رشتے جوڑیئے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

جیسا دوسرے نے آپ سے برتاؤ کیا ویسا ہی آپ نے کیا تو کیا کمال کیا؟ کمال تو یہ ہے کہ دوسرا توڑے اورآپ جوڑنے کی فکر کریں بدلے پر قدرت کے باوجود معاف کر دیں ، دوسرے نے نفرت کا کانٹا پھینکا ہے آپ محبت کے پھول نچھاوڑ کریں۔

صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بہت تاکید آئی ہے اس رشتوں کو توڑنے کی بڑی وعیدیں نازل ہوئی ہیں ، اس کی فضلیت میں آتا ہے کہ جس عمل کا اجر سب سے جلدی ملتا ہے وہ صلہ رحمی ہے ، جو کوئی اپنے روزی میں برکت چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے ، ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ تمہارے حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق تمہارے رشتہ دار ہیں جو جتنا زیادہ قریب ہے اتنا ہی زیادہ مستحق ہے ۔ ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہمارے اعلی اخلاق وہاں ظاہر ہوتے جہاں ہمارے دنیوی مفاد وابستہ ہوں،ہمارا بڑا گاہک ہو، ہماری اچھی نوکری ہو وغیرہ ان کے نخرے بھی برداشت کیے جاتے ہیں کڑوی کسیلی سننا بھی آسان، لیکن رشتہ داروں کی معمولی حرکت بھی ہم سے برداشت نہیں ہوتی ، اگر یہ بات دلوں میں پوست ہو جائے کے روزی کے کھنچنے کا یقینی ذریعہ صلہ رحمی ہے تو رشتہ اروں کو اپنے بڑے Customer سے زیادہ اہمیت دیں گے اور اپنے اعلی اخلاق یہاں ظاہر ہوں گے۔

ان رشتے ناطوں کی اہمیت نہ ہونے کی وجہ سے معمولی معمولی باتوں پر رنجشیں ہو جاتی ہیں مثلا شادی بیاہ وغیرہ کی دعوتوں میں اگر کسی کو بھول جائیں یا مختصر دعوت ہونے کی وجہ سے کسی کو دعوت نہ ملے تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا آپﷺ سے خاص تعلق تھا، ایک بار کرتے پر زرد نشان دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ نشان کیسا ہے ؟ تو حضر ت عبدالرحمن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ میں نے نکاح کیا ہے، آپﷺ نے برکت کی دعا دی ، یہ نہیں فرمایا کہ ہمیں نہیں بلایا، نہ ہی حضر ت عبدالرحمن بن عوفؓ آپﷺ کی تعلیم کی برکت سے اس کو ضروری سمجھا کہ آپﷺ کو اطلاع دی جائے اس سنت پر ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے کہ کوئی دعوت دیں چلے جائیں اگر کوئی نہ دے تو برا نہ منائیں۔
خاندانی جھگڑے کی ایک وجہ خاندانی کاروبار بھی بنتا ہے ، باپ نے فیکٹری لگائی یا دکا ن کھولی ، بیٹا بڑا ہوا وہ بھی اس میں آگیا پھر دوسرے بیٹے بھی شامل ہو گئے کاروبار بڑھتا گیا بیٹوں کی اولاد بھی کاروبار میں آگئی ، باپ کے انتقال پر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ، جو جس کے ہاتھ لگتا ہے وہ اس پر قبضہ کر لیتا ہے ، بیٹیاں اکثر محروم رہ جاتیں ہیں ، اس لئے علماء فرماتے ہیں کہ ًرہو بھائیوں کی طرح لیکن معاملات اجنبیوں کی طرح کرو ً ہر چیز واضح ہو اگر بیٹا باپ کے کاربار میں آیا ہے اس کی حیثیت متعین ہو، اگر شریک ہے تو حصہ مقرر کر لو جو صرف کاغذی نہ ہو بلکہ اس حصے میں بیٹے کو تصرف کا حق بھی حاصل ہو ، اگر شریک نہیں بنایا تو تنخواہ مقرر کر لو ، تاکہ باپ کے جانے کے بعد ملکیت واضح ہو ۔

