کالے کوٹ میں کالی بھیڑیں

کالے کوٹ والوں نے دو سال کے عرصے میں جو عزت، شہرت اور نیک نامی کمائی تھی۔ وہ دو دن میں ہوا ہوگئی۔ میڈیا نے اظہار آزادی کے لئے گزشتہ عرصے میں بے حد قربانی دی ہے۔ یہ کیمرے کی سرخ آنکھ ہی تھی۔ جس نے ایک آمر کے اقدامات کو پوری قوم کے سامنے بے نقاب کیا۔ پھر کیمرہ مینوں کے کیمرے ٹوٹے، اخبار والوں کے سر پھٹے، خون بہا لیکن یہ قافلہ رکا نہیں۔ چینلوں پر حملے، ترغیب، لالچ، توڑ پھوڑ، پابندیاں صحافیوں سے یہ حق نہ چھین سکی۔ جس کا مطالبہ کل لاہور میں وکلاء کے ایک گروپ نے کیا۔ میں اسے وکیلوں کا نمائندہ نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ اعتزاز احسن نے بھی ان چند خود سر لوگوں کی حرکتوں پر لاہور بار کی رکنیت سے استعفی دے دیا ہے۔ ایک پولیس اہلکار کو مارتے ہوئے وکلاء کی ویڈیو ٹی وی چینلز پر دکھانے کے بعد اور پھر وکلاء کی جانب سے ایک نجی ٹیلی ویڑن کے کیمرہ مین کا سر پھاڑنے اور کیمرہ توڑنے کے واقعات کا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف نے از خود نوٹس لیا تھا جس کی گزشتہ سماعت جاری تھی۔ اس سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں کافی بڑی تعداد میں وکلاء موجود تھے۔ جونہی سماعت کے بعد صحافی اور وکلاء باہر نکلے تو وکلاء نے صحافیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی براہ راست نشریات کا نظام بند کریں جسے صحافیوں نے تسلیم نہیں کیا جس پر وکلاء نے صحافیوں کے خلاف نعرے لگائے، ان سے بدسلوکی اور گالیاں دیں۔

یہ میں بہت مہذب پیرائے میں لکھ رہا ہوں۔ ورنہ اخبارات میں جو تفصیلات ہیں۔ وہ ہمیں عدالتوں پر اس حملے کی یاد دلاتی ہیں، جس نے اس ملک عدالتوں کے قدر ومنزلت کو مجروح کیا تھا۔ اس وقت بھی یہ میڈیا تھا جس نے عدالتی وقار کی بحالی کی جنگ لڑی۔ پھر چیف جسٹس کی یہ لائیو کوریج تھی۔ جس نے اس ملک کے لوگوں کا جگایا اور سول سوسائٹی نے ایک طویل اور کامیاب جنگ لڑی۔ صحافیوں نے مال روڈ پر جو احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ اب اس کی لہر پورے ملک میں پھیلے گی اور کالے کوٹ والوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنے گی۔ اب صحافی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ جب تک اس واقعے اور اس سے پہلے ہونے والے واقعات میں ملوث وکلاء کے خلاف قانونی کارروائی کر کے انہیں سزا نہیں دی جاتی تب تک صحافی برادری اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔

یہ کیسی خود سری، اور غنڈہ گردی ہے ۔ پنجاب بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی جس نے صحافی کو مارنے والے چار وکلاء کے لائسنس معطل کیے تھے اس نے جمعرات کو ان کے لائسنس بحال کر دیے۔ تو کیا کالے کوٹ قانون سے بالا تر ہیں۔ چند لوگوں کے مسئلے کی وجہ سے پوری وکلاء برادری کو بدنام کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ میڈیا اس واقعے کو غیر ضروری طول دے رہا ہے اور کسی حد تک ان کی رپورٹنگ بھی درست نہیں۔ صحافیوں پر کوئی تشدد نہیں کیا اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی فوٹیج تھی جس میں وکلاء صحافیوں کو مار رہے تھے ۔ایک طرف وکلاء کہتے ہیں کہ صحافیوں کو ڈسٹرکٹ کورٹس اور سیشن کورٹس میں آنے نہیں دیں گے۔ لیکن کیا وکلاء اس بات میں حق بجانب ہیں۔ کیا عدالتیں ان کی من مانی کاروائیوں کے لئے ہیں۔ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے کیمرہ مین پر وکلا ء کا تشدد بلا جواز تھا۔ کیا اس تشدد کا یہ جواز کافی تھا کہ ٹیلی ویژن چینل کے کیمرہ مین نے ایک ایسی فوٹیج بنا لی تھی جس میں چند وکلا ایک پولیس اہلکار کو مارتے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور یہ فوٹیج بعد ازاں تمام ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی۔ کیمرہ وہی دکھاتا ہے جو اس کے سامنے ہو۔ یہ تو آئینے کے مانند ہے۔ جو ہورہا تھا۔ وہی دکھا دیا گیا۔ جہاں انہوں نے اس واقعہ کی فلم بنائی۔ تو کیا کسی فلم کی شوٹنگ تھی۔ یا کوئی پرائیوٹ جگہ تھی۔ یہ عدالت تھی۔ جہاں پولیس اور وکلاء دنگے فساد کے لئے نہیں۔ انصاف، اور قانوں کی بالا دستی کے لئے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس اسٹیشن ہو یا عدالت یا کوئی پبلک مقام قانون کی خلاف ورزی، مارنے پیٹنے، اور تشدد کے ایسے واقعات عام ہیں۔ یہ وکلاء کی بدقسمتی ہے کہ عدالت میں پیش آنے والا یہ واقعہ میڈیا پر آگیا۔ ضلعی عدالتوں میں وکلا کی جانب سے ایسے واقعات کا ہونا افسوس ناک ہے۔ وکلاء برادری کو اسے وقار کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ وکلا کی نمائندہ تنظیموں کو آگے بڑھ کر ان وکلاء کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ صحافیوں کے خلاف غم و غصے کے اظہار سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418955 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More