بغل میں چھری منہ میں رام رام

اس وقت رات کے تین بج کر تیس منٹ ہو چکے ہیں ۔ میں لیپ ٹاپ پر روزنامہ محاسب پڑھ رہا ہوں۔روزنامہ محاسب سب سے پہلے ویب سائٹ پر اپلوڈ ہو جانے والے اخبار ات میں سے ایک ہے ۔اکثر مجھے اس کے اپلوڈ ہونے کا انتظار بھی کرنا پڑھتا ہے۔یہ رات لگ بھگ بارہ بجے کے قریب ویب سائٹ پر دستیاب ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مظفرآباد کے اکشر اخبارات روزنامہ سیاست ، دومیل ، جموں کشمیر ٹائمز ،روزنامہ شمال، خبرنامہ ، صبح ِنو ،مشرق سمیت تمام ریاستی اور قومی اخبار بھی اپنی اپنی ویب سائٹ پر دستیاب ہوتے ہیں ۔ آج بھی رات کے بارہ بجے تک میں روزنامہ محاسب کے اپلوڈ ہونے کا ویٹ کرتارہا ازاں بعد میں اپنے روزمرہ کے کام میں مصروف ہو گیا ۔رات ساڑھے تین بجے کے قریب میں نے دوبارہ محاسب کی ویب سائٹ اوپن کی اور سال 2013کا آخری شمارہ پڑھناشروع کر دیا۔رات کے تیسر ے پہر میں اخبار پڑھتے وقت جب میر ی نظر مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے علمائے کرام کی طرف سے ریلیز کی گئی سٹیٹمینٹ پر پڑھی۔ ہو بہو اسی طرح کی ایک سٹیٹمنٹ چند روز پہلے ایک دوسری مذہبی جماعت کے پلیٹ فارم سے تمام ریاستی اخبارات میں شائع ہوئی تھی ۔ نیم سیاسی و مذہبی جماعت کی طرف سے ریلیز ہونے والی سٹیٹمینٹ کچھ اسطرح سے تھی ۔ماہِ ربیع الاول کو امن ومحبت کے طور پر منایا جائے ۔ماہِ ربیع الاول سرورِ کونین کا میلاد ﷺبھی ہے اور یومِ وصال بھی۔اسلام جشن اور ماتم کا نہیں بلکہ صبر کا پیغام دیتا ہے ۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں یہ لوگ کون ہیں اور کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لیکن ایک انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے مجھے اس سٹیٹمینٹ سے فرقہ پرستی جیسی لعنت کی بو آرہی تھی ۔ اس بیان کو پڑھنے کے بعد میں کافی بے چین ہو گیا اور میرا ذہن فورا دس محرم کو راولپنڈی میں ہونے والے اس بھیانک واقعے کی طرف گیا جس میں بے پناہ جانی و مالی نقصان کے علاوہ عالمی سطح پراسلا م اور پاکستان کے تشخص کو شدید دھچکا لگا۔راجہ بازارراولپنڈی واقع کے تانے بانے بھی لاؤڈ سپکیر سے کی جانے والی فرقہ وارانہ تقریر سے ملتے ہیں ۔ ایک ایسے حالات میں جب پورے پاکستان میں دہشت گردی ، فرقہ واریت، انتہا پسندی عروج پر ہو ایسے بیانات دینا مذہبی آئینگی کوسبوتاژکرنے کی بھیانک سازش لگتی ہے۔میں ان علمائے کرام کے سامنے ایک طالبِ علم کی حثیت سے چند سوالات پوچھنے کی جسارت کرنا چاہوں گا۔ کیا مذکورہ بیانات مذہبی آئینگی کے سراسر خلاف نہیں۔۔۔؟ کیا ان بیانا ت سے نوّے فیصد عوام الناس جو میلادمصطفیﷺ کے جشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور وہ حضرات جو دس محرم الحرام کو ماتم کرتے ہیں انکے جذبات مجروع نہیں ہوئے۔۔۔ ؟کیا یہ بیانات امن و رواداری کے منافی نہیں۔۔۔؟ کیا ایسے بیانات سے مظفرآباد جیسے پر امن شہر کو فرقہ پرستی کی دلدل میں دھکیلا نہیں جا رہا ۔۔۔؟ کیا امن اورصبر کا یہی مطلب ہے آپ کسی دوسرے کے مذہب، مسلک، عقیدے پر بے جا تنقید شروع کردیں۔۔ ۔؟ ان سوالات کے جوابا ت ان علمائے کرام کے پاس نہیں ہوں گے۔ یقینا اس میں کوئی دورائے نہیں کے اسلام امن و آشتی کا دین ہے بلکہ اسلام تو نام ہی امن وسلامتی کاہے۔ اسلام تو غیر مسلم کے عقائد و نظریات ، جان ومال ، عزت و آبروانکی عبادت گاہوں اور مذہبی تہواروں کے احترام کا درس دیتا ہے ۔ چہ جائیکہ ہم ایک اﷲ ، ایک رسولﷺ ، ایک قرآن کے ماننے والے آپس میں باہم دست گریباں ہوجائیں۔ میلادِ مصطفیﷺ کا جشن ایک مستحب عمل ہے ۔ کوئی جشن کرے یا ماتم کرے ۔یہ اسکے عقائد و نظریات پر منحصر ہے۔

اس ملک کا آئین و قانون تمام مکاتبِ فکر کو مذہبی آزادی دیتا ہے ۔ لیکن کسی دوسرے کے مذہب اور مسلک پر انگلی اٹھانے کی نہ تو اسلام میں کوئی گنجائش موجود ہے اور نہ ملک کا آئین و قانون اسکی اجازت دیتا ہے ۔ اس حوالے سے میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہو تا ہے آزاد کشمیر مظفرآباد کے تمام اخبارات نے ہر دور میں قیامِ امن، مذہبی رواداری کے فروغ اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔میری صحافتی اداروں ، زرائع ابلاغ کے جملہ ذمہ دران سے گزارش ہے ایسے بیانات جن سے کسی بھی سیکٹ کے لوگوں کی دلآزاری ہو شائع کرنے سے اجتناب کیا جائے ۔ تاکہ فرقہ واریت جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ میلاد النبیﷺ امتِ مسلمہ کا اجتماعی تہوار ہے۔ تمام مسلمانوں کے آقا وموالا حضر تِ محمدِ مصطفیﷺ کی ولادت کامہینہ ہے لیکن منانے کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ کوئی سیرت کانفرنسسز اوردرود سلام کی محافل کا انعقاد کرتا ہے تو کوئی چراغاں کر کے نبیِ رحمتﷺ سے اپنے عشق اور محبت کا اظہار کرتا ہے ۔ خدارا اس پر امن مذہبی تہوار کو بدنام نہ کیجیئے۔ میری تمام مکاتبِ فکر کے علماء ، سیاسی ، سماجی ،مذہبی رہنماؤں اور بلخصوص آزاد کشمیر ومظفرآباد کے الیکڑانک و پرنٹ میڈیا کے مالکان و ذمہ داران ، صحافی برادری، وکلاء، سول سوسائٹی ، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں ، وزارتِ اطلاعات و دیگر مقتتدر حلقوں سے درد مندانہ اپیل ہے خدا راہ ا یسے شر پسند عناصر جو اس پرامن خطے کے امن کو تہس نہس کرنے کی گھٹیا سازش کر رہے ہیں ان پر کڑی نظر رکھیں تاکہ اس خطے کے امن سکون کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے ۔چند سال پہلے مظفرآباد میں ہونے والے بم دھماکے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں انسانی جانوں کاضیاع ہوا۔ ایسی صورت حال میں ہم مزیدکسی بھی فرقہ وارنہ لڑائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اﷲ رب العزت امتِ مسلمہ کو آپس میں اتحاد یگانگت کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ امین
Hasnain Ali
About the Author: Hasnain Ali Read More Articles by Hasnain Ali: 9 Articles with 8740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.