مکی اورمدنی زندگی

مسلم اقلیت و اکثریت دونوں کے لیےمشعل راہ

محترم قارئین!آج مسلمان جس ملک،معاشرہ اور ماحول میں جی رہے ہیں،اگر اس تعلق سے غورکریں، تو واضح طورپریہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ دو حیثیتوںسے دنیامیں زندگی بسرکررہے ہیں:
۱۔اقلیتی حیثیت سے ۲۔ اکثریتی حیثیت سے

ہندوستان،نیپال،چین،جاپان،برطانیہ اورامریکہ جیسےملکوں میں مسلمان اقلیتی جماعت سے تعلق رکھتےہیں اورخطۂ عرب ، پاکستان ، بنگلہ دیش اوردیگرمسلم ممالک میں اکثریتی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔جہاںمسلمان اقلیت میں ہیں وہاںہر طرح کی آزادی حاصل ہونے کے باوجود بہت سےمعاملات میں مسلمانوں کومحتاط رویہ اختیارکرنے کی ضرورت ہے،کیوںکہ یہی مصلحت اور وقت کا تقاضہ ہے،جب کہ ان ملکوںمیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،انصاف،غیرجانب داری اورمحبت و اخوت کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں اکثریتی انداز میں جیناچاہتے ہیں، یاپھر مقابل اکثریت کے دباؤ کی وجہ سے تشددپسند ہوگئے ہیں ،یا اپنی ناسمجھی،بے صبری اورپریشاں حالی کے سبب سخت اضطراب میں ہیں ،کیوںکہ یہ علم ہی نہیں کہ اقلیت میںہونےکی صورت میںزندگی گزارنے کے بارے میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رہنمائی کی ہے؟جہاں ہم اکثریت میںہیںوہاںاپنی آمرانہ طاقت کے گھمنڈمیں چورہونے کی وجہ سے سخت مشکل میں ہیں، کیوںکہ یہ معلوم ہی نہیں کہ اکثریت میں ہونے کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح زندگی گزاری ہے؟ مزیدیہ کہ اقلیتی مسلمان اپنی جہالت اورسست روی کی وجہ احساس کمتری کےشکارہیں، تو اکثریتی مسلمان اپنی غیرانسانی حرکت ، جانبدارانہ برتاؤ اور متعصبانہ رویہ کی وجہ سےاپنامقصدپانے میں ناکام ہے۔

غرض کہ ہم میں سےہر ایک چاہے وہ اقلیت سے تعلق رکھنے والا ہوچاہے اکثریت سے،اپنااپنا مقصد پاناتوچاہتا ہے مگر اس مقصدکے حصول کا طریقۂ کارکیاہو، کسی کو سجھائی نہیں دیتااورنہ ہی اقلیت واکثریت دونوںحالتوںمیں ہماری ناکامی کے اسباب کیا ہیں اس پہلوپر غوروفکر کرنے کے لیے کسی کو فرصت ہے۔
اس تعلق سےہمیں سیرت رسول بالخصوص مکی اورمدنی زندگی دونوںکو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے ۔چنانچہ جب ہم محسن انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تواس سلسلےمیںکامل رہنمائی ہوتی ہے اورہردو طبقہ (اقلیت واکثریت)کےمشکلات ومسائل کا حل بخوبی مل جاتاہے۔ اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مکی زندگی بہترین رہنما ہے اوراکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیےمدنی زندگی عمدہ راہبرہے۔

یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کااعلان فرمایا،تواس وقت آپ اقلیت میں تھے اور اپنے دینی وجود کو قائم کرنے کے لیے جدوجہدکررہے تھے، آپ یہ جانتےتھےکہ آپ کوجو دین دیاگیاہے وہ اپنی صداقت اور برحق ہونے کے اعتبارسے تمام مذاہب پر فوقیت رکھتاہے،پھربھی آپ نے نہایت خفیہ طورپر تبلیغ دین کو آگے بڑھایااوراس سلسلےمیں سب سےپہلے ان افرادکو دین کی دعوت دی جو آپ کے سب سے زیادہ قریبی تھے ،پھر جیسے جیسے موقع ملتا گیادین کی دعوت کو عام کرتے گئے،مگر آپ نے کبھی بھی دین کی تبلیغ کے لیے جبروتشددیازورزبردستی کی راہ اختیار نہیں فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو ہمیشہ سامنے رکھاجس میں فرمایاگیاہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ۝۲۵۶(بقرہ) یعنی دین میں کوئی جبرنہیں۔

بلکہ جب بھی کسی سے دین کی کوئی بات کہی،توبڑی نرمی اور پیارومحبت بھرے انداز میں کہی اور اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو برابر سامنے رکھاجس میں ارشاد فرمایاگیاہے:ادْعُ إِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۝۱۲۵(نحل)
ترجمہ:(لوگوںکو)حسن تدبیر اور حسن کلام سےاپنے رب کی طرف بلاؤ اور اُن سے بحث بھی کرو توبہتراندازسے ۔

چنانچہ اگر سامنے والامان جاتاتو ٹھیک ،اور اگرکوئی بدسلوکی کرتا،تو بھی آپ اس کے ساتھ عظیم حسن اخلاق کا مظاہرہ فرماتے۔ یہاں تک کہ جوآپ کو ہمیشہ ستاتااور پریشان کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا، ایسے شخص کے ساتھ بھی بڑی محبت و شفقت اورحسن اخلاق سے پیش آتے۔ گویاجب تک آپ اقلیت میں رہے اپناکام بڑی خاموشی اورصبروتحمل سے کیااوردھیرے دھیرے افرادسازی کی مہم کو آگے بڑھاتے رہے،حالانکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگرچاہتے توکفارومشرکین کے خلاف محاذ کھول سکتے تھے ، کیوںکہ آپ جس قبیلہ اور جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے وہ مکہ میں نہایت ہی اعلیٰ واشرف قبیلہ اور بہادر خاندان تھا۔

لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا،تو صرف اس لیے کہ ایسا کرناتبلیغی اعتبارسے بہتر نہ تھا۔اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیت میں رہنے والوںکے لیے ایسےانمول نقوش چھوڑے جنھیں اپناکر آج بھی وہ ایسی مثالی زندگی گزارسکتے ہیںجو آگے چل کر اُسےاکثریتی طبقہ میںتبدیل کردے ۔کیوںکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیت کی حیثیت سےزندگی گزارلی توایک دن وہ بھی آیاکہ جب اللہ رب العزت نے آپ کوہجرت ِمدینہ کا حکم فرمایا،چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب، مدینہ ہجرت کرگئے، جہاں سے آپ نے اپنی اکثریتی زندگی کاآغازکیا۔ مہاجرین وانصارجو ایک دوسرے کے لیےبالکل نئے تھے ، ان کے درمیان مواخات (بھائی بھائی)کا رشتہ قائم کیا،یہ بظاہرمہاجرین وانصار کارشتہ تھا مگرحقیقت میں یہ پیغام پوری انسانی برادری کے لیے تھا جس کا اثریہ ہواکہ مہاجرین وانصارکےاس محبت بھرے رشتے نے غیروںکوبھی دین حنیف قبول کرنے پرمجبور کردیا۔

میثاق مدینہ جس میں تین جماعتوں کے درمیان آپسی عہدوپیمان کیاگیاکہ ہرتین فریق (مسلمان، کفارومشرکین اور یہود) سیاسی و سماجی اعتبارسےایک دوسرے کے معاون ومددگار اورمحافظ ہوںگے۔

