یکساں نصابِ تعلیم کی ضرورت

صوبہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کی اصلاح کے لئے پر عزم نظر آتی ہے۔ صحت کے شعبہ میں اچھی خا صی پیش رفت بھی نظر آ رہی ہے البتہ تعلیم کے شعبہ میں بہت کچھ کرنا باقی ہے امید ہے کہ اگلے تعلیمی سال یعنی ماہِ اپریل سے تعلیم کے شعبہ میں بھی اصلاحات کی جا ئینگی۔ چونکہ نصاب تعلیمی نظام کا ایک اہم عنصر ہے اورطالب علم کی ذہنی اور عملی رویئے کی تشکیل میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تعلیم سے متعلقہ لوگ حکومت کی راہنمائی کے لئے نصاب کی اہمیت اور مقاصد پر اظہارِ خیال کریں۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک ملک میں ایک ہی نصاب یعنی یکساں نصاب کا ہو نابہت ضروری ہے ورنہ نتیجہ ملک میں باہمی انتشار ہو گا، جیسے کہ ہم آج وطنِ عزیز میں ہم دیکھ رہے ہیں۔

دورِنبوی ؐ سے لے کر مغل دورِ حکومت تک اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ نصاب سب کے لئے یکساں تھا۔امراء ، متوسط طبقہ یا غرباء کے لئے کوئی علیحدہ نصابِ تعلیم نہ تھا۔ کوئی علیحدہ سکول و کالج یا مد رسہ نہ تھا بلکہ سب کو اکٹھے ایک جگہ بیٹھ کر پڑھنا پڑتا تھا۔مگر آج ہم اپنے ملک میں نظر دوڑائیں تو نہ صرف نصابِ تعلیم مختلف نظر آئیں گے بلکہ سکول و کالج تک طبقاتی تقسیم کا ظالمانہ نمونہ پیش کر رہے ہیں ۔امراء کے بچے تو ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ غرباء کے بچّے ٹاٹ سے بھی محروم ہیں ، یہی نہیں ، ان کے نصاباتِ تعلیم بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ۔اگر ہم صرف صوبہ خیبر پختونخواہ کی بات کریں تو ایڈورڈ کالج، پشاور ماڈل سکول اینڈ کالج،پشاور پبلک سکول ایڈ کالج، بیکن سکول، ایف سی اے،اور آئی سی ایم ایس جیسے تعلیمی اداروں میں امراٗ کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ان کانصاب بھی سرکاری نصاب سے علیحدہ ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غرباء اور متوسط طبقہ کے بچے ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔

پاکستان حاصل کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ تمام شہریوں کو تعلیم حاصل کرنے ، ترقی کرنے زندگی کی دوسری آسانیاں حاصل کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں مگر افسوس کہ چھیا سٹھ سال گزرنے کے باوجود ہم تعلیم کے شعبہ میں یکساں نصابِ تعلیم ہی رایج نہ کر سکے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج پو را پاکستان طبقاتی تقسیم کا شکار ہے غیر یکساں نصابِ تعلیم معاشرتی عدم توازن کا باعث بنا ہوا ہے دینی اور دنیاوی اداروں سے فارغ ا لتحصیل طلباء میں ذہنی ہم آہنگی نہیں، انگلش میڈیم اوراردو میڈیم سکولوں، کالجوں سے فارغ ا لتحصیل طلباء میں بھی ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔دینی مدرسوں سے فارغ ا لتحصیل طلباء میں بھی شدید مسلکی ذہنی اختلافات پائے جاتے ہیں-

آ ج اگر پاکستان ایک کھچڑی بنی ہو ئی ہے اور اتحا و یکجہتی کا شدید فقدان ہے تو اس کی بڑی وجہ غیر یکساں نصابِ تعلیم ہی ہے۔نصاب کے لئے انگریزی میں لفظ Curriculm استعمال کیا جاتا ہے۔ Curriculmکا ماخذ بھی یونانی زبان کا لفظCurreeہے جس کے معنی رن وے یا وہ راستہ جس پر دوڑا جاتا ہے، کے ہیں ۔اگر کسی ملک کے بچوں کے لئے راستے ہی الگ الگ چنے جائیں تو ان کی منزل کیسے ایک ہو سکتی ہے ؟وہ کیسے ایک سوچ کے مالک بن سکتے ہیں؟

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے پاکستان میں یکساں طرز کانصابِ تعلیم ہو، اور نصابِ تعلیم بھی ایسا ہو جو ہماری قومی ضروریات کے عین مطابق ہو۔کیونکہ مفکرینِ تعلیم کے مطا بق نصاب نظامِ تعلیم میں دِل، مد رسہ کی روح،نظامِ تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی اور منزل تک پہنچنے کے لئے ’سیدھا راستہ ‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔بلکہ میں تو یہ کہو نگا کہ ملک میں جو حیثیت آئین کی ہے ، نظامِ تعلیم میں وہی حیثیت نصاب کی ہے۔اس لئے یہ سب کے لئے ایک جیسا ہو نا چاہئے ، یہ یکسانیت نرسری سے ہونی چا ہئیے۔اس وقت بورڈ امتحانات یعنی میٹرک اور ایف اے، ایف ایس سی کے لئے نصاب ایک ہی ہے مگر نرسری تا مڈل کلاسوں کے لئے نصاب میں بہت زیادہ فرق ہے ذریعہ تعلیم بھی مختلف ہے، اس کا بھی فیصلہ ہو جا نا چا ہئیے کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو یا اردو ، جو بھی فیصلہ ہو اس کا اطلاق سب پر ہو ، امراء کے لئے انگریزی ، غرباء کے لئے اردو، یہ انتہائی ظلم و غیر مساویانہ سلوک ہے۔

اندریں حالات میری حکومت سے یہ گزارش ہے کہ تعلیم کی طبقاتی تقسیم اور نصاب کے غیر یکسانیت کو ختم کیا جائے، نصابِ تعلیم کے لئے ذریعہ تدریس (Medium of instruction )ایک زبان کو قرار دیا جائے۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285264 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More