سیرت کا پیغام اور ہمارا رویہ

جب یہ کالم لکھنے بیٹھاتو ملک بھر میں رسولِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شیدائی جشن میلادالنبی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔جا بجا جلسے اور جلوس نکالے گئے۔ میلاد کی محفلیں منعقد ہوئیں، کھانے تقسیم ہوئے، اخباروں نے سیرت کو موضوع پر مضامین شائع کئے اور اشتہارات بھی چھپے۔مگرجس ہستی اعظم سے ہم عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اس کی تعلیمات و اسوہ میں اور ہمارے اظہار کے طریقے میں زبردست تضاد نظرآیا۔عید میلادالنبیؐ کے جلوسوں وہ تمام خرافات نظر آئیں جودیگر جلوسوں میں نظرآتی ہیں ۔ اسلام نے ہمیں اظہار مسرت کے جو طریقے سکھائیں ہیں، ان کی طرف کوئی توجہ نظر نہیں آئی۔ یہ خطا ہماری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں۔

اخباروں کا حال یہ ہے کہ جس صفحہ پر سیرت پر بڑاسا مضمون ہے، اسی کی بغل میں گھسا ہوا ایک بڑاسا اشتہار لگا ہے جس میں ایک خاتون نیم عریاں نظرآتی ہیں۔ سیرت النبی کی مبارکبادی کے اشتہارات جن اہل ثروت طرف سے معہ فوٹوشائع ہوئے ہیں ان کے چہروں پر سنت رسول کی رمق تک نظر نہیں آتی۔ افسوس کہ ہم نے سیرت رسولؐ کو بھی تجارت اور شہرت کا موضوع بنا لیا۔ چنانچہ جی چاہا کہ آج اسی موضوع پر کچھ معروضات پیش کی جائیں۔؂شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات۔

سیرت رسول کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فضائل ہیں ، دوسرا آپ کا ’اسوہ حسنہ‘ جن کا بیان اکثر مجلسوں میں ہوتاہے اور ایمان کو تازہ کرتا ہے۔ہم آپ ﷺ کی ذات والا صفات سے غیر معمولی عقیدت اور محبت کے اظہار کا ہے،جو ہمارے لئے وجہ نجات ہے۔ مگر اس اظہار کا تقاضا یہ ہے ہم آپ کے احکامات کونظرانداز نہ کریں ۔ افسوس کہ اس موقع پر جلسہ وجلوس اور شب بیداری میں اس بات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ دوسروں کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ ہم ایک مشترکہ معاشرے میں رہتے ہیں۔ اس میں ہمارا کوئی ایسا کام جس سے دوسروں کو آزار پہنچے لوگوں کے دلوں میں تکدر پیدا کرتا ہے حالانکہ ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم رسول رحمت کی تعلیمات کو عوام تک پہہچائیں۔ اظہار عقیدت میں یہ پہلو اکثر ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔

آپ کے فضائل کا بیان بڑا ہی مبارک ہے مگر دوسرا پہلو بھی نہایت اہم ہے جس کو قرآن نے ’اسوہ حسنہ‘ کہا ہے اور فرمایا ہے: ’رسول کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔‘آج امت مسلمہ مشکل حالات سے گزررہی ہے۔ یہ آزمائشیں نئی نہیں ہیں۔ خود رسول اﷲ ؐاپنی حیات مبارکہ میں سخت مخالفتوں اور آزمائشوں سے گزرے اور کامیابی کی ایسی منزل پر پہنچے جس کی کوئی مثال تاریخ عالم میں نہیں ہے۔ ہمارے لئے قرآن کا حکم ہے کہ ہم اپنے مسائل کا حل آپ کے نمونہ میں تلاش کریں۔

آج ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ، دیگر مذاہب اور مسالک والوں کے ساتھ امن و عافیت سے کس طرح رہا جائے؟ایسی ہی صورت کا مقابلہ میں رسول اکرم ؐ کومکی دور میں ہوا۔ اہل مکہ نے اس وقت ایک فارمولہ پیش کیا اور کہا کہ دو شکلیں ہیں۔ ایک یہ کہ دنوں کی تقسیم کرلیں۔ ایک دن ہم آپ کے اﷲ کی عبادت کریں اور ایک دن آپ ہمارے خداؤں کی پوجا کریں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ ہم بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کے ساتھ آپ کے اﷲ کی عبادت کریں اور آپ بھی اپنے اﷲ کے ساتھ ہمارے خداؤں کی پوجا کریں۔ آج ہم سے بھی یہی مطالبہ کیا جارہا ہے۔ نماز روزہ تو کرلو مگر مسجد سے باہر نکل کراﷲ کے احکام کو بھول جاؤ۔

