تھانہ کلچر تبدیل ہو سکتا ہے مگر،،،،،

پولیس کے بارے میں عمومی تاء ثر ایک ظالم و جابر،سنگدل،نان کو آپریٹو،من مرضی کی مالک، بدتمیز، اکھڑمزاج،دوسروں کو انسان نہ سمجھنے والی فورس کا ہے،مگر میری رائے اس سے مختلف ہے،کوئی بھی شخص نہ پیدائشی بدتمیز ہوتا ہے نا ظالم و جابر،حالات و ا قعات اسے اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں،میں تو سمجھتا ہوں کہ پولیس فورس ظالم نہیں بلکہ ایک مظلوم بلکہ مظلوم ترین فورس ہے جس کو ہر کوئی اپنی من مرضی کے مطابق جس طرح چاہتا ہے استعمال کرتا ہے اور غلط نتائج آنے پر خود کو فی الفور بری الذمہ قرار دے لیتا ہے،آج تک ہر فنکشن ہر موقع پر پولیس کو صرف طعن وتشنیع اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کوئی بھی ان کے حقوق اور ان کے تحفظ کی بات نہیں کرتا ،کیوں، کیا وہ انسان نہیں ،ان کی ضروریات عام انسانوں جیسی نہیں،ان کی اولاد ماں باپ بہن بھائی نہیں کیا وہ اس معاشرے کا حصہ نہیں،ہر کوئی ان سے تعاون قانون کی حکمرانی اور خوش اخلاقی کی توقع کرتا ہے مگر کبھی کسی نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی کوشش کی،ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے عموماً پولیس کے بارے میں،کیسے ایک ایسے شخص سے خو ش اخلاقی اور اچھے رویے کی توقع کی جاسکتی ہے جو پچھلی پوری رات سے ڈیوٹی پر ہو اور اگلے دن بھی کسی کی جگہ پہ ڈیوٹی دے رہا ہو یا جو صبح سے اس پاکستانی ماحول میں جو سردی میں گرمائش مہیا کر سکتا ہے نہ گرمی میں ٹھنڈک ،صبح سے لوگوں کو ڈیل کیے جا رہا ہو،اس کی حالت کا اندازہ میں اور آپ کر ہی نہیں سکتے،وجہ اس کی یہ ہے کہ عام دکاندار یا بینکار کی پبلک ڈیلنگ سے تھانے کی پبلک ڈیلنگ یکسر مختلف ہوتی ہے کیوں کہ یہاں ظالم اور مظلوم دونوں قسم کی مخلوق سے واسطہ پڑتا ہے،چور کہتا ہے میں مجرم نہیں ہوں مجھے بے گناہ پکڑا گیا ہے ،جبکہ مدعی زور دے رہا ہوتا ہے کہ پیسے لیکر تفتیش مجرم کے حق میں کی جارہی ہے،اوپر سے ایم این اے ایم پی ایز کا دباؤ الگ،کہ جس طرح ہم کہہ رہے ہیں ویسے کرنا ہے دوسری صورت میں دور دراز کے علاقے میں ٹرانسفر لازمی،عام شخص جو صبح گیارہ بجے اٹھتا ہے نہا دھو کر سوٹڈ بوٹد ہو کر گھر سے نکلتا ہے راستے میں دو چار دوستوں کے پاس رکتا چائے پیتا اگر کسی ضرورت کے تحت تھانے پہنچتا ہے تو وہ یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ آگے موجود محرر بھی اسی کی طرح ترو تازہ بالکل فریش اسی کے انتظار میں بیٹھا ہو گا جبکہ حقیقتاً اس کے برعکس ہوتا ہے اور ہر آنیوالا شخص اگلے کی مجبوری یا پریشانی سمجھے بغیر فی الفور نہ صرف پورے پروٹوکول کا متمنی ہوتا ہے بلکہ سب سے پہلے اپنا کام بھی چاہتا ہے،اب اگر چائے پانی یا مناسب سیٹنگ ارینجمنٹ نہیں ہے تو اس میں ڈیوٹی افسر یا موجود اہلکار کا ہر گز کوئی قصور نہیں مگر اس کے باوجود وہ لوگوں کی جلی کٹی نہ صرف سنتے ہیں بلکہ برداشت بھی کرتے ہیں،ایک اور بات جو بڑی اہم ہے وہ یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی ہے آج دنیا چاند سے ہو کے مریخ پہ پہنچ گئی ہے مگر یہاں آج بھی وہی کلچر موجود ہے جو آج سے پچاس سال پہلے تھا،اگر کسی تھانے میں تیس سال پہلے کاؤنٹر پہ یا محر کے دفتر میں دو اہلکار تھے تو آج بھی دو ہی موجود ہیں یہ سوچے بنا کہ اس وقت