نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
ولادت با سعادت ایسے پر آشوب اور پر فتن ماحول میں ہو ئی کہ جہاں شرافت اور
انسانیت نیست و نابود ہوچکی تھی۔ ہر طرف ظلم و ستم ہی دکھائی دے رہا تھا ۔
لوگ عدل و انصاف کے لیےماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔ شرم و حیا رخصت ہو
چکی تھی۔ عفت و عصمت دم توڑ چکی تھی۔ بے حیائی و بے شرمی عام تھی۔ جوا قمار
بازی باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔زنا کاری و شہوت رانی ہر جوان کے فطرت ثانیہ
بن چکی تھی۔ عورتوں کی حیثیت ایک غیر انسانی مخلوق سے زیادہ نہیں تھی۔ ان
کے بطن سے بچی جنم لیتی تو انھیں حقارت بھری نگاہ سے دیکھا جاتا۔ لڑکیوں کو
باعث شرم و عار سمجھا جاتا اور پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیا جاتا تھا۔
عورتوں کے حقوق کی پامالی عام بات تھی اور ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کے
حوالے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر طرح کا جرم و گناہ معاشرہ کی
شناخت بن چکا تھا۔ اگر کوئی نمرود تھا تو کوئی فرعون، کوئی شداد تھا تو
کوئی قارون؛ پوری کائنات ظلمت کدہ، تاریکی ہی تاریکی، روشنی کا چراغ گل۔
پھر مستزاد یہ کہ کوئی پتھر کی پوجا کرتا تو کوئی دیوتا کی سامنے بھجن گاتا،
کوئی ستارے کی عبادت کرتا تو کوئی بتوں کے سامنے سر بسجود ہوکر اپنی
ضرورتیں پیش کرتا؛ اور انھیں خود ساختہ معبودوں سے، ان کےپورے ہونے کی توقع
رکھتا۔ بالجملہ سب کے سب عقل و خرد اور دانش مندی سے عاری تھے۔ ہاں! مگر
ایک ایسی چھوٹی جماعت اس وقت بھی تھی جو بارگاہ ایزدی میں سر ٹیکتی اور
آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتی تھی؛ لیکن یہ جماعت اس تیز و تند سیل رواں کو
کیسے روک سکتی تھی اور روکنا بھی چاہتی تھی تو ان کی باتوں پر دھیان نہیں
دیا جاتا تھا؛ کیوں کہ اس معاشرہ کے لوگوں کے قلوب ان کے پہاڑوں سے کہیں
زیادہ سخت، اپنی جگہ اٹل اور ان کے دماغ بنجر میدانوں سے بھی چٹیل، جہاں آب
و پانی غیر مؤثر ہوتے ؎
کون کر سکتا ہی ان کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو، ابلیس کا سوز دروز
دنیا ایسے نامساعد حالات میں ایک ایسے رہبر اعلی، محسن اعظم، مسیحاء وقت
اور منصف و عادل کو آواز دی رہی تھے جو حلیم و بردبار، بسالت و شجاعت کا
پیکر، ظلم کو ملیا میٹ کرنے والااور نوع انسانی کا مونس و غم خوار، اچھے
اخلاق و کردار کا حامل، لاق و ممتاز، مخلص اور سراپا اخلاص، اور جس کا ظاہر
چمک دمک سے معمورہو؛ چنان چہ اللہ عز و جل نے اہل عرب؛ بل کہ عالم انسانیت
پر رحمت کی بارش کی اور عبد المطلب کے کنبہ میں، آمنہ کے شکم سے ، چھٹی صدی
عیسوی کی ماہ و سال کے ایک ایسے دن اور اس کی ایک ایسی گھڑی میں، جو تاریخ
عالم کے لیے یادگار ہے، محسن بشریت، معلم انسانیت اور مربی خلائق کو ظلمت و
تاریکی کی رداء سیاہ کو چاک کرتے ہوئےپیدا فرمایاجو محمد عربی، سراپا امی
اور خاتم النبیین و المرسلین (صلی اللہ علیہ وسلم)سے ساری دنیا میں مشہور و
معروف ہوا۔
باد نسیم آج بہت مشک بار ہے
شاید ہوا کی رخ پہ کھلی زلف یار ہی
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جس ماحول اور معاشرہ میں آنکھیں کھولیں، وہاں
کسی کا برائیوں سے بچنا، زہد و ورع اور خشیت الہی اختیار کرنا بظاہر مشکل
اور محال معلوم ہو رہا تھا؛ بل کہ اس معاشرہ میں رہنے والے میں بناؤ سے
کہیں زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا اور اصلاح کی بجائے فساد کی راہ ہموار نظر آتی؛
لیکن اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیکر امانت و دیانت اور مجسمہ
صداقت و راست گوئی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عفت و پاک دامنی، تواضع و
انکساری، عاجزی و فروتنی اور خوش اخلاقی و شیریں بیانی کا وہ نمونہ پیش کیا
