محترم فراز تنویر صاحب آپکا
مضمون َ َ دوہری شخصیت َ َ کا مطالعہ میں نے بھی کیا تھا اور مجھے اس میں
کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جو کہ خلاف واقعہ ہو یا کوئی انہونی بات ہو۔
فراز تنویر صاحب ہم آپ کے مضامین کو دو وجوہات سے پسند کرتے ہیں نمبر ایک
تو یہ واقع اچھے ہوتے ہیں اور پسند کے قابل ہوتے ہیں اور نمبر دو یہ کہ آپ
کی یہ بات ہمیں اچھی لگتی ہے کہ اس ویب سائٹ پر مجھ سمیت کئی افراد اپنی
سیاسی، نظریاتی، یا مسلکی وابستگی کی بنیاد پر مضامین لکھتے ہیں ان سب کے
درمیان آپ َ َ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچےَ َ کے مصداق غیر
جانبدارانہ اور انتہائی اچھے مضامیں لکھتے ہیں
اب آتے ہیں ہم اپنی بات کی طرف اگر ہم غور کریں تو ایسے کئی کردار ہمیں
اپنے آس پاس بھی نظر آجائیں گے۔ لیکن ہم لوگ شاید اس طرف دھیان نہیں دیتے
ہیں۔ اگر دیکھا جائے اور ہماری بات کو مبالغہ کو نہ سمجھا جائے تو ہر انسان
ہی دوہری شخصت رکھتا ہے اگرچہ آپ کا انداز فکاہیہ ہے لیکن بات درست ہے اور
اگر ہماری بات کو غلط رنگ نہ دیا جائے تو ہم یہ کہیں گے کہ مرحوم ابنِ
انشاء اس کی واضح مثال ہیں۔ ابن انشاء کی مزاحیہ نثر نگاری اردو ادب میں
کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے تو ان کی شاعری سنجیدگی کا رنگ لیئے ہوئے ہے۔ اسی
طرح مشہور پاکستانی سائنسدان جناب ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی مرحوم نہ صرف
ایک بہت بڑے سائنسدان تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے مصور بھی تھے۔
اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کی شہرت ایک ایٹمی سائنسدان کی ہے لیکن
اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے مضمون نگار اور کالم نویس بھی ہیں، جبکہ
ہالینڈ میں دوران تعلیم انہوں نے کچھ عرصے تک صحافت بھی کی ہے اور وہ
روزنامہ جنگ میں مکتوب ہالینڈ کے نام سے خبریں بھی دیتے رہے ہیں۔آخری مغل
تاجدار بہادر شاہ ظفر ایک بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھے۔
یہ تو مشہور شخصیات ہیں جبکہ ہم اپنی روز مرہ زندگی کا جائزہ لیں تو بھی یہ
بات درست دکھائی دیتی ہے۔ دیکھیں عموماً ایک استاد جو کہ کلاس روم میں ایک
انتہائی بارعب، سخت گیر اور سنجیدہ شخصیت رکھتا ہے لیکن وہی استاد عموماً
اپنے حلقہ احباب اور گھر میں ایک یار باش، نرم خو، ہنس مکھ ہوتا ہے۔ جبکہ
اس کے برعکس بھی مثالیں موجود ہوتی ہیں کہ ایک فرد دوستوں اور یاروں میں یا
آفس کولیگز کے درمیان انتہائی منکسر المزاج، نرم خو، اور ہنس مکھ ہوتا ہے
لیکن گھر پہنچتے ہہی وہ ایک سخت گیر، اور سنجیدہ فرد بن جاتا ہے۔ اسی طرح
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک فرد حلقہ یاراں میں خوب ہنس بول رہا ہے، قہقہے
لگا رہا ہے، لیکن درحقیقت وہ اندر سے بہت دکھی ہے اور اپنا غم چھپا رہا
ہوتا ہے۔ بقول شاعر
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم جس کو چھپا رہے ہو
یہ ہم نے کچھ مثالیں آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے جو
معذرت نامہ تحریر کیا ہے یہ صرف آپ کی نیک اور سادہ فطرت کو ظاہر کرتا ہے
ورنہ آپ کے مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو کہ قابل اعتراض ہو۔ اس لیے
آپ کو اتنا معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
آخر میں ابن انشاء مرحوم ہی کی ایک نظم پر اپنے مضمون کا اختتام کرونگا
تاکہ لوگوں کو ابن انشاء مرحوم کی مزاحیہ نثر نگاری کے ساتھ اس کے برعکس
شاعری کا اندازہ ہو۔
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا اک ایک شے پہ مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا حسرتیں لیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج پھر میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو ایک ایک دکان مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر چھوٹا سا الہڑ سا اب میں وہ لڑکا کہاں |