اس پس منظر میں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ قل یا ایھا الکٰفرون نازل فرمائی اور یہ بات پیش کی کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم توحید کا دعوا تو کریں مگر زندگی مشرکانہ طریقہ سے گزاریں۔ اﷲ کے احکام صرف مسجد کے لئے نہیں، ہماری پوری زندگی کے لئے ہیں۔ البتہ اﷲ کے دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں۔ فرمایا: لا اکراہ فی الدین۔مشرکین سے کہا گیا اگر آپ توحید پر مطمئن نہیں تو آپ اپنے مذہب پر عمل کریں اورہم اپنے مذہب پر عمل کریں۔ آپ اپنے دین پر اپنے مسلک پر قائم رہیں اور ہم اپنے دین اور مسلک پر قائم رہیں۔ ایک کثیر مذہبی اور کثیر مسلکی معاشرہ میں، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں،پرامن بقائے باہم کے اس اصول کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جہاں اس اصول سے انحراف ہورہا ہے، چاہے وہ خالص مسلم معاشرہ ہی کیوں نہ ہو، خرابی پیداہورہی ہے۔ اس خرابی کو دورکرنے کے لئے ہمیں آپ کے اس اسوہ مبارکہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے۔ آج امت میں انتشار کی بڑی وجہ اپنے مسلک پر تشدد اصرار ہے، جس کے اسوہ نبوی سے نفی ہوتی ہے ، چنانچہ یہ اصرار اور اس کی بنیاد پر تشدد کو عین اسلام گرداننا گمراہی ہے۔
پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو ’میثاق مدینہ‘ کے نام سے معروف ایک معاہدہ کیا جس میں طے ہواکہ تمام لوگوں کو اپنے مذہب پر چلنے اپنے مذہبی اعمال انجام دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ ایک دوسرے کے معاملہ میں دخل نہیں دیں گے، لیکن اگر مدینہ پر باہر سے کوئی حملہ ہوگا تو سب مل مقابلہ کریں گے۔ آپ غور کریں کہ آج دنیا میں مختلف مذاہب ، زبانوں اور مختلف نسلوں کے لوگوں کو ایک ساتھ رہنے کے لئے جس فارمولے پر زور دیا جا رہا ہے ،وہی ہے جو جناب محمدؐ نے پیش فرمایا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔ اسی اسوہ کی روشنی میں ہمیں اپنے دوسرے مسلک کے کلمہ گو بھائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بر ادر ان وطن کے ساتھ اپنے تعلقات کی بنیاد رکھنی چاہئے۔

رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے مذہبی اقلیتوں کا تصور نہیں تھا۔ ہرسلطنت کا اپنا ایک مذہب ہوتا تھا۔ تمام لوگوں کو اس مذہب کے مطابق زندگی گزارنی پڑتی تھی۔ اگر کہیں اکا دُکا کسی دوسرے مذہب کا آدمی رہ جائے تو وہ اپنے مذہب پر کھلے عام عمل نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن آپؐ نے اقلیتوں کے حقوق کیمستقل قانون کا تصور دیا۔ آپ ؐنے غیر مسلموں اور اقلیتوں کے بارے میں فرمایا’ان کاخون ہمارے خون کی طرح ہے، ان کے اموال ہمارے اموال کی طرح ہیں اور ان کی عزت و آبرو ہماری عزت و آبرو کی طرح ہے۔‘‘

آپ ؐنے فرمایا کہ کسی مسلم ملک میں کسی اقلیت کے ساتھ زیادتی ہوتو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے فریق بن کر کھڑا ہوں گا۔ آپﷺ نے تعلیم دی کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھا جائے۔مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دنیا بھر سے چاہتے ہیں کہ ہمارے مذہبی جذبات کا لحاظ رکھا جائے اور خود ہم اس معاملے میں سخت لاپرواہ ہیں۔ اسلام دوسروں کی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں اﷲ کے سوا کسی اور کی خدائی کا تصور نہیں ہے۔ لیکن قرآن نے کہا ہے کہ جن دیوی ویوتاؤں کی ہمارے غیر مسلم بھائی پوجا کرتے ہیں، اُن کو برا بھلا نہ کہو ۔مگر ہمارا حال یہ ہے مسلکوں نے ہمیں اتنا اندھا کردیا ہے کہ ایک دوسرے کے علماء اور بزرگوں کا بھی احترام نہیں کرتے یہاں تک کہ صحابہ کرام علیہم اجمعین ، مفسرین قرآن اور فقہائے کرام کو بھی ہم نے بانٹ لیا اور ایک دوسرے کے تحقیر و تذلیل کو اپنے لئے جائز کرلیا ہے۔ حالانکہ علم کسی ایک مسلک کی میراث نہیں۔

