رواں ہفتہ کے آغاز پر پیر چھ
جنوری ۲۰۱۴ ء ابراہیم زئی ہائی سکول ہنگو کے نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز
حسن نے بہادری و جرات کا مثالی مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خودکش حملہ آورجو سکول
کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اسے روکا تو مذکورہ دہشتگرد نے اپنے
آپ کو اُڑا لیا جس سے اعتزاز حسن شہید ہو گیا اور صرف چار دن بعد جمعرات نو
جنوری کراچی میں دوسرا افسوسناک واقعہ ہوا جس میں ایس ایس پی چوہدری محمد
اسلم خود کش حملہ میں اپنے چار ساتھیو ں سمیت شہید ہوئے ۔دونوں شہداء نے
لازوال قربانی کی انمٹ تاریخ رقم کر کے ہمیں خواب غفلت سے جگادیا،اول الذکر
معصوم ،نو خیز اور ہونہار طالب علم اعتزاز حسن کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ کسی
ادارے کا ملازم تھا کہ اس کی منصبی ذمہ داری بنتی ،نہ ہی وہ کسی ٹیررسٹ
فورس کا اہلکار تھا کہ وہ کسی کے حکم پر کہیں ڈیوٹی دے رہا تھا،بلکہ اس نے
اپنی جان کی قربانی دیکر پوری قوم کو بہت ہی عظیم پیغام ،کردار مشعل راہ
اور درس حیات دیا ہے کہ ملک و ملت کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرنے کا جذبہ
عمل سب کی ذمہ داری ہے اور یہی حقیقاً جہاد ہے جو کسی بھی ظالم و سفاک ،اسلام
دشمن ،انسانیت کے قاتل کیخلاف کرنا جائیز و افضل عمل ہے ۔صوفی تبسم کی
مجموعہ شاعری میں ان کی غزل ان شہداء کے بارے واقعی حقیقت پسندی کی دلیل ہے
کہ
اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں کی لبنیئں پھریں بازار کڑے
بیداری ،ہوشمندی اور انسان دوستی کی لازوال قربانی ہمیں خوا ب غفلت سے جگا
رہی ہے کہ جب تک ہم اپنے محسنوں ،محب وطن شخصیات کی قدر دانی نہیں کریں گے
تب تک سرخرو ہونے کی منزل نہیں پا سکتے ،قابل افسوس بات یہ ہے کہ مذکورہ
طالب علم کی قربانی کو ہمارے لچھے دار ،بہروپیئے سیاست کاروں اور اعلیٰ
منصب پر براجماں شخصیات کے مردہ ضمیروں پر اس قدر گراں گذری کہ ان میں سے
کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس عظیم شہید کے جسد خاکی کو دیکھنے یا اس
کے لواحقین تک حوصلہ افزائی کے لئے قدم رنجہ فرماتے ،سیاسی شہرت کیلئے
دھرنے دینے والوں کے اپنے صوبہ میں ان کا یہ کردار شرمناک کہا جائے تو کم
نہ ہوگا،انتہائی ندامت کی بات تو یہ ہے کہ اس عظیم طالب علم کیلئے کسی مذہب
کے ٹھکیدار نے بھی ایک جملہ کہنا گوارہ نہیں کیا ،جہاں انسان کو طبقوں میں
تقسیم کر کے اس کے معیار کا از خود تعین ہو ،جہاں کسی کی جان کو ارزاں
سمجھا جاتا ہو ،جہاں شہادت کے مراتب بھی دنیاوی سطحوں پر پرکھے جائیں تو
پھر قوم کہاں ،کس لئے قربانی دے گی ،اعتزاز نے اپنی نہیں آٹھ سو طلباء کی
جانیں بچا کر عظیم قربانی دی ہے اسے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کرنا ہمارا فرض
تھا مگر جب ہمارے حکمران بے ہوش ،مد ہوش اور اقتدار کے نشے میں بد حواس ہوں
تو ان سے خیر کی کیا توقع کی جا سکتی ہے ،یہی ہماری قومی و مذہبی غفلت آج
ہمیں مشکلات و مسائل سے دوچار کر چکی ہے ۔البتہ یہ امر باعث حوصلہ مندی ہے
کہ ایس ایس پی کراچی چوہدری محمد اسلم کو جس قومی اعزاز سے نوازہ گیا وہ
بہر صورت ان کی قربانیوں کا حق تھا -
دہشتگردوں نے ایک دہائی سے وطن عزیز کو نشانہ بنا رکھا ہے اس وقت تک ہزاروں
قیمتی جانیں قربان ہو چکی ہیں ،ملک کو ایک سو ارب ڈالر تک معاشی نقصان ہو
چکا ہے ،ہزاروں علمی درسگائیں تباہ کر کے لاکھوں نوجوانوں کو علم کی دولت
سے محروم کر دیا گیا ہے ،وطن عزیز میں بد امنی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار
بھاگ چکے ہیں جس سے معاشی ترقی رک چکی ہے ،یہاں تک کہ ملکی سرمایہ کار بھی
مجبوراً اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں ،سٹریٹ
کرائمز میں ہوشربا اضافہ سماجی ناہمواری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جہالت کی شرح
میں تیزی سے اضافہ تشویشناک سطح پر پہنچ چکا ہے جس سے بیروزگاری نے ہر گھر
تک خوفناک دستک دے رکھی ہے ۔ہمارے قومی اداروں کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان
بنتی جا رہی ہے ،منافع بخش ادارے زوال پذیر ہو تے دکھائی دے رہے ہیں ،مسائل
اس قدر بڑھتے جا رہے ہیں کہ ان سے نمٹنا بھی مشکل تر نظر آتا ہے ۔ایسی صورت
حال میں نان ایشوز میں حکمران عوام کی توجہ ہٹا کر ’’ ڈھینگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی
اختیار کئے ہوئے ہیں جو انتہائی خطرناک صورت کی نشاندھی ہے۔
بلاشبہ حالات حاضرہ میں جس قدر مسائل موجود ہیں ان کا تعلق ماضی کے
حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور بے عملی کا نتیجہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ،موجودہ
حکمرانوں کو اﷲ نے موقع عنایت کیا ہے کہ وہ ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ
کر موثر و ٹھوس اقدامات اٹھا کر قوم کو اس دلدل سے نکالنے میں اپنا تاریخی
کردار ادا کریں ۔
شہداء و غازیوں کا ہمارے لئے یہی پیغام ہے کہ وطن فروشی کی بجائے محب وطن
بن کر اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر قوم کو نیا جذبہ ،نئی صبح اور خوشحال
مستقبل دینے کیلئے تن من دہن لگا دیں ،شہداء کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے
ہوئے انہیں قومی اعزازات کے علاوہ ان کا امتیازی مقام مشعل راہ بنایا جائے
،آخر پر علامہ اقبال کے اس شعر کے ساتھ اپنے عظیم شہداء اعتزاز حسن اور
چوہدری محمد اسلم کو ہدیہ عقیدت پیش ہے کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل محو تماشائے لب بام ہے ابھی
|