تارکین وطن کی فریاد،خادم الحرمین الشریفین کے نام

ہر جاندار کے رزق اور رہن سہن کا انتظام اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہیں کیونکہ وہی خالقِ حقیقی و رازق ہے۔ لیکن انسان جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ(نائب ) بنایا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ کسی دوسرے انسان کی روزی روٹی کا ذمہ اس کے اختیار میں ہے۔ اگر کوئی دوسرے مذاہب کے افراد اس طرح کا خیال کرتے ہیں تو الگ بات ہوتی۔ لیکن موجودہ دور میں ایسے ممالک جو اسلامی مملکتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ اپنے ملک میں ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کریں تویہ مذہب اسلام کے مغائر ہیں۔ آغاز اسلام سے ہی مسلمانوں پر کڑی آزمائشیں ہوتی رہی ہیں کبھی دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو سخت دھوپ میں تپتے ہوئے پتھروں پر لٹاکر سزائیں دیں تو کبھی لوہے کی سلاخیں گرم کرکے جسموں کو جلایا گیا، تو کبھی تیروں و نیزوں کے ذریعہ مسلمان مرد و خواتین کو اﷲ کی وحدانیت اور رسول اﷲ ﷺ کی رسالت کا اقرار اور گواہی دینے پر نشانہ بنایا گیا۔ بی بی سمیہ اسلام کی اس عظیم پہلی خاتون شہیدہ ہیں جنہیں دشمن اسلام ابو جہل نے جس بُری طرح سے نیزہ مار کر شہید کیا تاریخ اس کی گواہ ہے۔ آقائے دوعالم ﷺ نے ان سخت جان لیوا حالات کے باوجود صبر و استقامت پر قائم رہے اور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم کو یہی درس دیا۔لیکن جب کفار و مشرکین حدسے تجاوز کرنے لگیں تو اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو مکہ معظمہ سے ہجرت فرمانے کا حکم دیا اس طرح حضور اکرم ﷺ نے 53سال کی عمر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اس عظیم الشان مقدس شہر کوچھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق مدنیہ منورہ کو ہجرت فرمائی اورپھر آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام ؓ نے بھی مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔ اﷲ کے حکم سے اسلام کے خلاف دشمنانِ اسلام کی کارروائیوں کا سخت جواب دیا گیا اور آہستہ آہستہ اسلامی پرچم دنیا کے کونے کونے میں لہرانے لگا۔ جب مسلمانوں کی مملکت وسیع ہوتی گئی تو دشمنانِ اسلام نے ایشی سازشیں رچی کہ جس کے ذریعہ مسلمانوں کو اقتدار کا لالچ دیا گیا تو کہیں زن و زر سے انہیں خریدا گیا۔ مسلمانوں کی صفوں میں اس طرح حرص و طمع پیدا کرکے ان سے اقتدار چھین لیا گیا۔ آج بھی بعض اسلامی ممالک کی مقتدر ہستیاں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے معاشی طور پر مضبوط استحکام عطا کیا ہے وہ دشمنانِ اسلام پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں اور انہیں خوش کرنے کے لئے اپنے مسلم بھائیوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ ان ممالک میں کہیں پر آئے دن مظالم کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے تو کہیں پر آپسی رسہ کشی اور مسلکوں کے اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ اسی بیچ تیل و قدرتی گیس سے مالامال اسلامی ممالک اپنے شہریوں کوروزگار سے مربوط کرنے کے لئے دوسرے ممالک سے تلاشِ روزگار کے سلسلہ میں آئے ہوئے بندگانِ خدا کو روزگار سے محروم کرنے کے قانون بنارہے ہیں۔ یہ کہاں تک صحیح ہے اس کا ان حکمرانوں کو جائزہ لینا ہوگا۔ بیشک ہر ملک کے حکمرانوں کو اپنے شہریوں کی معاشی، تعلیمی، سماجی و ثقافتی تہذیب کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات کرنے اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن جو محنت کش لوگ دور دراز ممالک کا سفر طے کرکے ، اپنوں کو چھوڑ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کئے ہیں اور کررہے ہیں ان کا بھی ان حکمرانوں کو احساس ہونا چاہیے اور انکے مسائل کو حل کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہیے۔

سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز خادم الحرمین الشریفین سے دنیا بھر کے مسلمان کئی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں لیکن ان ہی کے ملک میں جہاں ان کی حکمرانی ہے اور جو اسلامی ممالک کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اسی ملک میں تارکین وطن کئی مسائل سے دوچار ہیں اور اب انہیں روزگار سے محروم کرنے کے لئے قانون مدون کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے سعودی عرب کا وقار عالمی سطح پر کم ہوتا جارہا ہے۔ نطاقہ قانون کے تحت سعودی نوجوانوں کو روزگار سے منسلک کرنے کے لئے قانون بنایا گیا جس میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو مہلت دی گئی تاکہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر مملکت میں خدمات انجام دیں ۔ سعودی عرب میں بے شک غیر قانونی طور پر ہزاروں تارکین وطن رہ رہے ہیں جو کسی بھی ملک کے قانون کے مطابق غلط ہے لیکن سعودی عرب میں آزاد ویزا جو حقیقت میں آزاد ویزا نہیں ہے اس کی حقیقت کیا ہے اور آزاد ویزے کا جو مطلب لیا جاتا ہے اسے ختم کرنے کے لئے مملکت کے ذمہ دار پہل کریں کیونکہ تارکین وطن جو بہتر سے بہتر روزگار اور اچھی معاوضہ پانے کے سلسلہ میں لاکھوں روپیے لگاکر اپنے ملک سے جاتے ہیں اور وہاں جانے کے بعد جن مسائل اور مصائب میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس بارے میں ان افراد سے سنیں تو کوئی بھی تعلیم یافتہ اور محنتی شخص ان ممالک کو جانے کے بجائے اپنے ملک میں محنت کرنے کو ترجیح دیگا۔