آپﷺ نے عیسائی قبیلہ بنو نجران سے معاہدہ کیا اور اس بات کو قبول کیا کہ ان کو اپنے مذہبی تہواروں کے منانے کی اجازت ہوگی۔اُن کو صلیب کا جلوس نکالنے کی اجازت ہوگی۔ ان کو اپنی عبادت گاہیں رکھنے کی اجازت ہوگی۔لیکن ہمارے اکثریتی ممالک میں کیا ہورہا ہے؟ شرک ہمارے لئے مہلک ہے،لیکن جو لوگ ایمان کے دائرے میں نہیں آئے ہیں،ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے حقوق کی بھی رعایت کریں۔

معاشرتی معاملات
سماجی زندگی میں مردوں اورعورتوں کے حقوق کا مسئلہ ہمیشہ زیر بچت رہا ہے۔ اسلام نے ۱۴صدی قبل عورتوں کوجو مقام دیا ،اس کو آج نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس زمانہ میں ایر ان اور روم کے وہ فلا سفر جن کا نام مغربی مصنفین اور مفکرین بہت فخر کے ساتھ لیتے ہیں،اس بات پر بحث کررہے تھے کہ عورت کے اندر انسان کی روح ہے یا حیوان کی۔ جو ان میں اچھے ذہن کے سمجھے جاتے تھے ان کی رائے یہ تھی کہ عورت کے اندر انسان اورجانور کے درمیان کی روح ہوتی ہے۔مگرقرآن نے اعلان کیا ، اے لوگوً اﷲ سے ڈرو، جس نے تم کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور تمہارے جوڑے بنائے۔‘ (سورہ نساء) یعنی عورتوں اور مردوں میں ایک ہی روح ہے۔ یہ دو الگ الگ جانیں، دو الگ الگ روحیں نہیں ہیں۔ آپ نکاح کے خطبہ میں اس آیت کو ہمیشہ سنتے ہیں ،لیکن کبھی اس کی روح پر غور کیجئے۔ آج پوری دنیا میں مردوں اور عورتوں کے مسائل کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا کہ دو پارٹیاں ہیں لیکن قرآن یہ کہتا ہے کہ مرد عورت دو پارٹیاں نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا پارٹ ہیں، حصہ ہیں۔ آدمی کی طبیعت میں اپنے سے مخالف پارٹی کے مقابلہ میں تنگی ہوسکتی ہے لیکن اپنے ہی جسم کا اگر کوئی پارٹ ہو،خواہ وہ بے جان ناخن اور بال ہی کیوں نہ ہو، اس سے بھی انسیت ہوتی ہے، اس کو بھی بنا سنوار کر اپنی زینت بناکر رکھتا ہے۔اسلام نے عورت اور مرد کے رشتے کی بنیاد ایک روح اور آپس کے محبت پر رکھی۔ عورتوں کو جو حقوق دئے اسلام سے پہلے کسی مذہب نے نہیں دئے تھے۔جب پہلی بار قرآن نے عورتوں کو میراث کے حق کا اعلان کیا تو عربوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ کیونکہ وہ تو عورتوں کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے، لیکن قرآن نے عورتوں کو میراث میں حصہ دیا اور بہت سے رشتہ دار تو ایسے ہیں، ان میں خواتین رشتہ دار زیادہ ہیں، جو کبھی حق میراث سے محروم نہیں ہو سکتیں۔یہ اسلام کاتصور ہے۔لیکن یہ حکم اس لئے نہیں کہ ہم مواعظ میں ان کو بیان کردیں، قرآن کی آیتوں میں سن لیں، بلکہ اس لئے ہیں جس طرح نماز روزہ فرض ہے ، اسی طرح عورتوں کی میراث میں حصہ دینا بھی فرض ہے ، جس کی طرف سے بہت لاپرائی برتی جارہی ہے اور ہماری تباہی کا ایک سبب اﷲ کے اس حکم کی نافرمانی بھی ہے۔اب دنیا یہ مان رہی ہے کہ عورتوں کو میراث میں حق ملنا چاہئے۔ اسی طرح حضورﷺ سے پہلے طلاق کا تصور نہیں تھا۔عیسائیوں ، یہودیوں اور ہندؤں میں طلاق نہیں تھی، مگر اب طلاق کو بھی قبول کیا جانے لگا ہے۔ یہ اسلام کا ہی فیض ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی کہ طلاق اور نکاح کے بارے میں جو سنت طریقے ہیں، ہم نے ان کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ نکاح آسان کرنے کا حکم ہے، اس کو مشکل بنادیا اور طلاق کا جو طریقہ قرآن میں بیان گیا ہے اس کو بالکل بھلادیا گیا ہے۔ اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

