزیر خزانہ اسحق ڈار، اس پروگرام کی سربراہ
محترمہ مریم نواز صاحبہ اور دوسرے تمام لوگ جو اس پروگرام کو دیکھ رہے ہیں
ان سے گزارش ہے کہ عام آدمی کے لئے اس قرض کا حصول آسان سے آسان بیانا جائے
اور اس کے لئے کسی سرکاری آفیسر کی گارنٹی کو ختم کر کے صرف شخصی گارنٹی یا
پھر زمین جائیداد کے ملکیتی ثبوتوں کو پابند کیا جائے اور اس کا حصول اس حد
تک آسان کر دیا جائے کہ ایک عام آدمی اسے حاصل بھی کر سکے اور اس کے ذریعے
اپنے خوابوں کو تعبیر بھی دے سکے اور اس سے حکومت کا وہ ویژن جو اس قرضہ
سکیم کے پیچھے ہے جو کہ ملکی معیشت کا استحکام ، ملک سے بے روزگاری کا
خاتمہ ، ملک میں افرادی قوت کو قابل استعمال بنا کر ترقی کے ثمرات کو عام
کرنا ہے ناصرف پورا ہو سکے بلکہ غریب ،عام آدمی بھی اس ملک کی ترقی میں
اپنا کردار ادا کر سکے ۔ |