مولانا محمد الیاس گھمن
سرپرست مرکز اہل السنت والجماعت
یہ کیا ہو رہا ہے ؟ صبح وشام عالم اسلام پر مظالم ، اس کا بے دریغ قتل ، اس
کی آبروریزی اور پستی و درماندگی کی خبریں پڑھ پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا
ہے ۔ ہرروز میری قوم کسی نہ کسی المناک سانحے سے دوچار ہو رہی ہے ۔ بالخصوص
ایک خاص مکتب فکر کے حامل افراد کو زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ان
حوادثات کے بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس موقع پر قرآن کریم اور
اسوہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں مذکور ’’ صبر ‘‘ والے حکم پر عمل کرنا ہوگا
۔
دوسری بات یہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت پر زیادہ توجہ دینا ہوگی
۔ ہمارے بچے اور بچیاں کہیں غلط سوسائٹی میں تو نہیں پل بڑھ رہے ؟ ان کے
کچے ذہنوں میں معاشرتی برائیاں تو جنم نہیں لی رہیں ؟ کیا ہماری اولاد کو
اسلامی کلچر ، اسلام کی بنیادی تعلیم اور اسلام کے طرز زندگی سے واقفیت ہے
یا نہیں ؟اگر ہماری اولاد کل کو مذہب اسلام ، وطن عزیز اورقوم و ملت کی
خدمت کا جذبہ لے کر پروان چڑھ رہی ہے تو شکر کرنا چاہیے ورنہ فکر ۔
تیسری بات یہ ہے کہ والدین کے بعد ان ننھی کونپلوں کے مالی معلمین ، اساتذہ
اور مدرسین کا طبقہ ہے ۔ اساتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ اپنی دینی ، اخلاقی
اور معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ان طفلان مکتب کو اچھی باتوں کی
نصیحت کریں ، بری باتوں سے دور رکھیں، ان کی اخلاقی تربیت میں اپنا کردار
ادا کریں ۔ ان کو معاشرے کا ایک شریف اور اچھا انسان بنانے میں بھر پور
محنت کریں ، ان کے کمزور پہلوؤں کی اصلاح کریں اور مذہب اسلام کا سچا
پاسبان اور محب وطن شہری بنانے کی بھر پور کوشش کریں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ وارثان منبر و محراب علماء کرام کو رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ایمانداری اور خوب وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے ۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم عالمگیراور آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
سے محبت آپ کی اطاعت سے ظاہر ہوتی ہے ، اگر آپ کی اتباع اور اطاعت کامل
طریقے سے کی جائے تو معاشرے میں پھیلی انارکی ، افراتفری ، بے سکونی ، دنگا
فساد ، بے چینی ، معاشرتی بگاڑ اور ہر وقت کی قلبی گھٹن اور ذہنی کوفت ختم
ہوجائے گی ۔ اس لیے علماء کرام کو عوامی اجتماعات ، خطبات جمعۃ المبارک اور
اپنی نجی مجلسوں میں امت مرحومہ کے احوال پر’’ نگاہ کرم‘‘ ڈالنی چاہیے اور
یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ہمارے بااثر مقتدر طبقے کو بھی ذرا سنجیدگی اور متانت
سے کام لینا ہوگا ، اگر بے روزگاری ، مہنگائی ، غربت اور کرپشن پر چیخا
چلایا جا سکتا ہے اور سادہ لوح عوام میں اپنا مینڈیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے ،
ان سے ووٹ کی ایک پرچی ہتھیانے کی غرض سے ان کی ’’ خدمت ‘‘ کی جاسکتی ہے تو
پھر کیا وجہ ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد ان کی ضروریات کو پورا نہیں کیا
جاتا ؟ مظلوم اور لاچار غریب انسان انصاف کی بھیک مانگتے مانگتے عدالتوں ،
کچہریوں اور متعلقہ تھانوں کے چکر کاٹ کاٹ کر بالآخر قبر کی پاتال تک پہنچ
جاتا ہے لیکن انصاف کو نہیں پاسکتا ۔
جن لوگوں کے گھر اجاڑ دیے جاتے ہیں ان میں بسنے والی ماؤوں اور بہنوں معصوم
بچوں اور بچیوں کے درد بھرے نالے جگر چاک کردیتے ہیں ، ان بے کسوں اور
مظلوموں کی ان آہوں سے ڈرو جن سے خدا کا عرش بھی کانپ اٹھتا ہے ۔ قتل و
غارت کے سانحات بڑھتے ہی چلے جار ہے ہیں ان کو محض قیامت کی نشانیاں کہہ کر
ٹالنے کی بجائے ان کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ اس کے
لیے ہم سب کو بحیثیت ذمہ دار سوچنا ہوگا اور سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
تبلیغی مرکز پشاور میں ہونے والے دھماکے میں شہید ہونے والے لوگوں کے
ورثااور پسماندگان سے محض رسمی اور برائے نام تعزیت کافی نہیں ہوتی ، ان کے
دکھوں کا مداوا بھی کیا جائے ۔ زخمیوں کے علاج معالجہ اور عمارت کی تعمیری
اخراجات ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے ایسی منظم حکمت عملی سے منصوبہ
بندی کی جائے کہ جس سے یہاں کے ہر باسی کو تحفظ فراہم ہوسکے ۔ بالخصوص
مذہبی اجتماعات کو انتہائی سخت نگہداشت میں رکھا جائے تاکہ دوبارہ سانحہ
پشاور جیسے حوادثات اس ملک میں نہ ہونے پائیں ۔ سب سے بڑھ کر شہداء کے
قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ ہمارے ملک
میں امن قائم بھی ہوسکے اور اس کو برقرار بھی رکھا جاسکے ۔ |