خاندانی نا اتفاقی کی ایک وجہ میراث کی تقسیم میں تاخیر ہے ،بعد میں مسائل ایسے الجھ جاتے ہیں جن کو سلجھنا مشکل ہو جاتا ہے ، اس لئے علماء فرماتے ہیں کے کسی کے انتقال کے فورا بعد میراث تقسیم کر لی جائے اور ہر ایک اس سے ڈرے کے کسی کا حق اس کے پاس رہ جائے ، معمولی رقم بھی دبا لی تو اپنا مال بے برکت ہو جائے گا اور آخرت میں وہاں کی کرنسی یعنی نیک اعمال نماز وغیرو دینے پڑیں گے۔
خاندان میں ناراضگیوں کی ایک وجہ والدین کا اولاد میں برابری نہ کرنا بھی ہے ۔ محبت کے جوش میں کسی ایک بیٹے یا بیٹی کو نواز دیا تو دوسروں کے دلوں میں میل آجاتا ہے ، حتی الامکان بیٹے ، بیٹیوں میں کچھ دیتے وقت برابری کرنی چاہئے۔

آجکل خاندانی جھگڑوں کی ایک وجہ بد گمانی ہے ، خوامخواہ کسی پر شک کرنا کہ کسی نے کچھ جادو وغیرہ کرا دیا ہے، جعلی پیروں کے چکر لگنے شروع ہو جاتے ہیں ، اگر یہ جعلی پیر کسی کا نام لے لے تو وہ رشتہ دار ہمارا دشمن نمبر 1 بن جاتا ہے ، یہ سب عقیدے کا ضعف ہے۔

اسراف(فضول خرچی) اور بخل(کنجوسی) سے بھی ناچاقیاں پیدا ہوتی ہیں ، نمائش کی خاطر لاکھوں خرچ کر دیں گے لیکن اپنے گھر والوں اور غریب رشتہ داروں پر خرچ کرتے ہوئے جان جاتی ہے ۔ اپنے غریب رشتہ داروں پر خرچ کرنے سے ڈبل اجر ملتا ہے ایک صدقہ کا اور ایک صلح رحمی کا ۔

رشتہ دار اگر آپس میں الجھ پڑیں تو انکے درمیان صلح کرانیکا اجر نفل نماز اور روزے سے بڑھ جاتا ہے ۔ آپﷺ ایک بار مدینے میں صحت کی حالت میں ہونے کے باوجود مسجد نبوی میں امامت کے لئے تشریف نہ لا سکے وجہ اسکی یہ بنی کہ دو قبائل آپس میں الجھ پڑے تھے انکے درمیان صلح کرانے میں دیر ہو گئی ، اپنے طرز عمل سے آپﷺ نے امت کو آگاہ کیا کہ صلح کرانے کی کیا اہمیت ہے۔

خوش طبعی اور اپنے اچھے اخلاق سے رشتہ داروں سے ملنا ، اگر ان سے غلطی ہو جائے تو درگزر سے کام لے کر معاف کر دینا ، اپنے تصفیہ طلب معاملات کو نرمی اور فرخ دلی سے حل کرنا اس کو قطع تعلق کا ذریعہ نہ بننے دینا ، یہ ایسا مقابلہ ہے اس میں جیت اس کی ہوتی ہے جو ہار گیا، جو جھک گیا اس کا اقبال بلند ہوا،جو حق پر ہونے کے باوجود حق سے اس لئے دستبردار ہو گیا کہ جھگڑانہ ہو وہ جنت کے بیچوں بیچ محل کا حق دار ہوا اس وقت ظلم کرنے والوں کا احساس ہو گا کہ جس کو بیوقوف سمجھتے تھے وہ کتنا سمجھ دار نکلا۔

Muhammad Ilyas
About the Author: Muhammad Ilyas Read More Articles by Muhammad Ilyas: 41 Articles with 39633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.