بقیہ - آخر ہم کہاں جارہے ہیں

محترم قارئین السلام علیکم
واش روم سے واپس آکر میں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ سپروائزر مجھ سے مخاطب ہوا صاحب آپ کچھ پریشان نظر آرہے ہیں اگر آپ کہیں تو میں شاہ صاحب سے کِہدؤں گا وہ آئندہ ( ١٨ ) گھنٹے کی شفٹ کے بجائے ( ١٢ ) گھنٹے کی شفٹ ہی کر لیا کریں گے-

نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں نے سپرؤائزر کو جواب دیا- میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آخر شاہ صاحب اِتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں-

جناب سیدھی سی بات ہے دو سال قبل جس مزدور کی تنخواہ چار ہزار روپے تھی آج دو سال بعد اُسکی تنخواہ چھ ہزار روپے ہے اِس طرح صاحب تنخواہ میں پچاس فیصد اضافہ ضرور ہوا ہے -

لیکن جناب مہنگائی میں تین سو فی صد اضافہ ہو گیا اب آپ ہی بتائیں کہ غریب مزدور یہ ڈھائی سو فیصد اضافی رقم کہاں سے لائے نتیجتاً مہینے کے ابتدائی پندرہ تاریخ تک تو رقم جیب میں ہوتی ہے لیکن اگلے ہی دن سے اُدھار کا لامَتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اِسی وجہ سے جناب اوور ٹائم بھی کرنا پڑتا ہے -
صاحب امیروں کے بچے تو جب چاہیں برگر٬ پیِزا٬ آئسکریم اور پیپسی خرید کر نوش کرلیتے ہیں لیکن جب ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے کوئی فرمائش کرتے ہیں اور جیب خالی ہونے کی وجہ سے جب اُنہیں منع کردیا جاتا ہے اُس وقت اُن بچوں کے چہرے پہ جو حسرت ہوتی ہے وہ تو شائد بیان ہی نہیں کی جا سکتی صاحب یہ صرف اکیلے شاہ صاحب کا مسئلہ نہیں ہے اِس ملک کے کروڑوں غریب روزانہ اپنی بے بسی - بے کسی کیساتھ روزانہ جیتے اور مرتے ہیں اور اِک نئی صبح کے انتظار میں امید لگائے جہدِ مُسلسل کئے جارہے کہ کبھی تو کوئی ایسا حکمران ضرور اِس مُلک کا انتظام سنبھالے گا جسے غریبوں کے درد کا حقیقی احساس ہو گا اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا-

لیکن احساس تو اُسی شخص کو ہو سکتا ہے نا جس نے غریبی کے دُکھ کو سہا ہو میں نے جواباً کہا - مگر غریب آدمی اِس ملک کا صدر اور وزیر اعظم کس طرح بن سکتا ہے صاحب اُس کے لئے تو اربوں روپیہ چاہیے اور غریب کے پاس تو لاکھ چھوڑیں ہزار بھی نہیں ہونگے اُس نے پھر ایک سوال داغ دیا-

اُس کی باتوں سے میری طبیعت مزید بوجھل ہوتی جارہی تھی دِل و دماغ پہ اِک دکھ کی کیفیت طاری تھی
میرے پاس اُسکے کسی سوال کا جواب نہیں تھا ہم تو یہاں اپنا رونا ہی روتے تھے کہ مہنگائی بڑھتی جارہی ہے- کاروبار میں مقابلہ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے منافع کم ہوتا جارہا ہے-

لیکن آج پتہ چلا کہ یہاں کروڑوں ایسے بھی ہیں جن کا چولہا شائد روز نہیں جل پاتا جہاں گوشت شائد مہینے میں ایک آدھ بار ہی پکتا ہو شائد-

کچھ لمحے بعد میں اصل مُوضوع کی طرف آگیا جناب سپروائزر صاحب اگرچہ میں نے آپکو زحمت شاہ صاحب کی وجہ سے دِی تھی لیکن آپکی باتوں سے میرے علم میں کافی اِضافہ ہوا ہے اِس اضافی معلومات کے لئے آپکا شکریہ -

آپ کی باتیں سُن کر میں اِس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ مجھے اپنے اسٹاف اور مزدوروں کی کچھ نہ کچھ خدمت ضرور کرنی چاہیے لیکن فی الوقت یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ سب کی خیر خواہی یکدم کرسکوں لہٰذا میں فی الحال شاہ صاحب کی کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں اب طریقہ آپ بتادیں کہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے سپروائزر نے سوچنے کی لئے کچھ وقت مانگا چُوں کہ رات بھی کافی ہو چُکی تھی میں نے کہا کہ کل رات بتا دیجیے گا اور خود بھی آفس بند کر کے گھر کے لئے روانہ ہوگیا-

دوسرے دن صبح کی شفٹ میں مجھے شاہ صاحب نظر نہیں آئے میرا گمان تھا کہ شائد کوئی ایمرجنسی ہو گی جس کی وجہ سے شاہ صاحب آج چھٹی کر گئے ہیں -

شام کی شفٹ جب شروع ہوئی تب میں نے سپر وائزر کو اپنے آفس میں بُلوایا-

سلام دعا کے بعد سپروائزر نے جو باتیں مجھے بتائیں اُس نے مجھے واقعی حیرت زدہ کردیا-

اُس نے مجھے بتایا کہ آپ کے جانے کے بعد میں نے شاہ صاحب سے بات کی تھی کہ صاحب آپکو کوئی بونس وغیرہ دینا چاہتے ہیں جس کے جواب میں شاہ جی نے پوچھا تھا کیا صرف مجھ اکیلے کو بونس دیا جارہا ہے جواباً سپروائزر نے کہہ دیا کہ دوسروں کو بھی ملے گا لیکن شاید ایک دو ماہ بعد -

تو مجھے اب کیوں مِل رہا ہے شاہ صاحب نے اگلا سوال داغ دیا-

یار شاید وہ تمہاری پریشانی کی وجہ سے پہلے تمہاری مدد کرنا چاہتے ہیں-

اچھا تو یہ بات ہے سُنو اپنے صاحب سے کہنا کہ ہم غریب ضرور ہیں لیکن کسی کے آگے سوال کرنا ہمیں پسند نہیں اور نہ ہی مجھے تمہارے صاحب کی مدد درکار ہے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا ہمیں خوب آتا ہے رزق کا ذمہ تو اللہ عزوجل کا ہے وہی سب کو اپنے محبوب کے صدقے دیتا ہے اور صبح شاہ جی اپنا حساب ٹھیکیدار سے بیباک کر کے چلے گئے-

قاریئن کرام اِس واقعہ کو اگرچہ کئی ماہ گزر گئے وہ سید زادہ پلٹ کے نہیں آیا سُنا ہے کہ وہ کسی دوسری فیکٹری میں کام کر رہا ہے- میں اکثر سوچتا ہوں کہ اُس سید زادہ کی پریشانی کا اصل ذمہ دار کون تھا- میں- مہنگائی یا ہمارے حکمران-

اور کیا ہمارے نصیب میں کوئی مہاتیر محمد جیسا لیڈر نہیں جو آئے اور اِس ملک کی قسمت بدل دے یا ہمیں اِنہی بُونے لیڈروں سے کام چلانا پڑے گا مگر آخر کب تک کروڑوں لوگ روٹی کے ایک ٹکڑے کے لئے تڑپتے رہیں گے - آخر کب تک -
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060379 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More