ہمارے جیسے ملک میں زیادہ تر
کمپنیوں نے بظاہرآٹھ کام گھنٹے یا بلکل تھک جانے کی حد تک کام کی پالیسی
اپنائی ہوئی ہے۔ کام کی زندگی کے درمیان توازن کو برقرار رکھنے کا کہا جاتا
ہے۔ کچھ نوجوان افراد کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ جب وہ پیشہ ورانہ دائرے میں
داخل ہوں تو اپنی عادات کو کسی نظم و ضبط کے دائرے میں لائیں۔. اصل میں جاب
مارکیٹ میں داخل ہونا ایک چیلنج ہے۔ اور اگر آپ نے زمانہ طالب علمی میں اس
چیلینج کی تیاری نہیں کی ہے تو آپ عدم توازن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لئے
عملی زندگی میں آنے سے قبل تعلیمی مصروفیات اور خاندان اور سماجی زندگی کے
درمیان نازک توازن کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ
کام پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ دس ، سے بارہ گھنٹے کام کرکے جب وہ
گھر واپس لوٹتے ہیں تو تھکن سے بے حال ہوتے ہیں۔ اور پھر گھر واپس آنے کے
بعد وہ خاندان کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ اصل میں
، اسی کو اکثر معیار سمجھا جاتا ہے.اس کے برعکس ، اگر نوجوان خواتین کو
اپنے پیشے کی پیروی کرنا چاہتی ہوں تو ہمیشہ گھر آنے پر ان سے مدد کی توقع
کی جاتی ہے۔ اور توقع کی جاتی ہے کہ یہ خواتین گھر آنے پر امور خانہ داری
بھی اسی طرح انجام دیں جیسے گھر گرہستی عورتیں کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں خواتین
کے بارے میں عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سپر ماں ،ایک کامیاب بنکار،
استاد ،وکیل ، ایک ٹی وی اسٹار جیسی کامل شخصیت ، اچھی طرح بچوں کا خیال
رکھنے والی آیا، ، ایک اچھی گھروالی اور سماجی زندگی میں کامیاب خاتون ہو۔
ہم نے معاشرے میں سپر ماں کا تصور بنایا ہوا ہے، یہ تصویر اکثر میڈیا سے
باہر آتا ہے۔ لیکن ایک ماں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بہت کم بتایا جاتا
ہے۔ گھریلو خواتین اپنا وقت کس طرح سے گذاریں اس پر بہت کم ہی دھیان دیا
جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر کی مثال لے لیں ا س کے ڈیوٹی کے اوقات اور اس کے بعد
کوئی کلینک کیا اسقدر مصروفیات میں وہ اپنے خاندان اور مریضوں سے انصاف کر
سکے گا۔ یہ حال نوجوانوں کا ہے، بے تحاشا مصروفیات انہیں کسی کام کا نہیں
رہنے دیتی۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ اور اس
زندگی میں سب کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے کام اور زندگی کے درمیان توازن کو
برقرار رکھنا چاہیئے۔ ہمیں اپنی زندگی کے حاصل لمحات کو خوشگوار بنانا
چاہیئے۔ میریٹ انٹرنیشنل ہوٹل اپنے ملازمین کے لیے ایسے مواقع پیدا کرنے کی
کوشش میں رہتا ہے کہ وہ اگلی پوزیشنوں پر جاسکیں۔ اس میں ۳ ہزار مینیجرز نے
معمولی پوزیشنوں سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ ارنسٹ اینڈ ینگ نامی کمپنی کے
ملازمین نے ایک دن میں ۸۳ ہزار گھنٹے رضاکارانہ کام کے لیے صرف کیے۔ سافٹ
