ہم کون ہیں؟

آج کل بچوں کو سکول سے چھٹیا ں ہیں اس لئے ناشتے کی میز پر اُن سے ملاقات ہوجاتی ہے۔آپ جانتے ہیں کہ بچوں کو کھانے پینے سے کم اور کھیلنے سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔میں اپنے بیٹے سے روزانہ پوچھتا ہوں کہ آج اُسے کس بک یا نوٹ پر سٹاریا گُڈ ملا ہے۔میرے نزدیک یہ بہترین طریقہ ہے بچوں کے ساتھ اُن کی تعلیمی سرگرمیاں شیئر کرنے کا۔22دسمبر کی صبح ناشتے کی میز پر میراامتحان ہوگیا۔ہاتھ میں کتاب لئے شاہ زیب ناشتے کے میز پر پہنچا اور آتے ہی سوال کیا بابا ہم کون ہیں ؟میں نے اُس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا انسان۔وہ بولا بابا آپ تو کہتے ہوکہ آپ اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن لیا کرتے تھے لیکن آپ کو تو اتنا بھی نہیں پتا کہ ہم مسلمان ہیں ،انسان تو ہندؤ،سکھ اور دوسرے لوگ بھی ہوتے ہیں ،بابا ٹیچر نے ہمیں بتایا تھا کہ ہماری اصل پہچان ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔مجھے اپنے جواب پر شرمندگی تو ہوئی لیکن اس بات کی خوشی بھی ہوئی کہ میرا بچہ اچھے اساتذہ کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کررہا ہے ۔اتنی دیر میں اخبار بھی آگیا ۔میں اکثر شاہ زیب کو اخبار پڑھنے کا کہتا ہوں اُس دن بھی میں نے اُسے اخبار پڑھنے کا کہا ۔میری طرح وہ بھی سب سے پہلے ادارتی صفحہ نکال بیٹھا اور ٹوٹی پھوٹی اُردو پڑھ کرسنانے لگا۔میری نظر نجم سیٹھی کے کالم کے عنوان میں الجھ گئی ۔جس میں لکھا تھا ’’قومی شناخت بمقابلہ مذہبی شناخت‘‘میں نے شاہ زیب کو کھیلنے کا کہا اور اخبار پکڑ کر کالم پڑھنے لگا جسے پڑھنے کے بعد میری الجھن مزید بڑھ گئی کیونکہ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ مجھے مسلمان یا پاکستانیت میں سے ایک شناخت کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔نجم سیٹھی نے اپنے کالم میں اسلامی شناخت کے بہت سے نقصانات سے آگاہ کیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کسی زبان ،رنگ ونسل یا علاقے کا غلام نہیں ۔اسلام سرحدوں کی قید سے آزاد اور خودمختار دین ہے ۔اسلام کا نور عرب کے صحراؤں سے نمودار ہوا اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا ۔اسلام زمین کے ٹکڑوں ،ریاستوں یا قبیلوں پر نہیں انسانی دلوں پر حکومت کرتا ہے ۔مسلمان کا بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو اُسے سب سے پہلے کسی ملک کا نام نہیں بلکہ اﷲ کہنا سیکھایا جاتا ہے۔اسلام کے پیروکار یعنی مسلمان کی پہلی شناخت مسلمان ہونا ہے اُس کے بعد ریاستی پہچان کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔اگر برصغیرکے مسلمانوں کو اپنی شناخت عزیز نہ ہوتی تو انگریز اور ہندؤ تسلط سے آزادی کیونکر حاصل کرتے ؟اگر مسلمان کی شناخت ریاست ہوتی تو پھر ہندؤستان بھی ریاست تھی کیا ضرورت پیش آئی جو مسلمانوں نے آزاد ریاست کا مطالبہ کیا ؟قیام پاکستان کا مقصد ہی مسلمانوں کی الگ شناخت کروانا تھا ۔پاکستان حاصل کیا مسلمانوں نے نہ کہ پاکستان نے مسلمان پیداکئے ۔پاکستان میری پہچان ہے لیکن مسلمان ہونے کے بعد ۔مجھے اپنے وطن سے بہت محبت ہے لیکن اﷲ تعالیٰ ،رسول اﷲؐ اوردین اسلام کے بعد۔قیام پاکستان کی قیادت نے میرے جیسے عام مسلمانوں کو یہی بتایا تھا کہ ہمیں ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی ضرورت ہے جہاں اسلامی قوانین رائج ہوں گے اور مسلمانوں سمیت تمام انسانوں کواپنی زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی ۔یہاں بسنے والے دوسرے مذاہب کے ماننے والے اپنے عقیدے کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے ۔