انڈیا سے سیکھو

سرکاری اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں ،وزیروں، مشیروں کے پی آراو کے طریقہ واردات اور اختیارات کے استعمال سے متاثرہ لوگ تو واقف ہیں مگر عام آدمی ان کی سوچ اور طرز عمل سے بے خبر ہے یہاں پر کسی وزیر سے بات کرنا ،اس سے ملنا اور کو ئی اپنا مسئلہ بتانا تو آسان ہے مگر ان کے پی اراو سے ملنا یا ان سے کوئی بات کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا شیر کے منہ سے نوالہ چھینا،موجودہ دور کے ایک وزیر کے پی ،آر ،او ایک محفل میں بیٹھے اپنی طاقت اپنے اختیارات کے استعمال اور اپنی شاتری کی کہانی سناتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہمارے پاس جو کوئی کا م کروانے ،یا اپنی درخواست وزیر سے مارک کر وا کے ہمارے پاس آتا ہے تو ہم سب سے پہلے اس کی برادری ،بیگ گراونڈ ،اثر و رسوخ،تعلق اور احتجاج کی طاقت دیکھتے ہیں پھر اسے جواب دیتے ہیں اگر کوئی مضبوط تعلق والا ،اچھی جان پہچان رکھنے والا اور کام نہ ہونے پر مشکل پیدا کرنے والا ہو تو ہم اس کا کام بھی کرتے ہیں اور ساتھ اپنا احسان کے ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرواتے ہیں کہ ہم نے بڑی مشکل سے ریسک لے کر آپ کا کام کیا ہے، اس کے لئے ہم نے وزیر صاحب کے بڑے پاوں پکڑے ہیں ،یہ بھی کہ ہم عوام دوست ہیں آپ کا حق تھا ہم آپ کی خدمت کے لئے بیٹھے ہیں آپ کو جب بھی کوئی کام پڑے تو آپ بس فون کر دیا کریں،اس کو خوب مکھن لگاتے ہیں اس دوران اگر وہ جیب میں کچھ ڈال دے تو بس گول مول کر لیتے ہیں مگر زبردستی نہیں، اور اگر اس کی نسبت ایک واقعی مستحق ۔میرٹ پر پورا اترنے والا، لائق ۔ہونہار قابل ،ضرورت مند کی کوئی درخواست یا فائیل جس پر یہ حکم بھی درج ہو کہ اس کا کام کیا جائے ہم اسے وقت دیتے ہیںاسے جھوٹ کی تاریخ بتاتے ہیں اور ساتھ بہت سے خدشات بھی ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحال کسی سے اس کا ذکر نہیں کرنا ورنہ تمہارا کام خراب ہوجائے گا بس تم انتظار کرو تمہارا کام ہو گیا اس طرح وہ بڑاخوش ہوتا ہے کہ میرا کام ہوجائے گا اس دوران وہ وقتاً فوقتاً ہم سے رابطہ کرتا رہتا ہے اور ہم اسے حالات کی خرابی ،کچھ سیاسی مسائل، مشکلات کا بتا کر اسے وقتی گولی دیتے رہتے ہیں پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کان تک یہ بات پہنچا دیتے ہیں کہ یہاں پر بڑی بڑی سفارشوں والے بھی ہیں ان کی موجودگی میں ہمارے لئے اس کا کام کرنا بڑا مشکل ہے اب وزیر صاحب کو کچھ دے کر ہی کام کروانا ہوگا۔یہ پیغام بھی اس تک پہنچاتے ہیں کہ وہ اکیلا ملے اس کا کام فلاں جگہ پرپھنسا ہوا ہے،ہمیں اس کی ساری طاقت کا پتہ ہوتا ہے اس لئے بے فکری سے اس کو امیدیں دیتے رہتے ہیں اس کے جذبات کے ساتھ مزے لے لے کر کھیلتے رہتے ہیں ۔اگر یہ ہماری جیب ہماری مرضی کے مطابق گرم کر دے تو پھر کسی عارضی کھاتے میں اسے اٹکا دیتے ہیں اور آنے والے وقت کی جھوٹی تسلی دے کر اسے خوش اور پر امید رکھتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو پھر اس کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو عدالتوں میں بے گناہ اور بے قصوروں کو مجرم بنا کر کیا جاتا ہے ، یہ تاریخ وہ تاریخ ،میرٹ کا بہانہ ،نقطے پر نقطہ نکالتے ہیں ہمیں اسکی خبر ہوتی ہے کہ یہ احتجاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،ہم اسے اتنا تنگ اور ذہنی پریشان کر دیتے ہیں کہ وہ بے بس ہو جاتا ہے کچھ تھک جاتے ہیں کچھ اسی کوشش میں اوورایج ہو جاتے ہیں ہمارے اس طریقہ واردات سے کبھی تو ہمارے وزیر واقف ہوتے ہیں اور کبھی ہم ان کو بھی گولی دے دیتے ہیں۔

یہاں پر ادارے ہوں یا انسان ،ریاستیں یا ملک وہ ایسی کلیہ پر چلتے ہیں وہ میرٹ پر نہیں بلکہ اوقات پر تولے جاتے ہیں جس کی جتنی بڑی آنکھیں اس کا اتنا رعب جس کے جتنے بڑے دانت اس کا اتنا خوف ہوتا ہے ایسی ہی صورت حال پاکستان کی امریکہ کے سامنے ہیں اور امریکہ بھی کچھ ان پی، ار، او، جیسا ہی سلوک کرتا ہے کیوں کہ امریکہ پاکستان کی طاقت سے واقف ہے ،جب کہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کے اس سے مختلف رویہ اپناجاتا ہے، انڈین سفیر کی امریکیوں نے صرف تلاشی لی،اس کو اس کے جرم کی سزا دی اپنے قانون کے دائرے میں راہ کر کارروائی کی مگر پھر بھی انڈیا کی عوام میڈیا اور خود حکومت سراپا احتجاج بن گی ملک میں مظاہرے ہوئے میڈیا میں سوائے اس کے کوئی اور تبصرے نہیں تھے کہ امریکہ اپنی طاقت میں یہ بول گیا کہ اس نے کس ملک کے سفیر کو ہاتھ ڈالا امریکہ معافی مانگے ورنہ اس کا سفارت خانہ بند کر دیا جائے ،عوام اور میڈیا مسلسل حکومت کو یہ باور کرواتا رہا کہ وہ امریکہ کی معافی والے موقف سے پیچھے نہ ہٹے ہم کسی سے کم نہیں اور نہ ہم غلام ہیں کہ ہمیں امریکہ سے کوئی خطرہ ہوگا ہم جواب دینا جانتے ہیں ہندوستان میں بے چینی کی کیفیت تھی امریکہ کی جتنی تذلیل ہو سکتی تھی کی گی امریکہ کو، ناکوں چنے چبائے اور آخر مجبور کیا کہ امریکہ کے بے لگام ہاتھیوں نے اس بات کا افسوس کیا کہ بھارت کے سفیر کے ساتھ جو کچھ ہوا ہمیں اس کا افسوس ہے اور آئندہ ایسا نہیں ہوگا ،تب جا کے انڈیا والوں کے منہ بند ہوئے ،جب کہ ہماری تاریخ گواہ ہے ہمارے حکمران اور میڈیا خود امریکہ کے اس طرح گیت گاتے ہےں جس طرح کسی فلم میں کوئی مجبور انسان کسی ولن کے قبضے میں ہوتا ہے اور اپنی جان بچانے کے لئے اس کے اشارے پر چلتا ہے۔امریکہ ہمارے ملک میں ڈراون حملے بھی کرتا ہے ،ہمارے ملک میں آکر سرعام شہریوں کو گولیا بھی مار جاتا ہے،اس ملک کے ساتھ وہ ایسا سلوک کرتا ہے جیسا کسی لونڈی کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر بے شرمی غلامی،اور بزدلی کی انتہا دیکھو کہ ہمارے حکمران اور میڈیا پھر بھی اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا ،عمران خان جیسا کوئی امریکہ کے خلاف بول بھی دے تو اس کو ملک کا غدار کہا جاتا ہے اور خود امریکہ میں جا کر اس سے اس کی معافی مانگی جاتی ہے۔وہ انڈیا جو آج سے بیس سال پہلے پاکستان سے بہت کمزور تھااور آج وہ دنیا کی سپر پاور کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے باتیں کرتا ہے کہ اسے جھکنے پر مجبور کرتا ہے کیوں ۔پاکستان کی غلامی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس کے حکمرانوں کے سارے اثاثے اور بچے امریکہ میں یا اس کے دوست ملکوں میں ہیں ان کو پتہ ہے کہ اگر ہم نے اس کی چاپلوسی نہ کی تو ہمیں اس سے ہاتھ دھونا پڑے گے،اور دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ جو قرضہ عوام اور ملک کی ترقی کے نام پر دیتا ہے وہ ان حکمرانوں کے اپنے اکاونٹ میں جاتے ہیں،ان کا کشکول بھرتا نہیںبھکاری کبھی کسی کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتا،ہمارے حکمرانوں کے اندر غلامی کے ایسے جراثیم ہیں جو ان کوورثے میں ملے ہیں ان کا ختم ہونا مشکل ہے کیوں کہ غلام غلام ہوتا ہے سر پر تاج پہنے سے بادشاہت نہیں مل جاتی،ہمارے حکمرانوں کو انڈیا سے ہی غیرت کا سبق سیکھنا چاہیے۔ جب تک ہم اس لعنت سے چھٹکارہ نہیں حاصل کر لیتے ،جب تک ہم اپنے ملک و قوم کے لئے مخلص نہیں ہو جاتے ،جب تک ہم اپنی تجوریاں بھرنا چھوڑ نہیں دیتے ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے ،ہم ازاد نہیں ہوسکتے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 74996 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.