وئیر کی معروف کمپنی سیلز فورس اپنی رفاہی خدمات کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ
اپنے ملازمین کو سماجی خدمت کے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے۔ ہر ملازم کو سال
میں تنخواہ کے ساتھ ۶ دن ملتے ہیں کہ وہ کسی رفاہی سرگرمی میں حصہ لے سکے۔
انٹیوٹ کمپنی جدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے اپنے ملازمین کو اپنی مرضی کے
منصوبے پر کام کرنے کے لیے ہفتے میں ۴ گھنٹے دیتی ہے۔ جنرل ملز فوڈ کی
کمپنی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ ہم لوگوں کو جاب کے بجائے کیرئیر فراہم کرتے ہیں۔
اس کے ۵۸ فیصد آفیسرز نے اسی کمپنی میں چھوٹی پوزیشنوں سے کام شروع کیا
تھا۔ امپکوا بینک کا ادارہ اپنے ملازمین سے کہتا ہے کہ وہ سال میں ۰۴ گھنٹے
رضاکارانہ طور پر سماجی خدمت کے لیے وقف کر سکتے ہیں اور اس کا انھیں
معاوضہ بھی ملتا ہے۔ ای او جی ریسورسز آئل کمپنی ہے جو ہر سال اپنے ملازمین
کو گھروالوں کے ساتھ ایک تقریب میں مدعو کرتی ہے جہاں ان کے تعاون کا شکریہ
ادا کیا جاتا ہے۔ ٹمبرلینڈ اور پرائس واٹر ہاؤس کوپرز بھی ۲ ایسی کمپنیاں
ہیں جو ملازمین کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ سماجی خدمت کے کام بھی
کریں۔اداروں کے لیے اپنی اقدار اور ویڑن کا تعین کرنا بہت اہم ہے۔ اس سے
انھیں سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ کیا ادارے کا مقصد محض نفع کمانا ہے اور وہ
یہ بھی سوچتے ہیں کہ بہتر معاشرہ کیسا ہوگا اور اس میں ان کا کیا کردار
ہوگا۔ اداروں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ان اقدار اور
ویڑن کی تعلیم بھی دیتے رہیں۔ اقدار اور ویڑن کے حوالے سے ایک دلچسپ مثال
ہولسٹی کے بارے میں مشہور ہے۔ یہ کمپنی کپڑا فروخت کرتی ہے۔ یہ اپنی مشن
سٹیٹمنٹ کو ایک پوسٹر کی شکل میں سامنے لے کر آئی جس میں اْس نے اپنی اقدار
کے بارے میں لکھا۔ اس میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ کمپنی نفع کمانے کے
علاوہ زندگی اور کامیابی کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ یہ مشن سٹیٹمنٹ اتنی
مقبول ہوئی کہ لوگ ان کی اصل پراڈکٹ کے بجائے کمپنی کو اسی حوالے سے زیادہ
جانتے ہیں۔ اسے انٹرنیٹ پر ۰۵ ملین سے زائد بار دیکھا گیا اور کئی زبانوں
میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔
ترقی پذیر ممالک کے اداروں کے پاس اگرچہ وسائل محدود ہوتے ہیں لیکن اس کے
باوجود کام کے بارے میں اچھا ویڑن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کام ایک ایسی
سرگرمی بن جاتا ہے جس سے نفع بھی حاصل ہو اور سماجی بھلائی کی سوچ کو بھی
فروغ ملے۔ اگر ملازمین کو اچھا معاوضہ اور سہولتیں مل بھی جائیں تو یہ
ضروری نہیں ہوتا کہ کام ان کے لیے پْرلطف سرگرمی ہوگا۔ اس کے لیے ضرورت ہے
کہ وہ کام کے بارے میں ایک اچھا ذہنی رویہ بھی اپنائیں۔ انھیں کام کے لیے
ایک بڑا ویڑن سامنے رکھنا ہوگا تاکہ اس میں ایک مقصدیت پیدا ہو۔ انھیں
دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کے لیے اپنے کام کے ذریعے کتنا
مفید بن رہے ہیں یا ان کی وجہ سے معاشرے کی اجتماعی تصویر میں کیا بہتری آ
رہی ہے۔
بہت سے لوگ کام کو اپنے لیے ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے اختیار میں ہو
تو وہ ایک دن کے لیے بھی کام پر نہ جائیں۔ درحقیقت زندگی میں مقاصد جتنے
اعلیٰ ہوں اس میں پریشانی اور تناؤ اسی حد تک کم ہوجاتے ہیں۔ اس حوالہ سے
روچسٹر یونیورسٹی میں ایک دلچسپ تحقیق کی گئی۔ محققین نے طالب علموں سے ان
کی زندگی کے مقاصد کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ تقریباً ۲ سال کے بعد ان
طالب علموں سے جب وہ عملی زندگی میں کام کر رہے تھے ان کے مقاصد کی کامیابی
کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ جن طالب علموں کے
مقاصد میں اپنی زندگی اور سوچ کو بہتر بنانا اور دوسروں کی زندگیوں میں
مثبت تبدیلی لانا جیسے عزائم شامل تھے، وہ یونیورسٹی کے دنوں کی نسبت زیادہ
مطمئن تھے اور ان کی زندگی میں تناؤ کم تھا۔ اس کے برعکس جن طالب علموں کے
مقاصد دولت اکٹھی کرنا، شہرت پانا تھے، وہ دولت تو حاصل کر رہے تھے لیکن وہ
یونیورسٹی کے دنوں میں جتنے خوش تھے آج اتنے خوش نہیں تھے۔ ان کی زندگی میں
بے چینی اور تناؤ تھا۔ گویا وہ اپنے مقاصد تو حاصل کر رہے تھے لیکن ان کی
خوشی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا تھا۔
جب کام میں بوریت اور تناؤ ہو تو بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کام اور
ملازمت کا واحد مفہوم اگر تنخواہ حاصل کرنا ہو تو یہ ایک ناپسندیدہ چیز بن
کر رہ جاتا ہے۔ ستھ گوڈن مارکیٹنگ کی دنیا کا بڑا نام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
اگر ہم خود کو ایک ایسا آرٹسٹ سمجھیں جو اپنے اندر موجود خوبیوں اور
صلاحیتوں کو گفٹ کی طرح سمجھتا ہے تو ہمارے نزدیک کام کا واحدمفہوم تنخواہ
حاصل کرنا نہیں ہوگا۔ اس حوالے کے لیے وہ دنیا کے ایک بڑے فوٹوگرافر کی
مثال دیتا ہے جس کا کام سب کے لیے مفت دستیاب ہے۔ وہ اپنے کام کو گفٹ
سمجھتا ہے جسے وہ دنیا کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ اس کام کے علاوہ اس کے پاس
ایسے کام کی بھی کمی نہیں جس کا اسے معقول معاوضہ ملتا ہے۔ جس کام سے آمدن
بھی ہو رہی ہو اور آپ اس حوالے سے اچھا محسوس کر رہے ہوں کہ اس سے معاشرے
میں کوئی بہتری آ رہی ہے تو ایسا کام خوشگوار ہوتا ہے۔ ہمیں اسی سوچ کو
سامنے رکھتے ہوئے اپنے کام کا جائزہ لینا چاہیے۔جب کام ہمیں پسند ہو تو اس
میں ہماری کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ اچھے ملازم ڈھونڈتے ہوئے بھی اسی سوچ کو
سامنے رکھنا چاہیے۔ معروف فلاسفر ہنری ڈیوڈتھوریو کا کہنا ہے کہ اْس شخص کو
ملازم نہ رکھو جو دولت کے لیے کام کرے بلکہ اسے ملازم رکھو جو کام کی محبت
میں کام کرنا چاہے۔ زے پوز جوتے فروخت کرنے والی امریکی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی
موٹیویٹیڈ لوگوں کو ڈھونڈنے پر یقین رکھتی اور اِس کے لیے ایک دلچسپ طریقہ
اختیار کرتی ہے۔ کمپنی منتخب ہونے والے ملازمین کو ایک ہفتے کی ٹریننگ دیتی
ہے۔ اس ٹریننگ کے بعد انھیں آپشن دی جاتی ہے کہ اگر وہ کمپنی کے ساتھ نہیں
چل سکتے تو وہ کمپنی چھوڑ سکتے ہیں اور کمپنی انھیں ۲ ہزار ڈالر کی رقم بھی
دیتی ہے۔
کام میں دلچسپی ہو تو انسان اسے بہتر سے بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کرتا
ہے۔ مقبول مصنف گبریل گارشیا مارکیز کے بارے میں جیرالڈ نے زبردست کتاب
لکھی۔ جیرالڈ کی اپنے کام سے لگن ایسی تھی کہ ایک رات اس نے اْس قصبے میں
ایک بنچ پر بھیگتے ہوئے گزار دی جہاں مارکیز پیدا ہوا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ
وہ اس علاقے کے احساس کو اپنے اندر سمو سکے۔ امریکا کے نامور مصنف نیل گیمن
کہتے ہیں کہ جب میں کسی چیز کو ایڈونچر سمجھتا تھا تو اْسے پوری لگن سے
کرتا تھا۔ جس دن مجھے لگتا تھا کہ میں کام کر رہا ہوں اسی دن میں اس سے
پیچھے ہٹ جاتا تھا۔ہم اپنے وقت کا بڑا حصہ روزی کمانے کے لیے کام یا ملازمت
کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ آج ہمیں ماضی کے لوگوں کے مقابلے میں کام کو کم وقت
دینا پڑتا ہے۔ کام کے بارے میں ہمارا تصور بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا
رہا ہے۔ایک زمانہ وہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ انسان روزی کمانے کے لیے کام
بھی کر رہا ہو اور وہ آزاد، مطمئن اور خوش بھی ہو، یہ ۲ باتیں ناممکن
ہیں۔آج اِس تصور کو بھی فروغ مل رہا ہے کہ کام کو ایک بامعنی سرگرمی بنانا
ممکن ہے۔ یہ ہماری زندگی میں خوشی، اطمینان اور مقصدیت لا سکتا ہے لیکن ہم
میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو صبح کام پر جاتے ہوئے بے دِلی، بوریت اور تناؤ
سے دْور ہوں اور دْنیا کو اپنے اور دوسرے لوگوں کے لیے بہتر جگہ بنانے کے
عزم سے سرشار ہوں؟ کام اگر ہمارے لیے ایک خوشگوار سرگرمی ہو تو ہماری پوری
زندگی پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ کہاجاتا ہے کہ وہ شخص بڑا
خوش نصیب ہے جسے اپنی پسند کا کام مل گیا ہو۔اداروں اور کمپنیوں کا کام کے
بارے میں کیا تصور ہوتا ہے؟ کام کا اچھا ماحول بنانے میں اس تصور کا بڑا
عمل دخل ہوتا ہے۔ اسی طرح ملازمین کام کو بامقصد بنانے کے لیے کتنے سنجیدہ
ہیں، یہ چیز بھی کام کو پْرلطف بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کام کرنے
کی اچھی جگہ پر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملازمین کی حوصلہ افزائی
ہوتی رہے۔ انھیں اپنے خیالات سامنے لانے اور تخلیقی سوچ کے اظہار کا موقع
دیا جاتا ہے۔ وہاں ملازمین کو نئی چیزیں سیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ انھیں
کچھ حاصل ہونے کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ جب ملازمین کو یہ چیزیں ملتی ہیں وہ
اداروں کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔میڈیا کے کئی بڑے
