پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سابق
سربراہ چیف جسٹس (ر)افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدلیہ کی تاریخ
کا ایک سنہری باب اختتام پذیر ہو گیا ۔ فوجی صدر پرویز مشرف کے سامنے سینہ
سپر ہو کر انہوں نے مقبولیت کے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ وکلا برادری کی
مقبول اور طاقتور ترین شخصیت کی حیثیت سے انہوں نے اپنے فیصلوں سے عوام میں
بے پناہ پذیرائی حاصل کی۔ ان کے پیشہ ورانہ اور بہادر فیصلوں سے جہاں عام
آدمی کی داد رسی ہوتی محسوس ہوئی وہاں اس تمام عرصے میں حکمرانوں کی نیندیں
حرام رہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ افتخار محمد چوہدری اپنے فیصلوں کی صورت میں
حکمرانی کرتے رہے اور حکمران بھی بلا تخصیص حیلے بہانے بنانے میں مصروف
دکھائی دیئے ۔ افتخار چوہدری نے حکمرانوں اور بیورو کریسی کوقانون کے اندر
رہنے پر کافی حد تک مجبور کیے رکھا۔ انہوں نے بد عنوان سیاست دانوں اور
بیورو کریٹس سے باز پرس کی اور عدالتی فیصلوں کی نافرمانی کرنے کے جرم میں
ایک وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھجوا دیا نیز دوسرے وزیر اعظم کو
رینٹل پاور کیس میں ابھی تک عدالتی کارروائی کا سامنا ہے ۔موجودہ وزیر میاں
محمد نواز شریف کی موجودہ پوزیشن بھی کسی حد تک افتخار محمد چوہدری کی
مرہون منت ہے کیونکہ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہی میاں نواز شریف کو ڈوگر
کورٹ سے نااہل قراردینے کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر ان کے لئے اقتدار تک
پہنچنے کی راہ ہموار کی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو نظر بند کرنے
والے جنرل پرویز مشرف کو آج آئین کی آرٹیکل 6-کے تحت غداری کے مقدمے کا
سامنا ہے ۔ن لیگ حکومت مشرف کو کسی بھی صورت معافی دینے پر تیار نظر نہیں ا
ٓرہی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلا تخصیص تمام حکمرانوں کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر تاریخی فیصلے دئیے ۔این آراو کو کالعدم قرار دے کر سابق صدر
آصف علی زرداری کے خلاف نیب کیسز بھی انہوں نے ہی بحال کروائے ۔انہوں نے
جعلی ڈگری اور دوہری شہریت کے حامل ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا وہ
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے امید کی کرن بن کر ابھرے ا ورعدالت عظمیٰ کی
سربراہ کی حیثیت سے اپنی ملازمت کے آخری دن تک لاپتہ افراد کی بازیابی کے
لئے کوشاں دکھائی دیئے ۔امریکی نیشنل لا جرنل نے انہیں ان کی لازوال خدمت
کے عوض لائیر آف دا ایئر 2007 کے ایوارڈ دیا تھا۔10 مئی 2008 کو دی نوا
ساؤتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری انہیں دی اور
17نومبر2008 ء کو دی ایسوسی ایشن آف دی سٹی بار آف نیویارک نے شاندار خدمات
پر ایسوسی ایشن کی اعزازی ممبر شپ سے نوازا۔10نومبر 2008 ء کو ہارورڈ لا ء
اسکول نے میڈل آف فریڈم 28مئی 2012ء کو برطانوی سپریم کورٹ کے صدر لارڈ
فلپس نے انٹرنیشنل جسٹس ایوارڈ 2012 ء پیش کیا اور بھارتی تنظیم پیٹا کی
طرف سے انہیں ہیرو ٹو اینیمل ایوارڈ دیا گیا ۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے میڈل آف فریڈم کا اعزاز پایا ۔ افتخار محمد
چوہدری سے قبل یہ ایوارڈ نیلسن مینڈیلا اور چارلس یملٹن ہاسٹن کو دیا گیا
ہے۔ الوداع کے موقع چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اعزاز میں فل کورٹ
ریفرنس ہوا جس میں انہیں زبردست الفاظ میں خراج تحسین میں پیش کیا گیا ،
ملک میں اب جسٹس تصدق حسین جیلانی نئے چیف جسٹس کے منصب پر فرائض سرانجام