کہ اہل مکہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
اصابت رائے پر لوگ انگشت بدنداں تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قضیہ کا
فیصلہ فرماتے تو سب کے سب سر تسلیم خم کر لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
عادات و اطوار کو دیکھ کر لوگ رشک کرتے، آپ اپنی زندگی اس پراگندہ ماحول سے
جدا ہوکر گزارتے تھے، آپ کی حیات مبارکہ کا ہر لمحہ، ہر لحظہ ذکر و فکر اور
خوف خدا میں گزرتا تھا۔ آپ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ، مکہ کی آبادی سے دور
ایک غار میں چلے جاتے اور عبادت میں مشغول رہتے۔ پھر اس تنہائی اور خلوت
گزینی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے اخلاق و کردار اور تہذیب و تمدن سے
آراستہ کیا کہ سب نے آنکھوں کا تارا بنا لیا اور الصّادق اور الامین کہنے
لگےاور ہر ایک کے منظور نظر ہو گئےاور اس سے بھی بڑھ کر آپ محبوب رب
العالمین بن گئے۔
پھر کیا تھا! ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تشریف فرماتھےکہ
حضرت جبریل علیہ السلام وحی الٰہی لے کر پہنچے ،آپ کو مژدہ سنایا اور اطراف
عالم کے لیےایک ایساچراغ جلایاجس نے اپنی تیز تر روشنی سے دنیا کے چپے چپے
اور گوشے گوشے کو منور کردیااور لوگوں کے قلوب کو سکینت سے معمور ؛ بل کہ
مخمور کردیا۔ یہ وہی موقع تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی و رسول
ہونے کی سعادت حاصل ہوئی اور کیوں نہیں ہوتی جب کہ آپ اسی کے لیے اس دنیا
میں پیدا کیے گئے تھے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے گھر تشریف لائے اور اپنی مشیر
و مونس، پیاری شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے سارا واقعہ
بیان کیا؛ کیوں کہ بہ ظاہر آپ کی خوشی میں شریک اور غمی تسلی دینے والی صرف
یہی ایک نیک خاتون اس کرہ ارضی پر باقی تھیں۔ پھر آپ نے اہل مکہ کے سامنے
اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ اب اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اس صادق اور امین کی
باتوں کو سب گوش گزار کرکے ، دل کے نہا خانوں میں اتارتے اور ایمان کی دولت
سے بہرہ ور ہوتے، ایمان کی لذت محسوس کرتے، آپ کے اشارے پر جان قربان
کردیتے، حکم صادر ہوتے ہی گردن کٹانے کو تیار ہوجاتے اورآپ کو قدر کی
نگاہوں سے دیکھتےاور دیگر ادیان باطلہ جو ان کے ذہنوں کی اختراع اور پیدا
وار تھے ترک کرکے کلمئہ طیبہ کو اپنا شعار بناتے؛ لیکن اہل مکہ کے دل و
دماغ اور ان کی جاہلانہ نخوت و برتری نے انہیں ایک ایسی حقیقت کے اعتراف
کرنے سے منع کیا جو آفتاب نیم روز کی طرح روشن اور عیاں تھی۔ ان کوتاہ
نظروں اور تنگ ظرفوں نے آپ کی نبوت کی تصدیق نہیں کی، تاج نبوت کی تکذیب کی
اور نعوذباللہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر و مجنوں گردانا۔ اسی پر
بس نہیں کیا ؛ بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی پیچھے پڑ گئےاور شمع
نبوت کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی؛ کچھ نادارمفلس آدمی جن کو اللہ نے عقل
و خرد اور فہم سلیم عطا کیا تھا، انہوں نے دین اسلام کو سمجھا، تاڑا،
برتااور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ پھر اپنے طور و طریقے کونبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی رہنمائی کے مطابق سنوارا؛ اس لیے ان نفوس قدسیہ کا رہن سہن
دنیا کے حق پرستوں کے لیے مشعل راہ اور درس عبرت ہوگیا، جب کہ کفار مکہ کو
دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں خلود فی النار ہی مقدر کردیا گیااور یہ
سب کچھ ان کو دین اسلام کے خلاف بےجا بغض و عناد رکھنے اور اس کی تابناک
شمع کو گل کرنے کی کوشش کے نتیجے میں ہوا؛ جب کہ اسلام کا پیڑ و پودا ہمیشہ
سوا رہا اور رہے گا۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا |