آج کل یہ موضوع عام ہے کہ دینی
مدارس میں انگر یزی کی تعلیم ہونی چاہیے یا نہیں ؟بعض اہل علم اس کے حامی
ہیں اور اکثریت کی رائے اس کے برعکس ہے ۔اس سلسلہ میں چند معروضات وگزارشات
پیش خدمت ہیں۔
پہلی بات : یہ کہ ہمارے ہاں اکثر علوم کی تقسیم اس طرح کی جاتی ہے کہ علوم
دو قسم کے ہیں ۔(۱)دینی علوم (۲)دنیا وی علوم ،یہ تقسیم محل نظر ہے اس لیے
کہ دین کی ضد ’’لادینیت ‘‘ہے دنیا نہیں ،لہذا جب دین اور دنیا ضد نہیں ہیں
تو پھر اس طرح علوم کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے ۔بلکہ اگر غور کیا جائے تو
معلوم ہوگا کہ اصل علم صرف ایک ہی ہے اور وہ ’’دین ‘‘کاہے ۔باقی علوم تبعا
ًاس میں شامل ہیں ۔کوئی علم ایسا نہیں ہے جو اس کے دائرہ کار میں نہ آتا ہو
۔بلکہ آج تو ایسی کتابیں مارکیٹ میں آگئی ہیں جن میں مروجہ علوم کو قرآن
کریم سے ثابت کیاگیا ہے کہ ان کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیاہے ۔
دوسری بات : جو لوگ مدارس میں انگریزی کی تعلیم کے خواہاں ہیں ہم ان سے بھی
دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس میں وہ کس قسم کی انگریزی تعلیم چاہتے
ہیں ؟اگر مدارس کے نصاب تعلیم میں وہ اس قسم کی انگریز ی کی تعلیم شامل
کرنے کے خواہش مند ہیں کہ جس طرح دوسرے تعلیمی اداروں سے ڈاکٹر ،انجینئر
اور سائنسدان تیار ہورہے ہیں اسی طرح مدارس سے بھی ہوں تو یہ ایک بیکار کی
بحث ہے ۔اس لیے کہ ہرادارہ کا اپنا ایک ہدف اور ایک مقصد ہوتاہے جس پر وہ
ادارہ افراد کو تیار کرتاہے دینی مدارس کامقصد قرآن کریم کے پختہ قاری اور
دین کے ثقہ عالم وداعی تیار کرناہے لہذا یہ کہنا کہ مدارس سے دوسرے میدانوں
کے لوگ تیار ہوں تو یہ ایسے ہی جیسے کوئی یہ کہے کہ میڈیکل کالج سے
اسلامیات کے اسکالر اور انجینئرنگ یونیورسٹی سے ڈاکٹر اور زرعی یونیورسٹیوں
سے سیاستدان کیوں نہیں تیار ہورہے ۔؟ظاہر ہے اس قسم کے مطالبہ پر گفتگو
کرنا وقت کا ضیاع ہے ۔
لیکن اگر انگریزی کی تعلیم سے ان کی مراد انگلش بول چال کی مہارت ہے کہ درس
نظامی پڑھ کر فارغ ہونے والا عالم دین ،انگلش اسپیکنگ لوگوں کو اسلام کی
دعوت دے یا اسلام پر اہل مغرب کے انگلش میں کیے گئے اعتراضات کا جواب دے
سکے ،یا وہ اپنے ملک میں ہی دین کی اس طرح خدمت کرے کہ ہائی سوسائٹی اور
انگلش سکولوں میں پڑھے لوگوں کی ذہن سازی کرسکے تو اس پر غور کیا جاسکتاہے
۔
تیسری بات :ہمارے ہاں یہ نظریہ عام ہے کہ’’ مدارس میں انگریزی کی تعلیم
دینا اتنا خطرناک ہے کہ انسان کی دین سے بے تعلقی ہوجاتی ہے بلکہ بسااوقات
نوبت دہریت تک جاپہنچی ہے ۔اسی لیے اکابر علماء دیوبند نے انگریزی کو نصاب
میں داخل نہیں کیاتھا ‘‘اب یہاں پرچندباتیں قابل غور ہیں ۔
کس قسم کی انگریزی تعلیم کا یہ اثر ہے کہ انسان دین سے بے تعلق ہوجاتاہے
؟اکابر نے جس انگریزی کی تعلیم پر پابند ی لگائی تھی یا اسے شامل نصاب نہیں
کیا وہ کونسی انگریزی تھی ؟انگریزی تعلیم کا دائرہ کا ر کیاہے ؟
واضح رہے کہ وہ انگریز ی کی تعلیم مسلمان کے لیے مضر اور ایمان کے لیے
نقصان دہ ہے جس میں انگریزی تعلیم کے ساتھ انگریزی تہذیب کو اختیار کیا
جائے،صرف کسی ملک یا قوم کی زبان سیکھنے سے انسان دین سے بے تعلق نہیں
ہوجاتا اور نہ ہی اس پر شرعا کوئی پابندی ہے بلکہ حضورﷺ نے حضرت زید بن
ثابت ؓ کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم دیا تھا ۔
اور انگریزی تعلیم کا دائرہ صرف بول چال ،افہام وتفہیم ،لکھائی پڑھائی ،اور
اس کے ساتھ جغرافیہ ،کمپیوٹر ،ریاضی تک رکھا جائے تو اس میں ایسی بظاہر
کوئی قباحت وشناعت نہیں جس سے انسان دہریت تک جاپہنچے ۔آج کل کتابت کا
زمانہ نہیں رہا اس کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے اور دنوں کاکام گھنٹوں اور
گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہوجاتاہے ۔آج مکتبہ الشاملہ،اور الفیہ،مکتبہ الفقہ
کے نام سے اس قسم کی سی ڈیز مارکیٹ میں موجو د ہیں جن میں فقہ حنفی،فقہ
مالکی،فقہ حنبلی،فقہ شافعی ،فقہ عام،کتب تفسیر،کتب حدیث ،کتب شروح حدیث
،السیاسۃ الشرعیہ وغیرہ اس قسم کے عنوانات قائم کرکے ان کے تحت متعلقہ کتب
کو مطبوعہ کتب کے صفحات کے مطابق درج کیاگیاہے ۔ آپ ان کو کمپیوٹر میں
انسٹال کرکے ایک ہی جگہ سینکڑوں کتب کی ورق گردانی کرسکتے ہیں ۔کسی آیات
یاحدیث کا حوالہ تلاش کرنا تو اردو یا عربی کا ایک لفظ لکھ اسے تلاش
کیاجاسکتاہے ۔آج کے دور میں کمپیوٹر کی بدولت تحقیق آسان ہوگئی ہے ۔اور
کمپیوٹر کی تعلیم ایسی نہیں ہے کہ جس پر چوبیس گھنٹے ․صرف ہوتے ہوں بلکہ یہ
تو شارٹ کورسزسے سیکھا جاتاہے ۔اور نہ ہی اس کی تعلیم دینی تعلیم پر غالب
آسکتی ہے ۔اس کہ لیے کمپیوٹر بذات خود علم نہیں ہے بلکہ یہ تو حصول علم میں
ممد ومعاون ہے ۔
اورریاضی وغیرہ کی تعلیم بھی میٹرک تک لازمی ہے آگے ایف اے اور بی اے میں
تو اس کی تعلیم لازمی نہیں ہے ۔رہا مطالعہ پاکستان اس کاعلم بھی نافع تو
ہوسکتاہے کہ پڑھنے والے کا جنرل نالج وسیع ہو۔لیکن یہ مضر قطعا نہیں ہے ۔جب
پاکستان کو ہمارے اکابرنے بنایاتو مطالعہ پاکستان کے مضمون کی تعلیم وتدریس
میں ہمیں ہچکچاہٹ کیوں ۔؟
باقی اکابر ین علماء د یوبند نے جن حالات میں دینی مدارس کی بنیاد رکھی وہ
ایک تاریخ کا المناک اور غمناک موڑ ہے ۔کہ انگریز کی حکومت تھی اور اس نے
اسلام اور مسلمانوں کوختم کرنے کے لیے مدارس کو مسمار اور علماء حقہ کا قتل
عام کیا ۔ماسوائے چند گنتی کے اہل علم کے دوردراز اورقرب وجوار تک کوئی
صحیح العقیدہ ،راسخ ثقہ عالم نظر نہیں آتا تھا ۔ان حالات میں ضرورت تھی اس
بات کی کہ زیادہ سے زیادہ دین دار ،عالم دین افراد تیار کیے جائیں تاکہ