آبادی کیا تھی اور آج کیا ،اس وقت بھی ایف آئی آر ہاتھ سے لکھی جاتی تھی آج بھی یہ ایف آئی لکھنے کا ایک ہی طریقہ اور اس کام پہ معمور شخص بھی ایک ہی ہے جو احتیاط سے مدعی کی درخواست کی ہو بہو نقل کر کے ایف آئی آر درج کرتا ہے،آج کرائم ریٹ کی شرح کیا وہی ہے جو آج سے چالیس سال پہلے تھی،اس کے بعد کیا ان کی وردی کا موسم کے لحاظ سے خیال رکھا جاتا ہے ،آج بھی وہی بوٹ،وہی جیکٹس اورکمبل اور وہی تھرڈ کلاس جرابیں،کیا ان کا حق نہیں کہ ان کو بھی برانڈڈ اور کوالٹی کے ڈریسز موسم کے لحاظ سے فراہم کیے جائیں،موٹر وے پولیس کو ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی بغیر ڈیمانڈ کے فراہم کر دی جاتی ہے اور پنجاب پولیس کے پاس کیوں آج بھی بیس سال پرانی گاڑیاں ہیں جو ہر گز ہر گز آج کے دور کا مقابلہ نہیں کر سکتی آج جرائم پیشہ افراد کے پاس جس طرح کی سواریاں ہیں ان کو تو اچھی بھلی گاڑی نہیں پکڑ سکتی چہ جائیکہ پرانی اور کھٹارہ گاڑی،اس کے بعد ان کو دیا گیا اسلحہ بھی انتہائی فرسودہ ہے جس کی مدت نجانے کب سے کب تک ہے،اس سب کے علاوہ سب سے تشویشناک بات پولیس کو دیا جانیوالا فیول ہے گذشتہ روز میری ایک پٹرولنگ پولیس کے افسر سے بات ہوئی جن کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کے ریسکیو1122 کے بعد اس دوسرے شاندار منصوبے کی حالت اب یہ ہے کہ شروع میں ان کو ایک گاڑی کے لیے ایک رات کا فیول تیس لیٹر ملتا تھا جو آج آٹھ دس سال بعد پچاس لیٹر ہونا چاہیے تھا مگر چونکہ پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے اس لئے اب یہ فیول دس لیٹر فی نائٹ ہو گیا ہے،اب ذرا دیانتداری سے جائزہ لیں تو ایک لگ بھگ پچیس سو سی سی گاڑی کودس لیٹرفیول کتنا اور کہاں تک دوڑائے گا،پنجاب پولیس کا اس سے بھی کم یعنی 9 لیٹر فی نائٹ کے گشت کے لیے دیا جا رہا ہے،اب یہ گاڑی اور یہ اہلکار کتنا گشت کریں گے اور کتنے مجرموں کا پیچھا کریں گے اور کتنے مدعیوں کے ساتھ ان کے مجرموں کو پکڑنے جائیں گے،کیوں پولیس اہلکار مجبور ہوتے ہیں مدعی کو یہ کہنے کے لیے کہ آپ گاڑی کا بندوبست کریں تو ہم ابھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں ،جبکہ مدعی تھانے میں کھڑی گاڑیاں دیکھ کے جنجھلانے اور باتیں سنانے میں حق بجانب ہوتا ہے کیوں کہ اسے اصل صورتحال کا علم ہی نہیں ہوتا،اس میں قصور وار تھانے میں بیٹھے اہلکار نہیں وہ سسٹم ہے جس کا ہمارے سمیت خود پولیس کو بھی سامنا ہے،اگر اور کچھ نہیں دے سکتی تو حکومت ان کی عزت نفس تو کم از کم بحال کر دے،دنیا کی مثالیں دینے سے پہلے دنیا جیسے اختیارات اور وسائل بھی فراہم کیے جائیں، یہاں کسی پولیس اہلکار کی مجال نہیں کہ وہ کسی سیاسی گماشتے کسی اعلیٰ سول و فوجی افسر،یہاں تک کے کہ کسی صحافی کا چالا ن کرنے کی جراٗت نہی کر سکتا مگر وہاں ایک کانسٹیبل ایک سپاہی اور ایک اہلکار کے جاری کئے گئے ٹکٹ کو سپریم کورٹ تک میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور صدر مملکت اور وزیر اعظم تک کو ٹریفک قوانین میں استثناء حاصل ہے نہ پولیس کے اختیارات میں مداخلت کی اجازت،اور ایک بات یہ بھی بڑے زور وشور سے کی جاتی ہے کہ کہ ان لوگوں کی اتنی زیادہ تنخواہیں ہیں پھر بھی یہ باز نہیں آتے کتنی زیادہ پینتیس چالیس ہزار کوئی شخص جس کے تین چار بچے اسکول جانیوالے