کراچی میں دہشت گردی کے طاعون
اور وبا نے یوسف زیوں کے قبیلے چغرزئی کے ایک قابل ترین ، نڈر اور حق کی
ترجمانی میں بے باک نوجوان مفتی سراج صاحب کو بھی ہڑپ کرکے شہادت کا مقام
دلادیا-
مفتی صاحب خاندان میں ہمارے چچیرے بھائی تھے ، ان کی بیگم ہماری بھانجی
لگتی ہے ، عمر میں ہم سے کئی سال کمتر اور مرتبے میں ہم سے بہت برتر تھے،
جامعہ فاروقیہ کراچی میں ہم نے ان کو اپنے ساتھ ایڈمیشن کرایا ، ہمارے دورہ
کے سال وہ اب صرف ثانیہ تک ہی پہنچے تھے لیکن محنتی، ذہین اور نظریاتی ہونے
کی وجہ سے گاہے گاہے ہمیں بھی ناز ناز میں بہت کچھ سناجاتے ، ہمیں ان سے
اور ان کو ہم سے پیار کا اندازہ اس سے لگائیے ، کہ جمعرات جمعرات شہادت تک
میرے پاس ہی تشریف لاتے ، احکام سناتے، مزاج میں جابرانہ رنگ تھا، لیکن خشک
مزاج نہیں تھے، مناظرے بھی بہت کرتے تھے ، اور بغیر تھکے گھنٹوں دلائل کے
انبار دیتے، میں اکثر وبیشتر مناظرے والوں کو ان کے سامنے کردیتا اور وہ ان
سے بحث کرکے چاروں خانے چت کردیتے۔
اسفار میں بھی ہم ساتھ رہیں، لیکن وہ سفر وحضر سب ہی میں بے تکلف رہتے ،
خادمانہ انداز میں پیش آتے ، گالم گلوچ اور بدتمیزی کے سخت مخالف تھے، برے
القاب اور طعن و تشیع والوں کو سخت ناپسند کرتے ، جمعیت علماء اسلام سے
محبت ان کے رگ وپے میں پیوست تھی،
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن سے اعتقاد کی حد تک محبت کرتے، ان کی ہر بات
اور فکر و نظر کا دفاع کرتے، پچھلے دنوں ملیر کینٹ کے باہر نامعلوم حملہ
آوروں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا، کچھ دن ہسپتال میں زیر علاج رہے ، لیکن
زخم خطرناک تھے ، جان بر نہ ہوسکے ، ذی الحجہ کے اواخر میں جان جاں آفریں
کی سپرد کرکے ہم سے رخصت ہوئے ، انا ﷲ و انا الیہ راجعون، فوج نے میت کو
سلامی دی اور قاری ابراہیم شریف خان کی قیادت میں ان کی تابوت کے قافلے کا
شانگلہ پہنچنے پر بھی فوجی دستہ پرتباک استقبال کیلئے موجود تھا، عسکری
اعزاز کے ساتھ ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں سپرد خاک کیا گیا، اﷲ
تعالی ان کی شہادت اور طلب علم و خدمت علم کو قبول فرمائے ، جنت الفردوس
میں انہیں اعلی مقام عطافرمائے اور ہم سب پس ماندہ گان کو اﷲ تعالی صبر
جمیل نصیب فرمائے
قفا نبک من ذکری حبیب ومنزلی بسقط اللوی بین الدخلول فحومل
اﷲم لا تفتنّا بعدہ ولا تحرمنا أجرہ
وصلی اﷲ علی النبی العربی وآلہ وصحبہ وسلم |