دوسرے ناواقف،جاہل ،اور کم علم رکھنے والے مسلمانوں اور آئندہ آنے والی
نسلوں کی ایمانی حفاظت کی جاسکے ۔چنانچہ انہوں نے انگریزی اور اس سے متعلقہ
تعلیم کواس وقت شامل نصاب نہیں کیا۔
مگر اکابر علماء نے اپنے آپ کو کبھی ایک مخصوص حصار میں پابند نہیں کیا
،چنانچہ سرسیداحمدخان نے اپنے تعلیمی ادارہ میں اسلامیات کی تعلیم کے لیے
بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ کے داماد حضرت
مولانا عبداﷲ انصاری کی خدمات سے استفاد ہ کیا۔حضرت شیخ الہند مولانا محمود
حسن ؒ جو ۲۸سال تک دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث رہے آپ نے علی گڑھ کالج
کی انتظامیہ کے ساتھ اس امر کا معاہدہ کیا تھا کہ فریقین کے طلبہ ایک دوسرے
کے تعلیمی اداروں میں جاکر متعلقہ تعلیم حاصل کریں گے ۔ظاہر ہے کہ
دارالعلوم دیوبند کے طلبہ ،علی گڑھ کالج میں انگریزی کی تعلیم ہی حاصل کرتے
۔یہ معاہدہ بوجوہ شرمندہ تکمیل نہ ہوسکا ۔اسی طرح شیخ الہند نے پیرانہ سالی
میں علی گڑھ جاکر ایک عصری تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی
جو بعدازیں دہلی منتقل ہوگیا اور اس وقت ہندوستان کی معروف یونیورسٹیوں میں
سے ایک ہے ۔اس موقع پر حضرت کا خطبہ جو شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی
ؒنے پڑھ کرسنایا جس میں حضرت شیخ الہند ؒنے اپنے قلبی درد کادرماں کالج کے
نوجوانوں کو قرار دیا ۔
موجودہ زمانہ میں انگریزوں کی حکومت نہیں ہے ۔اور نہ ہی وہ حالات ہیں لہذا
سوال یہ ہے کہ مستشرقین نے اسلام پر ،بالخصوص حضورﷺ اور قرآن جو اعتراضات
کیے ہیں وہ سب کے سب انگریزی زبان میں ہیں ان کا جواب کون دے گا؟آج انٹرنیٹ
کو ہی لے لیا جائے جس پر غیرمسلموں ،عیسایی مشنریز نے جو شبہات اور
اعتراضات اسلام کے حوالہ سے پھیلائے ہیں ان کا نقد کون کریگا ؟جن لوگوں کی
مادری زبان انگریزی ہے ان کو دین اسلام کی دعوت کیسے دی جائے گی ۔؟
اگر مدارس کے دینی ماحول میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے دین سے بے تعلقی
ہوسکتی ہے تو پھرمیڈیکل کالجز،انجینئرنگ او ر زرعی یونیورسٹیز میں پڑھنے
والوں کے جتنے بھی سجیکٹ (مضامین) ہیں وہ سب کے سب انگریزی زبان میں ہیں
۔اور وہاں دینی مدارس کا ماحول بھی نہیں ہے ۔تو جتنے ڈاکٹر ،انجینئر
،ایگریکلچرسے وابستہ لوگ ہیں ان کا دین سے تعلق تو برائے نام ہوا۔تو ان کے
دین اور ایمان کی کون فکرکرے گا ۔؟اور اگر سارے ہی مدارس میں پڑھ کر عالم
وحافظ ومبلغ ومفسرومحدث بن (جوکہ ممکن بھی نہیں ہے )جائیں تو پھر دوسرے
میدان جن کاتعلق انسانیت کی خدمت سے ہے ان میں افراد کہاں سے آئیں گے ۔؟
حقیقت یہ ہے کہ اکابر نے جس وقت انگریزی کی تعلیم کو شامل نصاب نہیں کیا اس
دور کے حوالہ سے بالکل صحیح اور درست فیصلہ تھا اورآج کے اس دور میں جب