سیرت رسولؐ کے یہچند اہم پہلو ہیں۔ ایک ہمارے معاشرے میں امن و سکون کا ضامن ہے اور دوسرا ہمارے گھر کے اندر انصاف قائم کرنے والا ہے۔ اس لئے ان کا فوقیت کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ آپ ؐکی حیات مبارکہ کے اور بھی پہلو ہیں ،جن سے زندگی کے تمام مسائل اور مشکلات میں رہنمائی ملتی ہے۔ آئیے ہم یہ عزم کریں کہ محض عقیدت و احترام تک ہی نہیں، ہم اﷲ کے رسول ؐسے اپنے تعلق کو اپنی زندگی میں بھی مضبوط کریں گے اور اسوہ حسنہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے۔ اس پر عمل کریں گے۔

یوپی کی سیاست
ایک خبر یہ ہے کہ جناب توقیر رضاخان صاحب نے یوپی کی حکمراں پارٹی سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے۔ اگر انہوں نے یہ قدم مظفرنگر فسادات کے فوراً بعد یا فسادزدگان کے کیمپ اکھاڑے جانے پر اٹھایا ہوتا تو ان کا سیاسی قد یقینا بہت بڑھ جاتا۔اب انہوں نے یہ قدم ہوا کا رخ دیکھ کر اٹھایا ہے، لیکن ان پر یہ الزام لگانا بیجا ہے کہ وہ آرایس ایس کے ایجنٹ بن گئے ہیں۔اسی دوران زکوٰۃ فاؤنڈیشن نے ایک پٹیشن دائر کرکے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کہا ہے کہ سماجوادی پارٹی کی سیاسی پارٹی کی حیثیت کو کالعدم کیا جائے۔ ایک پٹیشن یادو سرکار کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی داخل ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے اس نے عدالت میں دی گئی یقین دہانیوں پر عمل نہیں کیا۔ دریں اثنا معروف صحافی جناب عبدالحفیظ نعمانی نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’خاک ڈال، آگ لگا، بھول بھی جا‘ میں یادو سرکار کی کارکردگی پر سخت گرفت کی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم ذہن اب اس پارٹی سے دورجا رہا ہے۔رہی سہی کسر سیفائی کے جشن نے پوری کردی۔ لیکن سوال یہ ہے آگے راستہ کیا ہے؟ اب عوام کا رجحان عام آدمی پارٹی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ مسلم یونیورسٹی کے چند دانشوروں نے، جن میں ڈاکٹر شکیل صمدانی بھی شامل تھے، ایک مذاکرہ کے دوران سماجوادی پارٹی سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ مسلمان ’عام آدمی پارٹی ‘ کا دامن تھام لیں۔ کہاگیا ہے ،چلو تم ادھر کوہوا ہو جدھر کی۔ لیکن ہمارے خیال سے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہمارے دانشور مسلمانوں کو یہ مشورہ دیں۔ عام آدمی پارٹی نے انا ہزارے کے جس آندولن سے جنم لیا ہے اس کی پشت پناہی پوری طرح سنگھ پریوار نے کی تھی۔ اب بھی اس پارٹی کے لیڈروں میں بھاجپا کے لئے نرم گوشہ صاف نظرآتا ہے ۔ پارٹی نے جہاں راہل گاندھی کے خلاف نریندر مودی کے مداح کمار وشواس کو اتارا ہے، وہیں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ اپنے امیدوار بھاجپا کے بڑے لیڈروں کے مقابلے میں بھی اتارے گی۔ پارٹی کی قیادت میں بھی کوئی معتبر مسلمان لیڈر نہیں ہے۔ دہلی میں اس کی کارکردگی ابھی ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ سب کے سب ناتجربہ کار ہیں۔ ملک کی باگڈور ایسے تلون مزاج اور ناتجربہ کاروں کے ہاتھوں میں تھمانے کے وکالت کم از مسلم دانشوروں کو نہیں کرنی چاہئے۔ ابھی چناؤ دور ہیں اس لئے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل ہونا چاہئے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.