ہمیں نصابی کتب کے اندر نظریہ پاکستان کے متعلق جو سمجھایا گیا اُس کے مطابق پاکستان کے حصول کا مقصد دراصل اس خطہ میں ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ کرنا ہے جو اسلام کی تعلیمات پر مبنی ہو۔غلامی پسندہندؤ و انگریز وں کے تسلط میں مسلمانوں کیلئے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو ایسی آزاد اور خودمختار ریاست کی ضرورت تھی جہاں حاکمیت اعلیٰ صرف اﷲ تعالیٰ کی تسلیم کی جائے ۔حکومت،معیشت اور معاشرت میں صرف اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا نظام(اسلام)نافذ ہو۔آزادی کاہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ زمین کاٹکڑا قید تھا بلکہ وہاں بسنے والے مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسرکرنے میں مشکل محسوس کررہے تھے ۔فرمان قائد ہے ’’ہم نے پاکستان کامطالبہ ایک زمین کاٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیاتھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے حقیقی اُصولوں کو آزما سکیں‘‘یعنی ہمیں پاکستان میں اسلامی قوانین کے مطابق عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کرکے اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے جائزحقوق کے تحفظ کے ذریعے ایک پرامن اسلامی معاشرہ قائم کرکے انسانیت کی خدمت کرنا تھا ناکہ صرف زمینی سرحدوں کی تقسیم کرنا۔مسلمان دنیا کے کسی خطے کا رہنے والا ہو،کسی زبان رنگ و نسل کے ساتھ تعلق رکھنے والاہوسب آپس میں بھائی، بھائی ہیں ۔انسان فطری طور پر آزاد ہے اور اسلام انسانی حقوق کا حقیقی ترجمان اور محافظ ہے۔ہمارا تعلیمی نصاب ہم سے سوال کرتا ہے ہم کون ہیں ،جس کا جواب ہے مسلمان ۔اگر پاکستانی ہونا ہماری اول شناخت ہے تو نصاب میں کیوں مسلمان بتایا جاتا ہے ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بالکل ٹھیک کہا کہ ہم پہلے مسلمان ہیں بعد میں پاکستانی ۔اُن کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بناکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ ہماری اول شناخت مسلمان ہے اس لئے پاکستان دولخت ہوا اور مزید انتشار بھی اسی وجہ سے ہے انتہائی گمراہ ذہن کی ترجمانی ہے ۔جناب نجم سیٹھی نے اپنے کالم میں لکھا کہ دنیا کی اکثرقومیں اپنی ریاستی شناخت کو ترجیح دیتیں ہیں ۔میں اُن کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان ہیں یہی ہماری پہلی اور آخری شناخت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ ہمیں اپنے وطن سے محبت نہیں ،درحقیقت پاکستان کے ساتھ مسلمانوں کی محبت کی ایک بڑی وجہ بھی اسلام سے نسبت ہے۔نجم سیٹھی نے لکھا کہ بہت سے پاکستانی چوہدری نثارکے بیان سے اتفاق کرتے ہیں ۔تھوڑا اضافہ میں کئے دیتا ہوں کہ بہت سے پاکستانی نہیں تمام پاکستانی مسلمان وزیرداخلہ چوہدری نثارکے اس بیان سے متفق ہیں۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ،ریاستیں فتح ہوتی رہتیں ہیں لیکن مسلمان ہمیشہ مسلمان ہی رہتا ہے ۔مسلمان سرحدوں کے قیدی ہیں اور نہ ریاستوں اور زمینوں کے لالچی ۔دنیاوی لالچ و حرص کی وجہ سے ہم اپنی اصل شناخت کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کی سزائے موت موضوع بنا کر کوئی ہمیں یہ درس دینے کی کوشش نہ کرے کہ ہم پہلے پاکستانی ہیں بعد میں مسلمان۔اگردوسرے خطوں میں بسنے والے مسلمان اپنے آپکوبھارتی مسلمان ،سعودیہ عربی مسلمان،فلسطینی مسلمان ،عراقی مسلمان یاامریکی مسلمان کہتے ہیں اس میں بات کو اس قدر طول دینے کی ضرورت نہیں ہم بھی اپنے آپکو پاکستانی مسلمان ہی کہتے ہیں ۔نجم سیٹھی نے نجانے کیوں وزیر داخلہ کے بیان کو اس قدر الجھا کر پیش کیا کہ لگا جیسے اب ہمیں پاکستانیت یا مسلمان میں سے ایک شناخت کا انتخاب کرنا پڑے گا ۔