ویسے حالات نہیں ہیں تو ویسا ’’اصرار‘‘ بھی نہیں ہونا چاہیے ۔حضورﷺ نے جب
شراب کی’’ نفرت ‘‘دلوں میں علی وجہ المبالغہ بٹھانی تھی توشراب والے برتنوں
(حنتم،دبا ،مزفت،نقیر)کے استعمال سے بھی منع کیا مگر اہل علم نے لکھاہے کہ
اگر ایسے برتن آج کسی کے پاس ہو ں تو انہیں پاک وصاف کرکے استعمال کیا
جاسکتا ہے ۔اس لیے کہ وہ’’ علت‘‘ آج نہیں ہے ۔
اوراگر یہ کہا جائے کہ مدارس سے فراغت کے بعد جو انگلش سیکھنا چاہیں وہ
سیکھیں اس کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرتا ، مگرعملی طورپریہ ناممکن ہے جس
طالب علم نے آٹھ یا دس سال لگا دین کاعلم حاصل کیا وہ اس حاصل شدہ امانت کو
آگے منتقل کرنے کی بجائے پھر انگلش پڑھنا شروع ہوجائے، کئی لوگوں کی شادیاں
ہوجاتی ہیں وہ مزید نہیں پڑھ سکتے ،یا اگر پڑھ بھی سکتے ہوں تو ویسی
مغزماری نہیں کرسکتے جیسا کہ چھوٹی عمر کا سٹوڈنٹ کرتا ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ
اسلامی علوم سے بھی دوری ہوگئی اور دو چار سال جو انگلش سیکھنے میں لگائے
وہ بھی بیکار گئے ۔
آج ہم سب کی دلی خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام نافذ ہو ،کرپشن کاخاتمہ
ہو،لوگوں کے ان کے حقوق ملیں اور دوسری طرف ہم اپنے طلباء کو عصری تعلیم سے
دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھرخود ہی فیصلہ کیجیے کہ عصر حاضر میں جو ایجوکیشن
کا سسٹم رائج ہے اس میں صرف درس نظامی پڑھ کر توعدالتوں کا جج اور وکیل
نہیں بنا جاسکتا ،نہ ہی کوئی فوج یا پولیس میں بڑا عہدہ حاصل کیاجاسکتاہے
۔اگر ہم اپنے معاشرہ کو صحیح خطوط پر لانا چاہتے ہیں تو ہمیں تمام میدانوں
میں اپنے افراد کو تیار کرکے بھیجنا ہوگا اور جب وہ قوت (عہدہ )حاصل کریں
تو وہ میرٹ اور انصاف کو معیار بنا کرکام کریں تو یقینا انقلاب آئے گا۔آج
ہمارے فضلاء کو حکومتی ادار ے اہم پوسٹوں پرمتعین کرنے کے لیے تیار نہیں ،
اُن کے خیال میں اِن کے پاس مطلوبہ تعلیم نہیں ہے ۔وہ ہمارے نصاب تعلیم اور
نظام تعلیم کو بالکلیہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی ہم اپنے نصاب
تعلیم میں معمولی سی کمی وبیشی کرنے کوتیار ہیں تو درمیان میں جو خلیج اور
فاصلہ ہے وہ کیسے ختم ہوگا ۔اگر ہمارے فضلاء کرام درس نظامی کے ساتھ رائج
الوقت عصری نصاب تعلیم کو بھی پڑھ لیں تو ان کے لیے کوئی مشکل ہی نہیں ہے
اور نہ ہی پھر کسی کویہ کہنے کاحق حاصل ہوگاکہ آپ کے پاس مطلوبہ قابلیت یا
تعلیم یا ڈگری نہیں ہے اس لیے آپ سے معذرت کی جاتی ہے ۔
الخیرکی وساطت سے ایک اور ہم مسئلہ کی طرف اکابرین کی توجہ مبذول کرانا
چاہتا ہوں۔ ہزاروں کی تعداد میں ماشاء اﷲ ہرسال حفاظ اور علماء کرام فارغ
ہورہے ہیں ۔وہ علماء جو آٹھ یا دس سال لگاکر دین کا علم حاصل کرتے ہیں وہ