ہوں کوئی بجٹ بنا کے تو دکھائے پینتیس ہزار میں،ذرا ان کے ڈیوٹی ٹائم بھی ملاحظہ کیے جائیں،نہ آنے کا کوئی ٹائم ہے نہ جانے کا،کیا کبھی کسی اہلکار نے آج تک یہ کلیم کیا ہے کہ جب ڈیوٹی ٹائم لامحدود ہے تو ہمیں تنخواہ بھی لامحدود دی جائے وہ کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے،بات لمبی ہو رہی ہے موٹروے پر سات سو سے سات ہزار روپے کا چالان چپکے سے ادا کرنے والے پنجاب پولیس کے سو سے دو سور وپے کے چالان پر آپے سے باہر ہو کے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں،اور جب بھی کسی اہلکار نے کسی اہم شخصیت یا سنیئر صحافی کا چالان کیا فوراً بات اعلی حکام بلکہ متعلقہ ڈی ایس پی اور ڈی پی او تک پہنچ گئی اور صاحب بہادر ہمیشہ بغیر تحقیق کیے فی الفور جہاں ایک طرف چھوٹے اہلکار کو معطل کر دیتے ہیں وہیں دوسری طرف شکایت کنندہ سے معذرت بھی کرتے ہیں کیوں،کبھی کسی نے سوچا کہ اس ریلیف سے اس اہلکار پر کیا گذرتی ہے،اور جہاں تک سوال ہے معاشرے کی خدمت کا تو ہر شخص یہاں کسی نہ کسی طرح اس سسٹم میں رہ کر خدمت کر رہا ہے ایک دھوبی ،ایک معمار یہاں تک کہ ایک جوتے پالش کرنے والا بھی ملک اور اس کے رہنے والوں کی خدمت کر رہا ہے مگر سب سے زیادہ اس ملک و قوم کی خدمت کوئی کر رہاہے تو وہ پولیس ہے کیاکوئی ہے ہم میں سے جو عید کے روز بھی اپنے ضعیف والدین اور اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر مسجد کے باہر اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے بیٹھا ہو،کوئی ایک لاکھ روپیہ بھی مجھے دے تو اس ایک دن کی ڈیوٹی نہ دوں، ہم اندر سوٹڈ بوٹد زرق بر ق لباس پہنے عید پڑھ رہے ہوتے ہیں دوستوں اور اپنوں سے معانقے کر رہے ہوتے ہیں مگر پولیس اہلکار موسم کی نرمی سختی سے بے نیاز باہر ہماری خدمت پر موجود ہوتے ہیں،جن اعلیٰ حکام نے بھی اس تقریب اور ورکشاپ کا اہتمام کیا ہے ان کا شکریہ کہ یہ ایک اچھی کاوش ہے مگر ان کو چاہیے کو وہ پولیس کو صر ف دبانے کی بجائے ان کے مسائل کو بھی سمجھیں ان کے مورال کو بھی ڈاؤن نہ ہونے دیں،آج ہی دیکھ لیں کہ پولیس ہی کی تقریب میں پولیس لائن میں یہاں کتنے اہلکار موجود ہیں ،مگر میں جانتا ہوں کہ ہر ایک کسی نہ کسی ڈیوٹی پر موجود ہوگا،کوئی کورٹ میں ہو گا تو کوئی کسی چوک میں کسی وی آئی پی کی گذر گاہ میں اس کا منتظر اور کوئی کسی ایم این اے ایم پی اے کے کسی پیارے کی خدمت پر مامور ہو،اچھے برے لوگ ہر ڈیپارٹمنٹ ہر محکمے میں ہوتے ہیں سارے اگر اچھے نہیں ہوتے تو سارے برے بھی ہر گز نہیں ہوتے،پٹوار ی تین سو فیس والے فرد کے پندرہ سو روپے لیتا ہے اور واپڈا کا لائن مین پندرہ ہزار لے کر بھی سالوں میٹر نہیں لگاتا مگر وہ کرپشن کسی کو نظر آتی ہے نہ بری لگتی ہے،پولیس میں بھی ضرور کرپٹ لوگ ہوں گے جن کا محاسبہ کیاجانا بھی ضروری ہے مگر آپ ان کے کام میں سیاسی مداخلت بند کروا دیں،ان کے تھانوں اور دیگردفتری ضروریات کو وقت اور موجودہ دور سے ہم آہنگ کریں ان کے حالات ،ان کو فراہم کیا جانے والا ماحول بدل دیں یقین کریں تھانہ کلچر خود بخود تبدیل ہو جائے گا،،،،،اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو(مورخہ15.01.2014 کوپولیس لائن چکوال میں: موجودہ تھانہ کلچر کیسے تبدیل ہو: کے موضوع پر منعقدہ ورکشاپ میں افسروں اور جوانوں سے خطاب)