سعودی کفیل ہزاروں ریال لے کر بھی اپنے مکفول کو کسی نہ کسی بہانے ٹال مٹول کرتے ہوئے اقامہ اور دیگر ضروری کاغذات بنانے اور اسے مکفول کے حوالے کرنے میں دیر کرتے ہیں یا پھر پاسپورٹ لے کر اسے غیر ضروری پریشان کرتے ہیں۔ آخر کار مجبور ہوکر مکفول اپنے ملک واپس آنا چاہتا ہے تو بھی اسے پاسپورٹ نہیں دیا جاتا یا پھر واپس آنے کے انتظامات ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح معقول آمدنی والے تارکین وطن کو فیملی ویزا نکالنے کے لئے کئی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے اور کئی مسائل سے گزرنے کے بعد انہیں ویزا مل پاتا ہے یا پھر کئی سال اسی طرح بیت جاتے ہیں۔ ایک اسلامی مملکت ہونے کے ناطے معقول آمدنی والے تارکین وطنوں کو فیملی ویزے دینا چاہیے لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ مملکت میں فیملی ویزے کے لزوم کو بھی کسی نہ کسی طرح کم کردیا جائے گا۔ جبکہ 8سال کوئی شخص مملکت میں روزگار سے مربوط ہیں تو اسے بھی واپس بھیج دیا جائے گا اگر ایسے قانون بنائے جاتے ہیں تو اس کے خلاف کچھ کہنے یا کرنے کا ہمیں اختیار نہیں ہے لیکن اسلامی مملکت میں ہی ایسے قانون بنائے جائیں اور اسے نافذ کیا جائے تو اس سے اسلامی مملکت کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔

مملکتِ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں تیل اور قدرتی گیس کی دریافت کے بعد سے لاکھوں مسلمان تارکین وطن معاشی استحکام حاصل کرچکے ہیں ان کے افرادِ خاندان کی تعلیم و تربیت بہتر سے بہتر ہوئی ہیں اور معاشی اعتبار سے بھی وہ مضبوط و مستحکم ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی انشاء اﷲ تعالیٰ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

شاہ عبداﷲ بن عبد العزیز خادم الحرمین شریفین نے جس طرح دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی معاشی استحکام کے لئے مالی امداد کرتے رہے ہیں اور آفات سماوی و ارضی کے موقعوں پر مملکت کی جانب سے جس طرح امداد فراہم کی جاتی ہیں یا فلسطینی مظلوم مسلمانوں اور میانمار کے مظلوم مسلمانوں کے لئے جس طرح شاہ عبداﷲ نے تعاون کیا ہے ان کے اقدامات قابلِ تحسین ہیں۔

سعودی عرب میں لاکھوں تارکین وطن بہتر سے بہتر زندگی گزار رہیں ہیں اس کے باوجود ہزاروں تارکین وطن اب بھی پریشان ہیں ۔ ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ شاہی حکمراں،مملکتِ سعودی عرب میں رہنے والے تارکین وطن جوملک کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کئے ہیں اور کررہے ہیں ان کی مجبوریوں کا جائزہ لیں اور جس طرح انہیں سعودی شہری پریشان کرتے ہیں اُس کابھی جائزہ لیا جائے۔ اور جو قانونی طور پر مقیم ہیں انہیں بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کے احکامات جاری کریں۔ سعودی عرب میں نافذ نطاقہ قانون کی وجہ سے مملکت کی شبیہہ پہلے ہی خراب ہوتی جارہی ہے اگر مستقبل میں فیملی ویزا کے حصول میں دشواریاں پیدا کیں گئیں تو اس سے مملکت کا نام مزید بدنام ہوگا۔ اور جو تارکین وطن قانونی طور پر کام کررہے ہیں انہیں واپس بھیجنے کے بجائے مزید ترقیاتی منصوبوں کو روشناس کرائیں تاکہ مملکت میں موجود سعودی نوجوانوں کو روزگار کے اعلیٰ مواقع فراہم ہوسکیں۔ جس طرح تارکین وطن محنت کرتے ہیں وہاں کے مقیم سعودی شہری بہت ہی کم محنت کش دکھائی دیتے ہیں جس کا اقرار خود سعودی شہری کرتے ہیں لہذا محنت کش تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے بجائے ان کی خدمات کو سراہا جائے تاکہ عالمی سطح پر مملکتِ سعودی عرب کی مثال پیش کی جاسکے.
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80112 views i am a humble person... View More