مکہ کے برعکس مدینے میں مسلمان کی تعداد زیادہ تھی، اگروہ چاہتے توجبروتشدداورزورزبردستی سےاقلیتی طبقات پر اپنادین مسلط کرسکتےتھے (جیساکہ آج بھی کچھ جماعتیں طاقت کے بل پراپنی بات منوانے میں لگی ہوئی ہیں)مگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسندنہ فرمایا اور اقلیتی طبقہ سےمعاہدہ کرکے نہ صرف شہر مدینہ اوراس کے باشندوں کے لیے ترقی کی راہیں ہموارکیں ، بلکہ کفارومشرکین کوبھی سیاسی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرکے حکمرانی کاقابل رشک نمونہ پیش فرمایا۔

اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر باوجودکہ مسلمان اکثریت میں تھے،لیکن پھر بھی صلح کی اور وہ بھی یک طرفہ شرائط پر، حالانکہ اس طرح دب کر صلح کرنابعض صحابہ کرام کو ناگوار بھی گزرا،لیکن اس کے باوجودمحسن انسانیت حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کفارومشرکین کی یک طرفہ شرطوں کو مانا،تو صرف اورصرف اس لیے کہ کچھ برسوں تک ہی سہی امن وامان تو قائم ہوگا۔

فتح مکہ کے موقع پرہوناتو یہ چاہیے تھا کہ آپ مکہ میںفاتحانہ اورحاکمانہ شان سے داخل ہوتے لیکن اس کے برخلاف جب مکہ میں داخل ہوئے تو عجزوانکساری کی وجہ سےآپ کاسراس قدرجھکاہواتھاکہ آپ کی پیشانی آپ کی اونٹنی قصوا کے اگلے حصے سے لگ رہی تھی،پھر یہ بھی آپ کے اختیارمیں تھاکہ اقلیتی طبقہ ہونے کی حیثیت سےجو نارواسلوک اورظلم کارویہ، مشرکین مکہ نے آپ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ اپنارکھاتھا اس کا بدلہ گن گن کر لیاجائے مگر محسن انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیںکیا، بلکہ آپ اپنے اوراپنے اصحاب کے جانی دشمنوں سےانتقام کے بجائےعام معافی کااعلان کیااور انسانیت کی بقاوتحفظ کویقینی بناتے ہوئے ارشادفرمایا:
لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ، إِذْهَبُوْا فَأنْتُمُ الطُّلَقَاءُ۔(زرقانی علی المواہب)
ترجمہ:آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ،اللہ تمھیں معاف کرے ،وہی معاف فرمانے والاہے،جاؤ تم سب آزادہو۔
پھر ایک دن وہ تاریخی موقع بھی آیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی غیرانسانی حرکتوںپر پابندی عائدی فرمادی اور ایک ایسا نظام قائم کیا کہ جس نے اقلیت واکثریت کانشان ہی مٹادیاکہ:اب نہ کوئی عربی رہانہ کوئی عجمی اورنہ کوئی گورارہانہ کوئی کالا،بلکہ سب انسانیت کے دھاگےمیں بندھ گئے۔میرے خیال میںمواخات مدینہ، میثاق مدینہ ،صلح حدیبیہ اور فتح مکہ نے انسانیت کی بقاوتحفظ میں جوبنیادی کردار اداکیا ہے،اس کی مثال پیش کرنے سے نہ صرف دنیاعاجزہے،بلکہ اس کا احسان ،انسانیت کبھی نہیںچکا سکتی۔

ان باتوں سے یہ اندازہ لگاناکچھ مشکل نہیں ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دوزندگی(مکی ومدنی)ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ چاہیے اقلیت میں رہیںچاہے اکثریت میں ،بہرصورت سیرت نبویہ سے سبق لینے کی ضرورت ہے ، یعنی اقلیت میں رہیں، تو صبروضبط سے کام لیں،افرادسازی کریں اورموقع ومحل کے اعتبار سے خود کو ثابت کریں اور اگر اکثریت میں رہیں، تو ہر امیرغریب، محتاج غیرمحتاج اور طاقتورکمزور سب کے ساتھ عدل وانصاف اورایمان داری ودیانت داری کا مظاہرہ کریں ۔(مدیرماہنامہ خضرراہ ،الہ آباد(
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52146 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More