دست جفا کش

حضرت محمد ﷺصحابہ کرام کے درمیاں تشریف فرما تھے ۔معروف صحابی عبداﷲ بن ابیہ ہاتھ میں پانی کا ٹکورہ لئے خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور ﷺکی خدمت میں پیش کیا۔آپ ؑجب پانی نوش فرما رہے تھے کہ عبداﷲ بن ابیہ نے آپ ؑ سے درخواست کی کے براہٗ کرم جو پانی بچے مجھے عنائت کر دیجئے ۔۔۔ میں وہ پانی اپنے والد محترم کو پلانے کا خواستگار ہوں کہ اس عمل سے شائد اﷲ راب العزت ان کی بخشش فرما دے ۔آنحضرتﷺ نے ٹکورے میں کچھ پانی رہنے دیا جو حضرت عبداﷲ ؓبن ابیہ اپنے ساتھ لے کر گھر روانہ ہوگئے۔گھر پہنچ کر آپؓ نے وہ پانی اپنے والد محترم کو پیش کیا ۔ان کے استفسار پر آپ نے انہیں بتایا کہ یہ وہ پانی ہے جسے آنحضرت ﷺ کے پاک ہونٹوں نے چھوا ہے براہ ء کرم آپ اسے پی لیجئے ۔یقینااس کی بدولت اﷲ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائیں گے۔تو اس سنگدل شخص نے جواباً یہ کہا !

’’اگر تو مجھے کہیں سے پیشاب لا کر دے تو میں وہ پی لوں گا مگر محمدؑ بن عبداﷲ کا چھوا پانی کبھی نہ پیوں گا‘‘

اس واقعے سے کچھ عرصہ بعد ابیہ کا انتقال ہو گیا۔تو عبداﷲ بن ابیہ کی درخواست پر آپ ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک عنائت کیا تا کہ اسے اس میں لپیٹ کر دفنائیں ۔شائد اس کی مغفرت ہو جائے۔اﷲ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی اور کہا گیا کہ اے محمدﷺ اس کی مغفرت پھر بھی نہ ہو سکے گی۔۔۔اور جب اس کی نماز جنازہ پڑھانے کا وقت قریب آیا تو یہ یقینی تھا کہ کوئی ایک شخص بھی نہ آتا لیکن سرور انبیاء محمد مصطفی ﷺ پھر بھی اس شخص کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے روانہ ہوئے تو وحی نازل ہوئی کہ اے محمد ﷺآپ ؑ اگر ۷۰ مرتبہ بھی نماز جنازہ پڑھا لیجیے میں پھر بھی اسے معاف نہیں کروں گا۔۔۔اس کے باوجود آپؑ وہاں تشریف فرما ہوئے اور آپ ؑ کے باعث اور بھی لوگ وہاں آپہنچے، تو جب نماز جنازہ کے لئے صف بندی ہو نے لگی تو فاروق اعظم حضرت عمرؓابن خطاب کھڑے ہو گئے اور فرمایا ! کہ جناب حضرت ﷺ آپ ؑاپنے آپ کو اس منافق و دشمن اسلام کی نماز جنازہ پڑھانے سے روک لیجئے تو جانب محسن انسانیت حضرت محمد ﷺنے ارشاد فرمایا !بلا شعبہ اس شخص نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا اور مجھ سے اﷲ باری تعالیٰ نے متعدد مرتبہ فرمایا کہ میں اسے معاف نہیں کروں گا لیکن اﷲ تعالیٰ نے ایک مرتبہ بھی مجھے یہ نہیں کہا کہ میں اس کے لئے دعا نہ کروں ’’سبحان اﷲ ‘‘یہ سنتے ہی تمام صحابہ کرام اور مومنین خاموش ہو گئے اور پھر آنحضرت محمدﷺ نے اس کی نماز پڑھائی اور جب اسے دفنانے لگے تو آپؑ نے اچانک لوگوں کو متوجہ کیا اور رکنے کا اشارہ کیا ۔۔۔پھر لوگوں کے درمیاں سے راستہ بناتے ہوئے میت تک تشریف لے گئے اور اس کے چہرے سے کفن ہٹانے کا حکم دیا اور پھراپنے ہاتھ سے اپنی ’’ لہب‘‘ مبارک کو اس کے ہونٹوں سے لگایا اور اس کی بخشش کی دعا کی۔۔۔’’سبحان اﷲ‘‘ یہ ہے کردار ہمارے’’ غرور‘‘ ہمارے نبی آخرزماں حضرت محمد ﷺجنہیں’’رحمتہ الاالعلمین ‘‘کہتے ہیں ۔آپؑ کے اسی کردار کو دیکھتے اسی وقت ایک سو سے زائد منافقین نے کلمہ حق پڑھا اور حلقہ ء اسلام میں داخل ہوئے۔’’سبحان اﷲ‘‘

دنیا میں منافق تو کئی آئے اور گئے لیکن منافقت کا ایسا معیاراور وہ سطح کہ اﷲ راب العزت اپنے محبوب ؑ سے بارہا کہے کہ میں اسے معاف نہیں کروں گا تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ اس شخص نے کس قدر فساد برپا کیا ہو گااور اﷲ کی مخلوق کو کس قدر پریشان کیا ہو گا، کے جسے لوگ’’ ریئس المنافقین ‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔اور اس ساری کہانی میں جو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ اﷲ باری تعالیٰ بڑے سے بڑا کبیرہ گناہ تو معاف کر دیں گے لیکن منافقت جیسا غلیظ گناہ کبھی معاف نہ ہو گا ۔

