السلام علیکم قارئین کرام
آج پھر وہی مزدور مجھے ڈیوٹی ختم ہونے کے باوجود فیکٹری میں نظر آیا تو
مجھے تشویش لاحق ہوگئی- کیونکہ کوئی بھی مزدور شفٹ ختم ہونے کے بعد چند
لمحے بھی فالتو فیکٹری میں گزارنا پسند نہیں کرتا- میں نے سپروائزر کو بلا
کر اس مزدور کی بابت معلوم کیا - یہ مزدور کئی دن سے مجھے دوسری شفٹ کے
اوقات میں نظر آرہا ہے آخر وجہ کیا ہے-
سپروائزر نے جوابًا کہا صاحب یہ مزدور اوور ٹائم کر رہا ہے یہ کئی دن سے
اٹھارہ ( 18 ) گھنٹے متواتر کام کر رہا ہے - ( 18 ) گھنٹے کس کی اجازت سے
کام کر رہا ہے اور کوئی اتنا وقت لگاتار کام کر بھی کیسے سکتا ہے کام کے
دوران سو جاتا ہوگا ؟ میں نے سپروائزر سے سوال کیا-
نہیں جناب میں نے رات کی شفٹ میں اسے کبھی سوتے ہوئے نہیں دیکھا اور دن میں
تو سوال ہی نہیں پیدا نہیں ہوتا کہ آپ سارا دن خود موجود ہوتے ہیں اور کئی
مرتبہ یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں ہم نے تو یہ سوچ کر کہ شاہ صاحب کو ضرورت
ہوگی ورنہ کون اتنا وقت اپنے گھر سے دور رہنا پسند کرے گا -
اسکا جواب معقول تھا اور لفظ شاہ صاحب سن کر رہی سہی میرے لہجے کی سختی بھی
ختم ہو گئی میں نے سپروائزر سے پوچھا شاہ صاحب مطلب یہ نوجوان سید زادہ ہے
جی صاحب - اچھا آپ ایسا کریں میرے آفِس میں تھوڑی دیر بعد آجائیں
سپروائزر اچھا صاحب - کہہ کر دوبارہ مشینوں کی طرف چل دیا
میں اپنے آفس میں آکر کرسی پر جب بیٹھا تو ما ضی کے کچھ ورق میرے سامنے
کُھلتے ہی چلے گئے
مجھے اپنے بچپن کا اک واقعہ یاد آگیا ہمارے گھر پہ اگر کوئی مشکل گھڑی
آجاتی تو اماں حکم دیتیں اقبال حافظ صاحب کو لے کر آؤ- کہنا اماں دعا
کروانا چاہتی ہیں اور سُنو بہت احترام سے لانا اُن دِنوں ہمارے خاندان
والوں کو- پِیر - فقیر - اولیاءَ اللہ - سے خدا واسطے کا بیر تھا کسی بزرگ
ہستی کا نام لینا بھی جُرم سمجھا جاتا تھا پر ایک اماں تھی جو بظاہر تو
خاموش رہتیں لیکن اولیاء سے نہائت عقیدت رکھتیں اور نہایت خاموشی سے بزرگوں
کی فاتحہ کا اہتمام کرتیں اور فاتحہ صرف جب تک حافظ صاحب حیات رہے اُن ہی
سے لگواتیں ابا اِن معاملات میں خاندان والوں کی طرح سخت نہ تھے اِس لئے
خاموش رہتے
حافظ صاحب کی عمر ٩٠ برس کے قریب رہی ہوگی جب وہ ہمارے گھر آتے میں بڑے غور
سے اُن کی شخصیت کا مطالعہ کرتا نوے برس کی عمر کے باوجود نہ کمر جُھکی تھی
نہ ہی چہرے پہ جھریاں تھیں اور چہرہ اِتنا پرنور گویا چہرے کا احاطہ کئی
مرکری بلبوں نے کیا ہُوا ہو نظریں ہمیشہ جُھکا کر ہی چلتے دیکھا اور چہرے
پہ ایسا رُعب اور کشش کے نظر ہٹانا چاہو تو ہٹا نہ پاؤ اُن کے جانے کے بعد
میں اماں سے پوچھا کرتا اماں حافظ صاحب کے چہرے پہ اِتنی روشنی کیوں ہوتی
ہے اماں کہتیں بیٹا یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنکی آل اُنکے
اصحاب اور بزرگوں سے محبت کا صدقہ ہے-
میں فوراً سُوال کرتا اماں یہ اصحاب اور آل کون ہیں اماں کہتیں بیٹا اصحاب
تو صحابہ رضوانُ اللہِ اجمعین کو کہتے ہیں اور آل - نبی پاک صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی اولاد کو کہتے ہیں-
اور اپنے حافظ صاحب سید زادوں یعنی آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہت
ادب کرتے ہیں جس کی وجہ سے انِ کا چہرہ مُنور رہتا ہے تم بھی ہمیشہ سادات
