اگر آپ کے اپنے گھر میں بچے
بھوکے ہوں اور اس کا احساس بھی آپ کو ہو اور بحیثیت والد اپنی غلطی کو بھی
مانتے ہو لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود صرف اپنے نام کیلئے اور لوگوں کو
دکھانے کیلئے آپ بڑی بڑی پارٹیاں منعقد کرتے ہوں تو اس طرح کے اقدام کو
کرنے والے شخص کو کوئی بھی پاگل کہے گا کہ اپنے گھر میں بچے بھوکے ہیں لیکن
صرف ستائش یا نمود و نمائش کیلئے آپ پارٹیاں منعقد کرتے ہواور فضول خرچی
کرتے ہوںتو یہ کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہوگا لیکن ہمیں اس صورتحال کا
سامنا ہے ہمارے گھروں میں روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی
ہیں ہر گھنٹے بعدایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ پشاور شہر اور مضافات میں
جاری ہے اور اس سے بدتر صورتحال اس موسم سرما میں شہر کے مختلف دیہاتی
علاقوں میں بھی ہے جہاں پر لوگ بجلی کو ترس گئے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ
عید میلاد النبی پر ہر سرکاری عمارت پر لاکھوں روپے کی برقی قمقمے لگائے
گئے کرائے پر ان عمارات پر لگائے جانیوالے برقی قمقوں کو ادائیگی مختلف
اداروں کو کرنی پڑے گی وہیں پر ان کے روشنی کیلئے استعمال ہونیوالی بجلی کی
ادائیگی بھی صوبے کے مختلف اداروں کو کرنی پڑیگی- ایک ایسے ملک میں جہاں پر
مہنگائی کی صورتحال ایسی شرح پر پہنچ گئی ہو کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے
والے لوگ اپنے بچوںکیلئے ایک وقت کا خوراک پیدا کرنا عذاب بن گیا ہو اور
لوڈشیڈنگ نے ان کی زندگی اجیرن بنادی ہو ان حالات میں حب رسول کے نام پر اس
طرح کی عیاشی کس کھاتے میں جائیگی یہ وہ سوال ہے جو اس ملک کا ہر شہری عوام
اپنے اوپر مسلط ہونیوالے حکمرانوں سے کرنا چاہتا ہے کہ آخر انہیں کس چیز کی
سزا دی جارہی ہیں کیا حب رسول کا تقاضا صرف یہی رہ گیا ہے-
صرف ایک ہفتہ قبل پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر جن کے اپنے حلقے
میں بجلی چوروں کی تعداد کم نہیں اور صرف انہی کے حلقے کی فیکٹریوں کیلئے
کرک سے نکلنے والے گیس کو سپلائی کیلئے صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کو
سولی پر لٹکایا جارہا ہے کیونکہ صوبائی حکومت اس گیس پلانٹ کوبجلی پیدا
کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے تاہم وفاقی حکومت کو صرف صوبہ پنجاب ہی
نظر آرہا ہے اسی وجہ سے انہوں نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اس منصوبے
کے بجائے گیس کی سپلائی جاری رکھی جائے تاکہ وہاں پر کارخانے چلتے رہے اور
یہاں کے شہری خوار ہوتے رہیںپنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیر جن کی سب سے بڑی
خوبی صرف وزیراعظم سے رشتہ داری ہے اور اسی قربت کی بناء پر وزیر مملکت
بنادئیے گئے پیسکو ہیڈ کوارٹر میں آکر صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کو بجلی
چور کہہ گئے جواب میں یہاں سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وزیر ان کے حلقے
میں جا کر جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ساتھ ہی وہاں پر اسے بجلی چور
کہہ دیا- بجلی چور وں کا تعلق پنجاب سے ہو یا خیبر پختونخواہ سے اس کا سارا
زور غریب عوام سے نکل رہا ہے خواہ وہ کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں لیکن
کیا ایک دوسرے کو چور قراردینے والے دونوں وزیر حب رسول کے نام پر سرکاری
عمارات پر لٹکائی جانیوالے غیر ضروری برقی قمقموں اور اس کی آڑ میں
ہونیوالی کرپشن کی روک تھام کیلئے اپنے طور پر کچھ کرسکیں گے یا
نہیں-کیونکہ اس کے کنٹریکٹ بھی مخصوص لوگوں کو ملتے ہیں جس کیلئے باقاعدہ
کمیشن مختلف اداروں کے سربراہوں کو ملتے ہیں اور اس کا سارا زور اس ملک کے
عوام سے نکلتا ہے خواہ وہ ٹیکس کی صورت میں ہو یا بڑھتی ہوئی مہنگائی کی
صورت میں-
کیا اس ملک کے عوام اتنے ہی بے وقوف ہیں کہ اپنے اور اپنے بچو ں کیساتھ
ہونیوالی اس زیادتی پر اٹھ نہ کھڑے ہوں لیکن حقیقت میں ہمارے ہاں یہ تاثر
عام ہے کہ حکومتی اداروں پر لگنے والے اخراجات حکومت ہی ادا کرتی ہیں
حالانکہ یہ عوام کے پیسے ہوتے ہیں جسے حکمران ٹیکس سمیت مختلف ڈراموں کی آڑ
میں شہریوں سے وصول کرتی ہیں لیکن عوام کی لاپرواہی سے برقی قمقموں سے
دیواریں سجانے جیسے پروگراموں پر خرچ کئے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا
نہیں ہوتا-
کیا ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ والہ وسلم نے ہمیںاسلامی تعلیمات
سے آگاہ نہیں کیا اور اگر کیا تھا تو کیا یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ فضول
خرچی اسلام میں نہیں کیا بحیثیت امت محمدی کی ہر ایک شہری حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ والہ وسلم کے احکامات پر عملدرآمد کررہا ہے کیا ہم میں برداشت کا
مادہ ہے کیا ہم اپنے کاروبار جھوٹ منافقت پر نہیں چلا رہے کیا بحیثیت شہری
اور بحیثیت ریاست کے ہمارے پڑوسی ہم سے مطمئن نہیں کیا ہم دوسروں کا حق مار
کر خوش نہیں ہوتے ان حالات میںصرف برقی قمقمے لگا کر خوبصورت آواز میں نعت
سنواکر ہم منافقت نہیں کررہے کہنے کو تو عیدمیلاد النبی کے موقع پر سب کچھ
حب رسول میں کیا جاتا ہے لیکن یہ کیسا حب رسول ہے جس میں اللہ کے پیارے نبی
کے کردار پرعمل کرنے کے بجائے صرف واہ واہ کی جائے اور اسی کو اپنے لئے راہ
نجات سمجھا جائے -کیا یہ ظلم نہیں بالکل یہی ظلم ہے جو بحیثیت شہری ہم اپنے
ساتھ کررہے ہیں اور ہمارے اوپر مسلط حکمران بھی کررہے ہیں-
|