ہمارے دیس کی تاریخ سرفروشی سے مذئین ہے لیکن بد قسمتی سے وطن فروشی ومنافقت کا پلڑا ’’کچھ بھاری ‘‘رہا ہے ،اگر ماضی کے دریچوں سے جھانکنے کی کوشش کریں تو ۱۵۵۶ سے باالعموم اور ۱۹۴۷ سے باالخصوص منافقین کی ایک طویل ترین فہرست ملتی ہے جو ایک زمانے سے دیس باسیوں کے ساتھ منافقت و رعا کاری کرتے رہے ہیں۔جن کی بدولت ہم صدیوں سے غلام و کسمپرسی کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے دیس میں اﷲ رب العزت نے جو عطاء کیا وہ ہماری ضروریات سے کہیں زیادہ ہے لیکن طویل غلامی کے دلدل میں پھنسے دیس باسی تعلیم و سیاسی شعور سے محروم رہے اور حالیہ صدی میں جب حالات نے کروٹ بدلی، تب سے اس دیس کو ایک بار پھرایسے ہی خطرناک منافقین کا سامنا کرنا پڑھا جو آزادی کے نام پر ۶۶ برسوں سے منافقت کرتے چلے آرہے ہیں ان میں ایسے نام بھی ہیں جنہیں ان کے ہمعصروں نے منفرد و مختلف خطابات سے نواز ہ ہے ۔اور آج بھی ان کی برسیاں منائی جاتی ہیں اور ان کے مزاروں پہ دئیے جلائے جاتے ہیں۔کچھ اس جہاں فانی سے گزر چکے کچھ تیار بیٹھے ہیں اور آئے روز ان کی صحت یابی کے لئے دعاؤں کی التجا کی جاتی ہے۔اور ان کے لئے بہت لوگ دعائیں بھی کرتے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ برسہا برس سے اس دیس کے لوگ جس کرب میں مبتلا ہیں تین نسلیں لاشے اٹھاتے گزر گئیں۔۔۔ ختم ہو چکیں اور اب بھی ہر زی روح اس امر سے بے بہرہ ہے کہ لاشوں کا یہ بیوپار کب تلک جاری رہے گا ۔دنیا بھر کے وسائل و زرائع ہونے کے باوجود لوگ نسل در نسل غیر ممالک میں زلیل و رسوا ہو رہے ہیں ۔۔۔چھ لاکھ شہداء جو بے شک خالق دو جہاں کی تخلیق تھے منافقت کی بھینٹ چڑھے۔ ہزارہا عصمت مآب بیٹیاں جن کی عصمتیں تار تار ہوئیں ، لاکھوں مائیں جنہوں نے اپنے جواں بیٹے قربان کئے یا پردیسوں میں بھیج کر بے اولادوں کی زندگی گزاری ،وہ باپ جنہیں آخری عمر میں بیٹے کے کندھوں کی ضرورت ہوتی ہے کو ان کے جنازے اٹھانے پڑھے ۔وہ لاکھوں بچے جو یتیم ہوئے اور وہ عورتیں جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے خاوند زندہ ہیں یا مر گئے یقینا ان تمام لوگوں کا خالق ان کی قربانی کواپنے زاتی مفادات و پر آسائش زندگی کی خاطر تہہ و تیغ کرنے والے منافقین کو کبھی معاف نہ کر ے گا۔

بے شک ان کی شان میں کتابیں لکھی جائیں،کالم و ادارئیے لکھیں جائیں ،انہیں مختلف قومی ہیروز کے جیسے القابات سے نوازہ جائے ، انکے مقبرے بنیں ان کی برسیاں منائی جائیں ،بے شک ان کے مزاروں پہ دئیے جلائے جائیں ،بے شک ہزاروں لوگ ان کے جنازوں میں شریک ہو جائیں بے شک فیس بک پر ان کے لئے ’’آمین آمین ‘‘سے پیج بھر دئے جائیں اور بے شک پوری دنیا میں موجود ایک ارب پچاس کروڑ مسلمان یک زبان ہو کر سالہا سال بین کرتے رہیں تب بھی اﷲ رب العزت اس دیس کے مجبور و لاچارلوگوں سے ’’آزادی ‘‘ کے نام پرمنافقت کرنے والوں اور لفظ ’’کشمیر‘‘ کی تجارت کرنے والوں کی بخشش نہیں فرمائے گا جس کا ثبوت یہ ہے کہ اﷲ پاک نے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کے باربار دعا کرنے پر یہی فرمایا کہ اے محمد ﷺ آپ جتنا چاہیں دعائیں کر لیں میں اس منافق’’ ابیہ‘‘کو معاف نہیں کروں گا۔اس لئے منافقین کی بخشش کی دعائیں کرنے والے یہ جان لیں کے اﷲ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا ۔اس لئے ان کے لئے دعائے خیر کے بجائے اﷲ سے انصاف کی دعا کیجئے۔کیوں کے یہ قوم کے مجرم بخشش کے قابل نہیں ہیں ۔اور یہی دیس کاوہ زہر یلہ طبقہ ہے یہی وہ ظالم و جفا کش ہاتھ ہے جس کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے یہ کہا تھا ۔۔۔
توڑ اس دست جفا کش کو یا رب جس نے
روح آزادی کشمیر کو پامال کیا
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 87862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.