کہاں جارہے ہیں ؟ان کامستقبل کیاہے ؟بہت کم علماء ہیں جن کی کسی مدرسہ میں
درس وتدریس کی جگہ بنتی ہے یا کسی مسجد میں امامت ملتی ہے وہ جب عملی زندگی
میں آتے ہیں تو ان کے آگے بڑے مسائل کھڑتے ہوتے ہیں ۔ان میں ایک اہم
مسئلہ’’ رزق حلال‘‘ کا حصول ہے جب ان ان کو کہیں جاب نہیں ملتی ،پیٹ بھرنے
کے لیے جو کام ملتاہے اس کو مجبوری میں کرنا پڑتاہے توجس مقصد کے لیے اسے
عالم وفاضل بنایا گیا جب عملی ومعاشرتی زندگی میں اسے صحیح رخ پرکام کرنے
کا موقع ہی نہیں مل رہا تو پھر اس کے اوپر جو دس سال مدرسہ نے پیسہ خرچ کیا
اور اساتذہ نے محنت کی وہ کس کام آئی ؟اسے تو آٹھ سال نصاب پڑھانے کا مقصد
یہ تھا کہ وہ دین کی خدمت کرے گا ،مگر جس کا معاشی مسئلہ حل نہ ہوا تووہ
کیا دین کی خدمت کریگا؟ بلکہ بسااوقات فاقہ اور تنگی انسان کو حدیث ’’کا
دالفقر ان یکون کفرا ‘‘کے مطابق کفر تک پہنچا دیتی ہے ۔یا کفرتک نوبت نہ
بھی پہنچے تو مسلمان کی دینداری تو ضروری متاثر ہوتی ہے ۔یہ بات سب کو
معلوم ہے کہ ’’رزق ‘‘اﷲ تعالی نے عطا کرناہے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے
دنیا کانظام اسباب کے ساتھ باندھ دیاہے جن سے قطع نظر نہیں کی جاسکتی ۔اور
بہت سے فارغ التحصیل حضرات جب کہیں جگہ نہیں ملتی تو اپنا مدرسہ بنا لیتے
ہیں اور اس پر زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے ارباب نظر جانتے ہیں کہ
کیا ہورہاہے کون کتنا کام کررہاہے ۔اور کتنا دوسرے اور بڑے مدارس کی حق
تلفی کررہاہے ۔
ہمیں ان فارغ التحصیل علماء کے مستقبل کے حوالہ سے بھی ہمیں کوئی لائحہ عمل
تشکیل دینا ہوگا ۔کہ فراغت کے بعد ان کو کس میدان میں بھیجا جائے اور جو آج
تک مختلف مدارس سے سند فراغت حاصل کرچکے ہیں وہ کیا کررہے ہیں تاکہ پتہ چلے
ہمارے دینی مدارس سے نکلنے والے کتنے فیصد خالص دین کا ہی کام کررہے ہیں
اور کتنے دوسرے کاموں میں مشغول ہوئے او ر اس کی وجہ کیاہے ؟
یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم تو ’’درویش ‘‘اور ’’فقیر‘‘تیارکرتے ہیں۔ایک
بزرگ نے بڑی اچھی با ت کی کہ اس قسم کے نعرے وہی لوگ لگاتے ہیں جن کی
تجوریاں مال ودولت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں اگر انہیں تین دن کھانے کوروٹی نہ
ملے تو یہ سب ذکر واذکاراور فقرودرویشی کو بھول جائیں ۔اور عجیب بات یہ کہ
اکثر ’’درویشی ‘‘اور ’’فقیری‘‘کا نعرہ بلند کرنے والے وہ لوگ ہیں جو کسی
مذہبی پروگرام میں محض اس وجہ سے شرکت نہیں کرتے کہ اشتہار میں ان کا اکیلا
،بڑانام نہیں تھا ؟یاان کے مجوزہ پریس سے اشتہار نہیں چھپوائے گئے یا ان کو
منہ مانگا ’’ہدیہ‘‘نہیں دیا گیا ۔یا ان کو لینے کے لیے جو گاڑی بھیجی گئی
وہ چھوٹی تھی اس میں ہجکولے لگنے کااندیشہ تھا ۔حالانکہ یہ لوگ بھی مدارس
کے ہی فارغ التحصیل ہیں جنہوں نے کسی یونیورسٹی سے کچھ نہیں پڑھا تو ان کے