ارشاد ربانی کے مطابق تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔دنیا کے کسی خطے میں بھی مسلمان کو تکلیف پہنچے گی تو ہم تڑپیں گے اور ہر ممکن مدد کیلئے پہنچیں گے ۔یہ رشتہ کسی انسان کا قائم کردہ نہیں بلکہ خود خالق کائنات نے مسلمانوں کے دل آپس میں جوڑ دئیے ہیں ۔جناب نجم سیٹھی لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ریاست کے سیاسی رہنماؤں نے سیاسی مقاصد کے لئے اسلامی شناخت کا سہارا استعمال کیا ،انہوں نے ذاتی مقاصد کی بجاآوری کے لیے سیکولرجمہوری اقدار کے بجائے ،اسلامی نظریئے کی آبیاری کی اور اُس کو اس طرح پروان چڑھایا کہ پاکستانیت نظروں سے اُوجھل ہوتی گئی ۔چنانچہ قوم کو باور کرایا گیا کہ ہندؤ انڈیا پاکستان کا دشمن ہے اور وہ اسے تباہ کرنا چاہتا ہے،مذہب کی بنیاد پرجنم لینے والی اس قوم پرفرقہ واریت اور علاقائی بنیادوں پرتقسیم کے دروازے کھلتے چلے گئے چنانچہ آج یہ قوم داخلی انتشار کا شکار ہے ‘‘جہاں تک بات ہے سیاسی رہنماؤں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے اسلامی شناخت کا سہارا لیا تھا یا لیتے ہیں تو اس بات میں کافی حد تک صداقت موجود ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ان سیاست دانوں نے اپنے ذاتی مقاصد کیلئے اسلامی شناخت کا سہارا استعمال کیا اور اسلامی نظریئے کی آبیاری بھی کی ،کم از کم راقم تو اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتا ۔دوسری بات اسلامی نظریئے کی آبیاری کی وجہ سے پاکستانیت نظروں سے اُوجھل ہو گئی یا ہورہی ہے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ میں پاکستانیت کو اسلامی نظریئے کی ایک جھلک سمجھتا ہوں ۔مسلمان پاکستانی،افغانی،ترک،عرب،عراقی،فلسطینی یا دیگر ممالکی ہوسکتا ہے لیکن اُس کی اصل پہچان مسلمان ہونا ہی ہے ۔اپنے وطن میں رہتے ہوئے ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم پاکستانی مسلمان ہیں صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن بیرون ملک بسنے والے پاکستانی جب اپنا تعارف کرواتے ہیں تو وہ بھی دیگر ممالک کے رہنے والے مسلمانوں کی طرح قومی شناخت کے بعد ہی مذہبی شناخت بتاتے ہیں ۔جیسا کہ ہم پاکستانی مسلمان ہیں ۔یہ بات واضع کرتا چلوں کے چوہدری نثار یا کسی دوسرے پاکستانی کے اپنے آ پکو پہلے مسلمان اور بعد میں پاکستانی کہنے کا ہزگزیہ مطلب نہیں کہ پاکستانی ہونے پر شرم محسوس کرتے ہیں بلکہ ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے کیونکہ پاکستان وہ ریاست ہے جو قائم ہی اس لئے ہوئی کہ وہاں مسلمان اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق آزادی کے ساتھ بسر کرسکیں ۔نجم سیٹھی کا کالم پڑھ کر مجھے تو یوں محسوس ہوا کہ کسی غیرمسلم اور غیرملکی تجزیہ نگار کا تبصرہ پڑھ رہاہوں ۔اُس نے اس خوبصورتی کے ساتھ اپنے خیالات کو پیش کیا کہ ایک موقع پر تو محسوس ہواکہ نظریہ پاکستان ہی جھوٹ تھا ۔طالب علم کی حیثیت سے جو راقم نے علم حاصل کیا اُس کے مطابق نظریہ پاکستان اور اسلام ہم معنی ہیں نظریہ پاکستان تعلیمات اسلام کی عملی صورت کانام ہے ۔یہ درست ہے کہ ابھی تک پاکستان میں مکمل طور پر اسلامی قوانین رائج نہیں ہوسکے لیکن فرمان قائد کے مطابق پاکستا ن اسلامی اصولوں کی عظیم تجربہ گاہ بن چکا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ایک دن پاکستان میں مکمل اسلامی نظام رائج ہوگا اور پوری دنیا کے مسلمان ریاست پاکستان پر فخر کریں گے ۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 515884 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.