۱۶ دسمبر کا سانحہ

16 دسمبر کا دن کتنی خاموشی سے گزر گیا، جس دن ہمارا مادروطن دو لخت ہوا۔ حکمران، سیاستدان، سول سوسائٹی، صحافی، قلمکار، دانشور، علماء، طلباء سب خاموش کیوں رہے۔ کیا ہم تاریخ کے اوراق کو جلا دینا چاہتے ہیں۔ کیا ہم خاموش رہ کر تاریخ بھول سکتے ہیں۔ جو کچھ کے سینے پر لکھا جا چکا ہے، وہ ہمیں اچھا لگے یا بُرا وہ کبھی نہ مٹ پائے گا۔ کوئی تاریخ پر نظر رکھے، اس سے سبق سیکھے گا اور کوئی الو کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ سمجھےگا کہ میں اپنے انجام بد سے بچ جاوں گا۔ وقت نے کبھی کسی کو معاف نہیں کیا۔

زندہ قومیں اپنے اسلاف کو بھی یادرکھتی ہیں اور تاریخ کے تلخ حقائق سے بھی نظریں نہیں چُوراتیں۔ کیا ہم نئی نسل کو صرف "سب اچھا" کی خبر دینا چاہیتے ہیں۔ ہاں جب وہ خود اپنی آنکھوں سے تاریخ کے دامن پر لکھے ہوئے حقائق جان لیں گے تو وہ ہمیں "وقت کا سب سے بڑا جھوٹا" قرار نہیں دیں گے؟

کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ ان کے گن گائے جائیں، ان کے کارناموں کی تسبیح کی جائے، ان کے ناموں کو سنہری حروف میں لکھا جائے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ کہنے، کہلوانے اور پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ کردار سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔۔۔

بھٹو، مجبیب الرحمن اور اندرا گاندھی بھی یہی چاہتے تھے لیکن تاریخ نے انہیں جس عبرتناک انجام سے دوچار کیا، اس کو کون بھلا سکتا ہے۔ کیا اس کوہم تاریخ کے دامن سے مٹا سکتے ہیں۔

ہاں اگر ہم غیرت مند قوم بن جائیں، ہمیں کوئی غیرت مند قیادت نصیب ہوجائے تو ہم تاریخ سے سبق سیکھ کرسارے قرض اتار سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ سچ بولنے اور سچ برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بعد ممکن ہے۔ غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ہمت پیداکرنے کے بعد ہوگا۔

جن کو پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ صرف پاکستان کے وسائل سے دلچسپی ہے ، وہ تو سولہ دسمبر کو بھول سکتے ہیں۔ جس کو پاکستان سے ذرا برابر بھی دلچسپی ہے وہ سولہ دسمبر کا دن اس کے لیے قیامت کی یاددلاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی جیلوں میں قید پاکستان کی ہمدردوں سے پوچھیے، بہاریوں کی کیمپوں میں مبحوس ان پاکستانیوں سے پوچھیے جن کا اس آسمان تلے کوئی وارث نہیں۔ان سے پوچھیے جن کے جگر گوشے مشرقی پاکستان کی سرزمین پر قربان ہوؑے۔ ان سے پوچھیں جنہوں سے اپنے سہاگ قربان کیے ہیں، جنہوں نے عصمتوں سے ہاتھ دھویا ہے، ان سے پوچھیے جن کے سر سے سایہ چھن گیا۔
آج کے بے شرم حکمران، بے حمیت سیاستدان اور استعمار کے آلہ کار صحافی اس غم سے کیسے آشنا ہوسکتے ہیں۔ یہ غم وہی محسوس کرسکتا ہے، جو پاکستانی ہے، جس کا آج بھی پاکستان سے وابستہ ہے اور جس کا مستقبل بھی پاکستان ہے۔ جن کی پائی، پائی پاکستان میں ہے اور جو سر تا پا پاکستانی ہیں۔ جن لوگوں نے پاکستان سے باہر پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، جن کے جیبوں میں گرین کارڈ چھپائے ہوئے ہیں۔ جن کاونٹس ڈالروں سے اٹے ہوئے ہیں، ان بے غیرتوں کو سولہ دسمبر کے خوں آشام لمحوں سے کیا لینا دینا ہے۔

پاکستانی قوم ابھی تک یہ پہچان نہیں کرسکی کہ کون ان کا ہے اور کون استعمار کا۔ انہوں نے قوم کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل کراپنے اولادوں کو کیمرج اور دیگر یورپی اور امریکن یونیورسٹیوں میں تعلیم دے کر حکمرانی کے لیے تیار کررکھا ہے۔ دادا قبر کی نظر ہوا تو باپ نے قیادت سنبھالی اور اب پوتے کی باری ہے۔ کون سی جماعت اور کون سا گرو ہے، جس کی قیادت عام پاکستانی کر رہا ہوں۔ سب کے سب نواب صاحب، خان صاحب، لغاری، زرداری، گورمانی، اور اس طرح کے سابقوں اور لاحقوں سے عبارت ہیں، جو انگریزوں کے کتے اور گھوڑے پالتے تھے۔

انگریز کتنے وفادار لوگ ہیں کہ خود بھاگ گئے اور ہمیں اپنے نوکروں ، مصلیوں، کتے پالنے والوں اور جوتیاں چاٹنے والے کے سپرد کر گئے۔ یہی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے بھی قاتل ہیں اور نطریہ پاکستان کو اندرا گاندی کے ساتھ مل کر بحیرہ عرب میں غرق کرنے کی سازش کے کردار بھی ہیں۔ لیکن ہر بار نئی بوتل میں نئے رنگ کی شراب لا کر جہالت سے لدی ہوئی قوم کو اس ہی کے خزانے سے لوٹے ہوئے مال سے میڈیا وار کے ذریعے ہمیشہ فتح کر لیتے ہیں۔

جب تک پاکستان کے بیس کروڑ شہری شعور کی آنکھ نہیں کھولتے انگریزوں کے کتے پالنے والے یہ مصلی ہمارے سروں پر حکومت کرتے رہیں گے اور پاکستانیوں کی ہڈیوں سے عرق چوس چوس کر بیرون ملک اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے۔

آج بلوچستان کے خصدار سے چترال کی بلندیوں تک قوم پرستی، فرقہ واریت، دھشت گردی کی آگ لگی ہوئی۔ کشمیر میں بھارتی فوج پاکستانیوں کو خون میں نہلا رہی ہے اور قبائلی علاقوں کے محافظین پاکستان اپنوں کی گولیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس قیامت خیز منظر کے باوجود جو حکمران مجرے (کلچرل شو) کروا رہے ہوں۔ انہیں کون پاکستانی مانے گا۔ جب گھروں، گلیوں اور شاہراوں سے لاشے اٹھائے جا رہے ہوں، ایسے میں کون مجرے کرواتا ہے۔ کیا وہ ہم میں سے ہے۔ کیا وہ ہمارا غمگسار ہے، کیا وہ ہمارا قائد ہے، کیا وہ ہمارا ہمدرد ہے؟

جس نے ٹھنڈے پیٹوں سولہ دسمبر کا دن گزار لیا۔ جو اس سانحہ ارتحال کے دن بھی اصلاح احوال کے لیے تیار نہ ہوا، وہ کیا قیامت کے دن کا منتظر ہے۔

اہل پاکستان تو قربانیوں کے شوقین ہیں، وہ ہر دور میں وطن عزیز پر قربان ہوتے رہے ہیں۔ جب دن وہ ان کالے انگریزوں کو پہچان گئے، وہ دن ان کے لیے آخری ہوگا لیکن وہ اس سے پہلے ہر پاکستانی کے خون کا آخری قطرہ بجلی، گیس، پانی، ماچس، سیکریٹ اور چینی پر ٹیکس لگا کر نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔

میں تو اہل فکرودانش سے عرض کروں گا کہ خدا راہ وقت کی آواز کو سنیں، تاریخ کے اوراق سے اٹھنے والی خوفناک صداؤں پر کان دھریں۔ قوم کو بیدار کریں جو اپنوں کے ہاتھوں مغالطے میں ماری جا رہی ہے۔ خدا راہ خاموش نہ رہیے، اپنے جذبات کو الفاظ دیجیے، اپنے قلم کو جنبش دیجیے اور اپنے ضمیر کی آواز کو بغیر مداہنت اور خوف سے بیان کیجیے۔ اسی میں پورے پاکستان کی بھلائی ہے۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117098 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More