دے رہے ہیں جسٹس جیلانی کا اپنا بڑامقام و مرتبہ ہے لیکن پاکستان میں جو
مقام جسٹس افتخار چوہدری کے حصہ میں آیا وہ اب شاید ہی کسی اور اعلیٰ جج کو
مل سکے ۔
سب کچھ نیا نیا ہے، اب کچھ نئی شروعات بھی ہو جائیں تو کیا ہی اچھا ہو، نئے
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی تقریب حلف برداری میں صدر مملکت، وزیراعظم
اور دیگر تمام وزراپہلے کے منظر سے مختلف تھے۔ سب کچھ بدلا ہوا نظر آ رہا
تھا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ مملکت کے تمام اہم اداروں کی کمان بدل گئی ہے،
کوئی ایک چہرہ بھی پرانا نہیں، عدلیہ، پارلیمنٹ، فوج اور حکومت سب میں
شخصیات کی حد تک تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ سب کچھ
آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اور پرامن طور پر ہوا ہے، کسی نے کوئی ضد کی
نہ سازش ہوئی۔ ایک بہت اچھا ماحول قومی منظر کو منور کر رہا ہے۔ کیا یہ ایک
بہت بڑا موقع نہیں، جس سے فائدہ اٹھا کر ہم بہت سے وہ کام بھی کر گزریں،جو
ہمیشہ مصلحت اور مجبوریوں کی نذر ہوتے رہے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی تبدیلی پاکستان میں ایک اہم واقعہ تسلیم کیا
جاتا ہے کیونکہ گزشتہ آٹھ سال سے ایک چیف جسٹس اپنی پالیسیوں کے مطابق
سپریم کورٹ کو چلا رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے سپریم کورٹ کو اہمیت اور
کردار کے حوالے سے اہم اقدامات کیے۔ افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ کے
بعد چیف جسٹس کی حیثیت سے تصدق حسین جیلانی کی آمدسے کچھ نئے اثرات تو مرتب
ہونے ہیں لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ تصدق حسین جیلانی چیف جسٹس نئے
ہیں، تاہم وہ عدلیہ یا سپریم کورٹ کے لئے نئے نہیں ہیں۔ وہ یقینا ان مسائل
اور تقاضوں کوبخوبی جانتے ہیں جو گاشتہ سے پیوستہ چلے آ رہے ہیں۔ آج اگر
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ناکامیوں یا کمیوں کا ذکر کیا جاتا ہے
تو ان میں ضلعی سطح پر قائم عدالتی نظام میں واضح مثبت تبدیلیاں نہ لائے
جانے کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ ضلع کچہریاں آج بھی کرپشن اور ناانصافی کی
آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ آج بھی عوام کو ان عدالتوں سے فوری انصاف نہیں ملتا
اور عام سے کیسوں کا فیصلہ بھی برسوں بعد ہوتا ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین
جیلانی اگر اپنی آئینی مدت کے دوران اِس ضمن میں کوئی بڑی تبدیلی کو عملی
شکل دینے میں کامیاب رہتے ہیں تو یہ انکی بڑی کامیابی تصور کی جا سکتی
ہے۔اس کے علاوہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں جو بڑے کیسز میڈیا
میں خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں ان پر مزید کام کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک
ان سابقہ کیسز کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جائے گا تب تک عدلیہ کے کردار
پر سوالات اٹھانے والے بھی کاموش نہیں رہیں گے ۔آج جدیدیت کا دور ہے کوئی
بھی کیس زیادہ وقت تک دب کر نہیں رہ پاتا ۔میڈیا کی حدود غیر متعین ہیں اب
اس سے بچ کر رہنا ہر ایک کیلئے ممکن نہیں رہا لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب
اچھا چل رہا ہے یہاں اس ملک میں اب بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو اپنے تمام
غیر قانونی دھندوں کو انتہائی سلیقے سے قانونی کر کے چل رہے ہیں ۔افتخار
چوہدری نے عدلیہ کو جس پٹڑی پر دال دیا ہے نئے چیف جستس اور ان کی پوری ٹیم
کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کو منزل تک پہنچانے کیلئے اپنا اپنا رول ادا
کریں ۔ |