یہ عام مشاہدہے کہ انسان وہی
دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔اور سمجھتا بھی وہی ہے جوسوچ اس نے
حالات،واقعات و تجربات کی روشنی میں اپنا رکھی ہو۔اپنی ذات کے گرد ایسا
دائرہ بنا رکھتا ہے کہ اپنے علاوہ ہر شخص منفی نظر آتا ہے۔ماہ ربیع الاول
آقا دو جہاںﷺ کی ولادت با سعادت کی خوشی میں بھرپور انداز سے منایا جاتا
ہے۔محافل و میلاد اور اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔روحانی اجتماعات روح
پرور احساس دل کو جہاں طمانیت بخشتے ہیں وہیں ضمیر کی عدالت میں ایک سوال
گردش کرتا ہے کہ محسن انسانیت خاتم النبیین رحمۃاللعالمین ﷺ کو کیا منہ
دکھائیں گے؟
کیونکہ ہم تو آپﷺ کے دیئے ہوئے سبق اور دکھلائے ہوئے راستے کو بھلا چکے
ہیں۔یا پھر کبھی یاد بھی نہ کیا ہوگا۔آج ہم ایسی مسلم قوم بن چکے ہیں جو
احادیث مبارکہ آیات مبارکہ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں اپنی گفتگو میں مثال بنا
کر پیش کرنا جانتے ہیں۔افسوس صد افسوس! عمل کب کریں گے؟اس دینا میں یا پھر
وقت ہی نہ مل پائے گا۔ہمارے پسندیدہ مشغلے کب ختم ہونگے؟۔۔۔۔۔۔۔جھوٹ غیبت
عداوت دلازاری حسد و چالاقی سے بھرے ہوئے ہمارے اپنے راستوں میں وہ راستہ
کہاں کھو گیا جو ہمارے نبیﷺ نے ہمیں دکھایا تھا۔کیا خوب امتی ہیں کہ آج ہم
اپنے پیارے نبیﷺ کی ایک بھی سنت پرصیح طرح عمل پیرا نہ ہو سکے۔اب یہ وہ قوم
ہے جو برابری کی بنیاد پر نہیں برادری کی بنیاد پر قائم ہے۔دوسروں کی مدد
کرنے کا جو درس ہمیں ملا کیا وہ ہم یاد رکھ پائے؟۔۔۔۔ہرگز نہیں!مددگار بننے
کے بجائے اپنے مسلمان بھائیوں کو بے یارومددگار چھوڑنے میں کوئی عار محسوس
نہیں کرتے ۔ہم نے مسجدیں خالی کر دی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے دل ایمان کے
جذبے سے خالی ہوچکے ہیں۔وہ جذبہ ایمانی جو ہمیں اتحاد کے رستے پہ
چلاتا۔دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے فتح سے ہمکنار کرواتا ہے۔اﷲتبارک تعالیٰ
کی صد ہا نعمتوں ،انعامات و کرامات کو بھلا کر ناشکری کی روش اپنا لی اور
خرافات میں کھو گئے خوشامد کے عادی بن چکے ہیں ۔تنقید گوارا نہیں۔جھوٹ کو
سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے کاریگر بن چکے ہیں۔ہم شرمندہ ہیں لیکن تسلیم
کب کریں گے؟ہمارے اعمال کی درستگی ہمارے احتساب سے ہی شروع کی جاسکتی
ہے۔اور یہ سب تب ممکن ہے جب ہم تسلیم کریں گے کہ ہمارا راستہ غلط ہے۔یہ
تسلیم کریں گے کہ شیطان کی تقلید کرتے کرتے ہم اخلاقی اور عقلی قوتوں سے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔برائی کو اپناتے اپناتے تھکیں گے کب ؟کب سمجھ آئے گا
مسائل کا حل کسی اور کے پاس نہیں بذات خود اپنے پاس موجود ہے۔ہاتھ پہ ہاتھ
دھرے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی مدد کر دے راستہ دکھادے جبکہ راستہ خود
آواز دے رہا ہے کہ میں ہی نجات کا ذریعہ ہوں بچ سکتے ہو ذلت و خواری سے
اپناؤ مجھے ۔اپنا لو سیرت محمدﷺ کو اور یہی سچ ہے کہ جو لوگ اس راستے کو
اپنا لیتے ہیں وہ معاشی یا سماجی مسائل کا شکار نہیں ہوتے بلکہ یوں کہیئے
کہ اس سیدھے اور سچے راستے پہ چلنے والا کوئی بھی شخص گلہ کرتا نظر نہیں
آتا۔
خدا خود وسیلہ بنا دیتا ہے مشکلات میں صبر عطا کرتا ہے یوں راستہ دکھادیتا
ہے کہ ہمیں یا آپکو خبر تک نہ ہو گی کہ کس کی مدد کب اور کیسے ہوگی۔ہمیں
عملی طور پر نبی کریمﷺ نے جو مربوط نظام انسانی حقوق کا پیش کیا وہ ہمیں
عملی طور پر اپنانا ہوگا۔وہی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے حقیقت تو یہ
ہے کہ ہمارے اعمال کی جو صورت بن رہی ہے ۔خدا جواب کی صورت میں اسے رنگ دے
رہا ہے ۔کیا ہے خدا کا جواب ۔۔۔۔دوسری طرف سوال ہمارے اعمال ہیں اﷲ تعالیٰ
ہمیں ہدایت دے اٰ مین |