اپنے اس طرز عمل میں تضاد کیوں ہے ؟ان کی دین کے ساتھ بے تعلقی کیوں ہے ؟اس
کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے ۔معلوم ہوا محض
انگریزی پڑھنے سے انسان دینداری سے محروم نہیں ہوتا بلکہ اس کے اسباب اور
بھی ہیں ان میں ایک اچھے مربی کی صحبت سے محروم ہوناہے ۔
اﷲ جزائے خیر دے ان علماء کرام کو جن کی کوششوں سے بی اے /بی ایس سی تک
اسلامیات لازمی مضمون کے طور پر شامل نصاب ہے ۔جوکہ مختصراورجامع ہے مگر جب
پڑھانے والے کااپنا عقیدہ صحیح نہ ہو تووہ کیاطلباء کی دینی و اخلاقی تربیت
کرے گا ۔؟اسلامیات پڑھانے والے ایسے بھی لوگ ہیں جو واضح اپنی گفتگومیں
کہتے ہیں کہ ’’دجال‘‘کا ایک فرضی کردار ہے جس کوبادشاہوں نے اپنی رعایا کو
ڈرانے کے لیے گھڑا ،کوئی دجال نہیں ہے اور نہ کسی نے آناہے ؟اور نہ ہی حضرت
عیسی ؑ نے آنا ہے ؟جو اس قسم کے خیالات نہ صرف یہ کہ رکھتاہے بلکہ آگے بھی
پھیلارہاہے تو خود اندازہ کریں وہ کتنا ظلم کررہاہے ؟ایک اور پروفیسر صاحب
کہنے لگے دین میں قربانی کرناکہاں ہے ،یہ مولویوں نے کھالیں وصول کرنے کے
لیے بنالیاہے ،اور اس کانقصان یہ ہے کہ عیدالاضحی کو گٹر بند ہوجاتے ہیں
۔وغیرہ(نعوذ باﷲ) تو ان حالات میں ضرورت ہے کہ عصری اداروں میں ہمارے فارغ
التحصیل جید علماء جائیں اور کام کریں ۔مگر چونکہ انہوں نے صرف درس نظامی
پڑھا ہوتاہے اس لیے ان اداروں تک ان کی رسائی نہیں ہوتی ۔اور یہ بات اہل
علم جانتے ہیں کہ خواہ کوئی ڈاکٹر بنے یا انجینئر،زرعی علوم کا ماہر یا
انگلش لڑیچر میں ماسڑ کرنے والا وغیرہ ان سب کے لیے ایف اے،ایف ایس سی ،بی
اے ،بی ایس سی تک اسلامیات کی تعلیم لازمی ہے ۔اگر ان اداروں میں اسلامیات
پڑھانے والا خو دصحیح العقیدہ ہو تو اس کا کتنا فائدہ ہوسکتاہے یہ ارباب
علم ودانش جانتے ہیں ۔آخری بات یہ کہ ہمارے درس نظامی کے نصاب تعلیم میں
شامل کتب عصر ی مضامین سے ادق اور مشکل ہیں جب طلباء ان کو پڑھ لیتے ہیں تو
ان کے لیے عصری مضامین آسان ہوجاتے ہیں ۔مثلا میڑک کے بعد جو درس نظامی
پڑھنے کے لیے آیاتو اس کو ’’ایف اے‘‘میں صرف انگریزی کی ٹیویشن پڑھنی ہوگی
،باقی جتنے بھی مضامین ہیں اردو،عربی ،اسلامیات لازمی،اختیاری وغیرہ وہ تو
اس کے لیے بالکل مشکل نہیں ہیں ۔اوراسی طرح’’بی اے‘‘میں بھی صرف انگریزی کی
ٹیویشن پڑھنی ہوگی باقی سجیکٹ وہ خود پڑھ سکتاہے ۔اور ایم اے اسلامیات اور
ایم اے عربی میں جو سلیبس شامل ہے وہ ہمارے فارغ التحصیل کے لیے بالکل سطحی
او رسرسری ہے ۔اگر درس نظامی کی کلاسز کو ساٹھ منٹ کی بجایٔے پچاس منٹ کا
کرکے صرف ایک پیڑیڈ روزانہ انگلش پڑھائی جائے توسوچیے آٹھ سال کے بعد جو
طالب علم فارغ ہوگا اس میں کتنا نکھار پیدا ہوگا ۔اور وہ معاشرہ کے رحم
وکرم پر نہیں ہوگا ۔اور نہ ہی اس میں کوئی احساس کمتری ہوگا ۔ |