کا احترام کرنا خود کو اُنکا غلام سمجھنا اللہ پاک تمہارا بھی اقبال بلند
کردے گا - میں کہتا اماں اِس کا مطلب ہے میں ڈبل اقبال ہو جاؤں گا -
اماں شفقت سے سر پہ چپت مارتیں اور مُسکُرا کہ کہتیں کتنی باتیں کرتے ہو
اتنی تو میرے سارے بچے بھی مِل کر نہیں کرتے اور جواباً میں بھی مُسکرا کہ
اماں کی گود میں سر رکھ دِیتا -
میں اپنے آفس میں بیٹھا ماضی کہ جھروکوں میں کھویا ہوا تھا کہ مجھے کتاب
میں پڑھا وہ واقعہ یاد آگیا جس میں ہندوستان کے مشہور شہر بریلی میں
سینکڑوں علما و مشائخ ایک زبردست عالم دین اور سچے عاشقِ رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے وہ عالمِ دین مشہور زمانہ عاشقِ رسول
( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام احمد رضا علیہ الرحمتہ تھے جب آپ علیہ
الرحمتہ اپنے کاشانہ اقدس سے پالکی میں سوار ہوئے سینکڑوں علما پالکی کے
پیچھے چل رہے تھے کہ اچانک پالکی اُتارنے کا حکم ارشاد ہوا تمام علما و
مشائخ حیران تھے کہ پالکی راستے میں کیوں روک دی گئی ہے اسی اثنا میں امام
احمد رضا علیہ الرحمتہ پالکی سے باہر تشریف لے آئے اور پالکی اُٹھانے والے
مزدوروں سے گویا ہوئے آپ میں سے سید زادہ کون ہے مزدور خاموش رہے اتنے میں
اُس سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشکبار آنکھوں سے روتے ہوئے
ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنے سوہنے آقا علیہ السلام کے معطر پسینے کی خوشبو
آرہی ہے خدارا بتا دیجئے کہ آپ میں سے سید کون ہے تب ایک مفلوک الحال
نوجوان آگے بڑھا اور کہنے لگا جناب میں سید ہوں مزدوری کے لئے نکلا تھا کہ
آپ کی پالکی اُٹھانے کا کام مِل گیا لیکن اِس میں آخر حرج ہی کیا ہے
امام احمد رضا علیہ الرحمتہ نے روتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔
میں کل قیامت میں اپنا چہرہ شفیع محشر( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی
بارگاہ میں کس طرح لے کر جاؤں گا اگر آقا علیہ السلام نے ارشاد فرما دیا کہ
اے احمد رضا بڑے عاشق بنتے تھے اور حال یہ تھا کہ میرے پھول جیسے لخت
جِگروں کے نازک کاندھوں پر سواری کرتے رہے-
تو کس طرح اپنے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دے پاؤں گا لہٰذا
اب آپ پالکی میں سوار ہوں اور میں پالکی اپنے کاندھوں پہ اُٹھاؤں گا اُس
سید زادے مزدور کے لاکھ انکار کے باوجود امام احمد رضا علیہ الرحمتہ نہ
مانے اور مجبوراً اِس شہزادے کو پالکی میں سوار ہونا پڑا۔
اور چشمِ فلک نے یہ عشق پرور منظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ شاہِ
بریلی و ہند جس کے ناز اُٹھانے کو کروڑوں عاشِقان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم مشتاق رہتے تھے اپنے نازک کاندھوں پہ ایک سید زادے کی پالکی
اُٹھائے جوش و مُسرت سے چلا جا رہا ہے علما و مشائخ عشق کا اک نیا باب پڑھ
رہے ہیں میں حالت استغراق میں ان مناظر کو چشمِ سر سے ملاحظہ کر رہا تھا
میری بھی آنکھیں نم تھی کہ سپروائزر کے سلام نے رابطہ منقطعہ کردیا اور میں
پھر اسی بے حِسی کے دُور میں لُوٹ آیا سلام کا جواب دیکر میں نے اُسے
بیٹھنے کے لئے کہا اور آنکھوں کو صاف کرنے واش رُوم میں گُھس گیا
جاری ہے انشاءَاللہ زندگی رہی تو کل پیش کروں گا
|