ادارے ایسی فہرستیں شائع کرتے ہیں جن میں ان کمپنیوں کی درجہ بندی کی جاتی
ہے جو ملازمین کا خیال رکھنے میں سب سے آگے ہوں۔بہت سی کمپنیاں اور ادارے
پیداواریت بڑھانے پر تو زور دیتے ہیں لیکن کام کو ایک پْرلطف سرگرمی بنانا
ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ کارپوریٹ دنیا پر ایک نظر دوڑائی جائے
تو ہمیں ایسی کئی کمپنیاں ملیں گی جو اپنے ملازمین کے کام کو پْرلطف بنانے
اور اس میں لوگوں کی خدمت جیسی مقصدیت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اپنے
لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات پیدا کرتی ہیں۔ گوگل کمپنی انٹرنیٹ کی
دنیا کا بڑا نام ہے۔ یہ اپنی جدت پسندی اور ملازمین کے لیے کام کا خوشگوار
ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے سب سے آگے تسلیم کی جاتی ہے۔ ۳۱ سال قبل اس نے
ایک چھوٹی کمپنی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا۔ آج اس کے ملازمین کی تعداد
۰۳ ہزار سے زائد ہے اور دنیا میں اس کے ۰۶ دفاتر ہیں۔
گوگل کا ہیڈکوارٹر وسیع و عریض رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں رنگ برنگی
سائیکلیں کھڑی ہوتی ہیں تاکہ ملازمین انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے
لیے استعمال کرسکیں۔ کمپنی میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے کچن بنائے گئے
ہیں تاکہ جب بھی کسی ملازم کو بھوک لگے وہ کچن میں جا کر کچھ کھا پی سکے۔
کمپنی میں ۰۰۱ سے زائد ایسے کچن موجود ہیں۔ ان کے علاوہ وہاں کئی بڑے کیفے
اور ریسٹورنٹ بھی موجود ہیں۔ کمپنی میں ملازمین کے لیے ۶ جم بھی بنائے گئے
ہیں۔ وہاں ملازمین کے لیے واشنگ مشین اور ڈرائیر بھی موجود ہوتے ہیں تاکہ
وہ کام کے ساتھ ساتھ اپنے کپڑے دھونا چاہیں تو انھیں استعمال کرسکیں۔ گوگل
کمپنی میں کام کا ماحول بڑا لچک دار ہے۔ انجینئر ٹیبل ٹینس کھیلتے ہوئے بھی
کسی نئے منصوبے پر بات چیت کر سکتے ہیں۔
گوگل کمپنی کے ۰۲ فیصد کے قانون کے مطابق ملازمین اپنے وقت کا ۰۲ فیصد اپنی
مرضی سے کسی ایسے پروجیکٹ کو دے سکتے ہیں جو کمپنی کے لیے فائدے مند ہو
سکتا ہے۔ گوگل کی ای میل کی سہولت جی میل اور گوگل نیوز جیسی کئی چیزیں اسی
۰۲ فیصد وقت میں سامنے آئی ہیں۔ کام کے اسی اچھے ماحول کی وجہ سے گوگل
کمپنی کو ہر سال لاکھوں افراد ملازمت کے لیے اپنے کوائف بھیجتے ہیں۔ آئی ٹی
کمپنی ان ٹیل اپنے لوگوں کو ۸۱ یا ۴۲ مہینوں کے بعد نئی پوزیشن پر لے جاتی
ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف شعبوں کے بارے میں نئی نئی چیزیں
جان سکیں۔ نئے آنے والوں کو کہا جاتا ہے آپ کی اگلی ۵ ملازمتیں ہمارے ساتھ
ہوں گی۔ زندگی ہے تو جہاں ہے۔ اس مقولے پر عمل کیجئے اور زندگی کو خوشگوار
بنایئے۔ کام وہ منتخب کیجئے جس میں آپ کی دلچسپی ہو، فیض نے کہا تھا کہ وہ
لوگ بہت خوش قسمت تھے۔ جو کام سے عاشقی کرتے تھے۔ آپ بھی کام سے عشق کر
لیجئے، پھر زندگی سنور جائے گی۔ |