لینڈریکارڈکمپیوٹرائزیشن اوراس کا جائزہ

لاہورکینٹ میں اراضی ریکارڈسینڑکی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف نے کہاہے کہ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا تاریخی منصوبہ جون 2014ء تک صوبے کی ایک سوچالیس تحصیلوں میں مکمل ہوجائے گا۔ اوریہ جدیدنظام تمام اضلاع میں پوری طرح متحرک اورفعال ہوگا۔ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائنزیشن سے زمینوں کے معاملات میں کرپشن، رشوت اورجعل سازی کا خاتمہ ہوگا۔ عوام کو پٹواری اورتحصیلدارکے استحصالی اورفرسودہ نظام سے نجات مل جائے گی۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ نئے دورکے تقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیاجارہا ہے ۔ تاکہ ریکارڈ کے کمروں سے نجات مل جائے۔ اس سے کسانوں کے بہت سے مسائل جلدی اورآسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔ شہباز شریف کا یہ کہنا کہ لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن سے زمینوں کے معاملات میں کرپشن، رشوت اورجعلسازی کا خاتمہ ہوگا۔ عوام کو پٹواری اورتحصیلدارکے استحصالی نظام سے نجات مل جائے گی۔ یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ ا س سے نہ تو کرپشن اوررشوت کا خاتمہ ہوگا اورنہ ہی جعلسازی۔ پٹواری اورتحصیلدارکے استحصالی نظام سے کیسے مل جائے گی۔ کہ جب تک یہ پرمشن نہ دیں گے نہ تو کسی کو نقل ملے گی اورنہ ہی کسی کا انتقال اپ لوڈہوگا۔ الٹا اس سے نیامسئلہ کھڑاہوجائے گا۔ جس کو فردملکیت لینا ہوگی۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے انتظارکرناپڑے گا۔ یہ انتظارمختصربھی ہوسکتاہے اورطویل بھی۔ شہبازشریف نے کہا کہ ارادے مضبوط ہوں ، کام کی لگن ہوتو پہاڑجیسی رکاوٹ بھی منزل کے حصول میں حائل نہیں ہوسکتی۔ اس سے انکارتو نہیں کیا جاسکتا۔ بعض اوقات محنت کا معاوضہ نہیں ملتا۔ الٹا اپنا حق مانگنے کی پادا ش میں کام کرنے والی جگہ سے بھگادیا جاتاہے۔ ارادے تو رہے ایک طرف جو کام کرچکا ہو۔ کیا اس کے ارادے پر شک کیاجاسکتاہے۔ یقیناتو پھر اسے حق کیوں نہیں ملتا۔ اگرمنزل خودرکاوٹ بن جائے تو پھر کیاکیا جاسکتاہے۔ ان کا کہناتھا کہ پاکستان کودہشت گردی ، توانائی کے بحران اوردیگر متعددسنگین چیلنجز کاسامنا ہے۔ ایسا تو کوئی دوریا وقت نہیں ہوتا۔ جس میں کسی نہ کسی کو چیلنجز کا سامنا نہ ہو۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ان چیلنجزسے کون کس طرح نمبردآزما ہوتاہے۔ کون ان چیلنجزکو شکست دیتا ہے۔ اورکون ان چیلنجزسے ہارجاتاہے۔ شہبازشریف کا کہنا تھا کہ قومیں محنت ، دیانت اورمسلسل جدوجہد کے ذریعے بحرانوں سے نکلتی ہیں۔ ناکامیوں کوخوشحالی میں بدلتی ہیں۔ اس میں تو کوئی دورائے نہیں ہوسکتی۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ یوں تو پاکستان میں رہنے والوں کو پاکستانی قوم کہا جاتا ہے تاہم اس ملک کے باشندوں کوقوم بنایا ہی کب گیا ہے۔ ہمیں تو گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ قوم محنت بھی کرتی ہے۔ دیانت اورمسلسل جدوجہد بھی اس کے اوصاف میں شامل ہے۔ قوم تو اس کوشش میں ہے کہ وہ ناکامیوں کو خوشحالی میں بدل دے مگر کیا کیاجائے کہ حکومتوں کی پالیسیاں اورمسائل خوشحالیوں کو ناکامیوں میں تبدیل کررہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بحیثیت قوم اپنا جائزہ لینا ہے ۔ خوداحتسابی اپنی اصلاح کرنا ہے۔ اورمتحد ہوکر ایک سیسہ پلائی دیواربنناہے۔ کسی بھی ملک کے حکمران ، سیاستدان اورعلماء اس قوم کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ علماء کی ہم بات نہیں کرتے۔ حکمران اورسیاستدان آج کے دورمیں قوموں کے لئے رول ماڈل ہیں۔ اس کام کووہ پہلے کریں تو قوم بھی خودبخودکرنے لگے گی۔ سیاستدان اورعلماء متحدہوجائیں تو قوم بھی متحد ہوجائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ میراایمان ہے کہ اگر ہم اپنے حالات بدلنے کا تہیہ کرلیں ، محنت،امانت، دیانت کو اپنا شعاربنالیں توبین الاقوامی برادری میں باوقارمقام حاصل کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری میں باوقارمقام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران اورسیاستدان غیروں کے آگے جھکنا اوران کی ہر بات پر عمل کرنا چھوڑدیں۔ اغیار کے آگے سرخم کرنے سے وقار ختم ہوجایا کرتاہے ۔ ایک خدا کے آگے سرجھکائیں۔ دنیا آپ کے قدموں میں آجائے گی۔ یہ درس عوام کو دینے کی بجائے حکمران خود عمل کریں۔ بین الاقوامی برادری میں باوقارمقام دلانے کی ذمہ داری ان کی ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں وطن عزیز اورسبز پاسپورٹ کی عزت بحال کرسکتے ہیں۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی طاقتوں کا ساتھ دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک طرف ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا اوردوسری طرف غیر ملکوں میں پاکستانی مشکوک ہوگئے۔ تلاشی کے نام پر جو تذلیل پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں کو ملک اورقوم کا وقارعزیزہوتا تو وہ ان ممالک میں جانا ہی چھوڑدیتے جن ممالک میں پاکستانیوں کی عزت نفس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ طاہرالقادری ٹھیک ہی کہتے تھے کہ انہوں نے دوہری شہریت اس لیے لے رکھی ہے کہ انہیں دیگر ممالک کے دورے کرنے اورویزہ حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اپنے خطاب میں کہاکہ پنجاب لینڈریکارڈکی کمپیوٹرائزیشن کے تاریخی منصوبے کی تکمیل سے شہریوں کو بغیر رشوت دیئے اپنی اراضی کی فردملکیت حاصل ہوگی۔ اورانتقال اراضی کے معاملات میں آسانی پید اہوگی ۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ کمپیوٹرائزیشن سے رشوت ختم نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوگا۔ اب تو جنریٹر اورپرنٹینگ اخراجات کے نام پر اوربھی زیادہ لوٹ مار کا خطرہ ہے۔ پٹواری کہے گا تو ہی فردملکیت ملے گی۔ اور وہ اپنا حصہ لیے بغیر ایسا نہیں کرے گا۔ اراضی کا انتقال بھی پٹواری کے بغیر نہیں ہوتا۔ پہلے وہ خود درج کرتا تھا اب وہ کمپیوٹرپر کمپوزکرائے گا۔ اب تو وہ کہے گا کہ ڈبل کام کرنا پڑتاہے۔ اس لیے مجھے ڈبل مزدوری دی جائے۔ یا پھر اسے پہلے کمپیوٹرچلانا سکھائیں۔ اس سے اتنافائدہ ضرورہوگا کہ فردملکت جلدی مل سکتی ہے۔ اگر اس وقت بجلی دستیاب ہوئی تو۔ یہ بھی بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس سے بڑی تبدیلی تب ہوگی ۔ جب پٹواری فردملکیت کے واقعی پیسے نہیں لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے حکمرانوں نے اس اہم منصوبے پر توجہ نہیں دی۔ قوم کاپیسہ وقت ضائع کیا۔ سابق حکمرانوں نے اورکس کام پر توجہ دی ۔ جو اس کام پر انہوں نے توجہ نہیں دی۔ ویسے غیبت کرنا ہمارا قومی کلچر بن چکا ہے۔ جب تک ہم اپنے مخالفین کی خبر نہیں لیں گے ۔ اس وقت تک ہمیں چین ہی نہیں آتا۔ کیا یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہم اپنے مخالفین کی ہجوکی جائے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں۔ اس بات کا فیصلہ عوام پر چھوڑدیں کہ وہ خود یہ فیصلہ کریں کہ کس نے کام کیا اورکس نے نہیں کیا۔ کس نے زیادہ کام کیا ۔ اورکس نے کام کم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے لینڈریکارڈکی کمپیوٹرائزیشن کے منصوبے کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا۔ اس میں شہبازشریف بتارہے ہیں کہ یہ کام ان کا نہیں کسی اورکا ہے۔ ان الفاظ پر غورکریں کہ وہ کہتے ہیں کہ لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے لینڈریکارڈکی کمپیوٹرایزیشن کے منصوبے کوتیزی سے آگے بڑھایا۔ یہی الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ منصوبہ پہلے شروع ہوچکا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہم یہ نہ کہتے کہ منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ بلکہ وہ کہتے کہ اس منصوبے کو شروع کرکے اس پر تیزی سے عمل کرایا۔ ان کے ان الفاظ کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے۔ کہ یہ منصوبہ تو پہلے ہی شروع ہوچکا تھا اس پر عمل بھی کیا جارہا تھا ۔ تاہم اس کی رفتاربہت کم تھی۔ انہوں نے اس منصوبے پر کام کی رفتارکو تیزکیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئندہ جون دوہزارچودہ تک یہ منصوبہ انشاء اﷲ پورے صوبے میں عوام کو اراضی کے معاملات میں بہترین سہولت فراہم کررہا ہوگا۔ اﷲ کرے ایسا ہی ہو۔ ہمارے ملک میں ویسے منصوبے وقت پر مکمل کرنے کا رواج نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ منصوبے کی تکمیل سے تحصیلداراورپٹواری کلچر کا خاتمہ ہوگا۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس سے توصرف اتنی تبدیلی آئے گی کہ پہلے پٹواری زمینوں کا ریکارڈ اپنے ہاتھ سے مرتب کرتے تھے۔ اب وہ ہاتھ سے بھی مرتب کریں گے اورکمپیوٹرپربھی اپ لوڈکرائیں گے۔ کمپیوٹرتو دفتر میں پڑارہے گا یہ فیلڈ میں تونہیں جائے گا۔ فیلڈمیں توپٹواری ہی جائے گا۔ اوروہی آکرہی بتائے گاکہ کس نے کتنا رقبہ کاشت کررکھا ہے۔ اورکیا کاشت کیا ہواہے۔کون خودکاشت کررہا ہے اورکس نے ٹھیکہ پر دے رکھی ہے۔ کون اپنی اراضی کاشت کررہا ہے اورکس نے ٹھیکہ پر لے رکھی ہے۔ یہ سب کام تو پٹواری ہی فیلڈ میں جاکرکرے گا۔ وہ جس کی جو پوزیشن بتائے گا وہی کمپیوٹرمیں لکھی جائے گی۔ اب وہ چاہے من وعن درست بتائے یا اس میں تبدیلی کرلے۔یہ اسی پر منحصرہے۔اس سے تو اورمسائل بھی پیداہوسکتے ہیں کہ موقع پر کوئی بھی زمین کسی اورنے کاشت کررکھی ہواورپٹواری کسی اورکا نام کمپیوٹرمیں لکھوادے تو اگر اس کو خسرہ کی ضرورت پڑگئی وہ تو اسے نہیں ملے گا۔پہلے اگر ایسا ہوجاتا تھا تو کہہ دیتے تھے کہ انسان ہے غلطی ہوگئی ہے۔ اب کہا جائے گا کہ کمپیوٹرتو آپ کی کاشت نہیں بتارہا آپ کو خسرہ نہیں دیاجاسکتا۔ اب ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کا کیا بنے گا۔ ہم نے بھی بات سمجھی نہیں ۔ شہبازشریف نے یہ نہیں کہا کہ تحصیلداراورپٹواریوں کا خاتمہ ہوگاانہوں نے تو کہا ہے کہ اس سے تحصیلداراورپٹواری کلچرکا خاتمہ ہوگا۔ جب تک تحصیلداراورپٹواری ہیں۔ اس وقت تک اس کلچرکا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ شہبازشریف کہتے ہیں کہ ہم تحصیلداروں اورپٹواریوں کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں اس ذہنیت اورسوچ کو بدلنا ہے جس نے صدیوں سے عوام کو مشکلات سے دوچارکیے رکھا۔ اس میں تو کوئی دورائے نہیں کہ اس کلچرسے عوام مشکلات میں ہیں۔ سوچ بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ان پٹواریوں اورتحصیلداروں کی تربیت بھی اسی اندازسے کرنا ہوگی۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمیں اپنے آئین اورقوانین میں بھی تبدیلی لانا پڑے گی۔ ان قوانین اوراس آئین کوبدلنا ہوگا جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ صدیوں سے رائج سوچ اورذہنیت کو بدلنا آسان نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ میں نے گزشتہ چھ سالوں کے دوران سرکاری حکام کی سمریوں کے باوجودایک بھی پٹواری بھرتی نہیں کیا۔ اس سے تو لگتا ہے کہ وہ پٹواریوں کاہی خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم زمینوں کا ریکارڈ رکھنے اورفیلڈ کے معاملات کودیکھنے کیلئے پٹواریوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر انہوں نے پٹواری بھرتی نہیں کیے تو برطرف بھی تو نہیں کیے۔ یہ بھرتی نہ کریں گے تو کل کسی اورکی حکومت آئے گی ۔ تو وہ ان پٹواریوں کو بھرتی کرلے گی۔ پٹواریوں کی بھرتی آئین میں تو موجودہوگی۔ وہاں سے تو ختم نہیں ہوئی۔ کوئی امیدواریا کوئی اوراس بات کو کسی عدالت میں چیلنج بھی کرسکتاہے کہ آئین میں ہونے کے باوجوداتنے عرصہ سے پٹواریوں کی بھرتی نہیں کی جارہی ہے۔ اوراگر یہ سب آئین میں نہیں ہے تو اب تک پٹواریوں کی جتنی بھی بھرتیاں ہوئی ہیں۔ پھر وہ سب کی سب غیر آئینی ٹھہریں گی۔ ان پٹواریوں نے اب تک جو کام کیا جو ریکارڈمرتب کیا وہ بھی سب غیر آئینی ٹھہرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ آئین میں ترمیم کردیں کہ اب تک پٹواریوں کی جو بھرتیاں ہوچکی ہیں سوہوچکی ہیں۔ اب کے بعد پٹواریوں کی بھرتیوں پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ آج کے بعد کوئی پٹواری بھرتی نہیں کیا جائے گا۔ اب اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ پابندی برقراربھی رہے گی یا نہیں۔ کیونکہ آنے والی حکومت ایک بارپھر آئین میں ترمیم کرکے اس پابندی کو ختم بھی کرسکتی ہے۔ اس طرح پٹواریوں کی بھرتیاں پھرسے شروع ہوسکتی ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ بلکہ لینڈریکارڈ منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے تحت پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سروس سینڑوں پر محنتی ،ایمانداراورباصلاحیت افرادکو بھرتی کیا گیا ہے۔ اوراس کے لیے چیک اینڈبیلنس کا نظام بھی وضع کیا گیا ہے۔ یہ افراد سروس سینٹروں پر تو کام کریں گے۔ کیا یہ فیلڈمیں بھی جائیں گے؟ شہبازشریف کاکہناتھا کہ پنجاب حکومت کے فلاحی کاموں پر تنقید کرنے والوں عوام کی فلاح وبہبودسے کوئی سروکارنہیں۔ مخالف تب ہی کوئی بات کرتاہے ۔ جب اسے اس کا موقع ملتا ہے۔ کتنا ہی اچھا کام ہو۔ مخالف کی نظراس کی اچھائی کی طرف نہیں اس کی خامیوں کی طرف ہوتی ہے۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کوئی بھی کام کیا جائے ۔ اس میں کسی کوبولنے اوراعتراض کرنے کی ہمت نہ ہو۔ ویسے اعتراض برائے اعتراض کرنے والے ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ نہ تو ان سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ اورنہ ہی ان کو اہمیت دینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ عناصرماضی میں میٹروبس کے منصوبے کوجنگلہ بس سروس کا پراپیگنڈہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس عظیم الشان منصوبے سے آج روزانہ ایک لاکھ پچاس ہزاراافرادمستفید ہورہے ہیں۔ یہ سب کو نظربھی آرہا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ملک سے غربت بیروزگاری اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ معاشی وتجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ اورمعاشی اورتجارتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے آج کے دورمیں ضروری ہے کہ بجلی مسلسل فراہم کی جائے۔ تجارتی طبقہ سے ٹیکس بھی وصول کیا جائے ۔ اوران کو سہولیات بھی دی جائیں۔ اوران کو گوشوارہ دیا جائے کہ انہوں نے جو ٹیکس دیا ہے۔ وہ کتنا وصول ہوا۔ اورکہاں کہاں کیسے خرچ ہوا۔ تجارتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے بجلی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس بات کا اعتراف خود شہبازشریف بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو توانائی شدید بحران کاسامنا ہے۔ بجلی کے بغیر صنعت، زراعت، تجارت اورمعاشی سرگرمیوں کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن حکمرانوں نے بجلی کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ملک معاشی طورپر ترقی کرے۔ ملک کو اس سٹیج تک پہچانے والوں سے بھی بازپرس ہونی چاہیے۔ شہبازشریف نے کہا کہ صحافی برادری پرلازم ہے کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے لینڈریکارڈکے جدید نظام کے بارے میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کو آگاہ کرسکتے ہیں۔ صحافی آئیں آگے بڑھیں اوراس نظام کے بارے میں عوام میں شعوربیدارکریں۔

آج کے نئے دورمیں کمپیوٹرکی اہمیت سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔ اس کے استعمال سے آسانیاں پیداہوئی ہیں۔ تاہم کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جوصرف کمپیوٹرپر نہیں کیے جاسکتے۔ اورنہ ہی ہر کام کمپیوٹرپر ہوسکتاہے۔ اس سے کام کی رفتارتیزہوجاتی ہے اوراس سے کام کے معیارمیں بھی بہتری آجاتی ہے۔ اس سے نہ تو کرپشن کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔ اورنہ ہی اس طرح کے اورمسائل سے چھٹکارہ مل سکتاہے۔ بجلی کے بل تو کمپیوٹرائزڈہی آتے ہیں۔ ان پر بھی عوام کو مسائل کا سامنا ہے۔ اگر کمپیوٹرائزیشن ہی سب مسائل کا حل ہے توپھر بجلی اورٹیلیفون کے بلوں نے عوام کو کیوں پریشان کررکھا ہے۔ کمپیوٹرمیں تو وہ یونٹ فیڈہوں گے جو میٹرریڈرآکر بتائے گا۔ اب وہ ہر میٹرکو دیکھ کر ریڈنگ لکھے یا گھر بیٹھ کر لکھ لے اوردفترآکر دے دے۔اب میٹروں کی ریڈنگ کرنے کمپیوٹرتو نہیں جاسکتا۔ میٹرریڈرہی جائے گا۔ یہی معاملہ زمینوں کا ہے۔ اب کمپیوٹرتو دفتر میں پڑارہے گا۔ وہ زمینیں دیکھنے تو نہیں جائے گا۔ شہبازشریف کا یہ بھی جدید دورکے تقاضوں کے مطابق اچھا منصوبہ ہے۔ اس میں زمینوں کا ریکارڈ پانچ سوسال سے اپ لوڈکیا جائے۔ تو بہتر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نظام میں شجرہ نسب دیکھنے کی سہولت بھی ہونی چاہیے کہ کوئی اپنا ، اپنے والداورداداکا نام لکھے تو اس کا سلسلہ نسب سامنے آجائے۔ رہی یہ بات کہ پٹواری ہاتھ سے لکھتے ہوئے ردوبدل کرلیتے تھے تو اب بھی وہ ہوسکتاہے۔ زمینوں کی خریدوفروخت تو جاری رہے گی۔ جب یہ جاری رہے گی توردوبدل بھی ہوتارہے گا۔ شہبازشریف صوبے میں تبدیلیاں لارہے ہیں۔ آنے والے وقت میں اس کے اثرات سامنے آئیں گے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302394 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.