ہفتہ عشرہ قبل وفاقی حکومت کی جانب سے نوجوانوں کے لئے
مختلف اسکیموں کا اجراء کیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں
ان اسکیموں کا اعلان کیا۔20 ارب روپے کی خطیر رقم سے شروع کئے گئے اس
پروگرام میں لیپ ٹاپ کی تقسیم، بلاسود اور کم شرح سودپر قرضوں کی فراہمی،
پسماندہ طلبا ء کی تعلیمی فیس کی ادائیگی اور نوجوانوں کے لئے ہنر مندی
اورعملی تربیت کا اہتمام شامل ہے۔اس میں خواتین کو پچاس فیصد نمائندگی حاصل
ہو گی۔ برسر اقتدار آنے سے قبل میاں نواز شریف تواتر سے معاشی ترقی وخود
انحصاری کیلئے نجی سیکٹر کی اہمیت و افادیت کا تذکرہ کرتے رہے ہیں۔ در
حقیقت یہ نظریہ دنیا بھر میں تقویت حاصل کر چکا ہے ۔ عالمگیر معاشی انحطاط
کے باعث روزگار کی فراہمی سنگین مسئلہ بن چکی ہے اور بے روز گاری بڑھتی جا
رہی ہے۔حکومتیں لامحدودسرکاری نوکریوں کی فراہمی سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ دنیا بھر میں حکومتیں نجی سطح پر روزگار کے ذرائع کی فراہمی کی کاوشوں
کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔ غالباً اسی عالمی رحجان کے تناظرمیں وزیر اعظم
کی جانب سے ان اسکیموں کی داغ بیل ڈالی گئی ۔
ہمارے ہاں معاشی عدم توازن ، غربت اور بے روزگاری کے باعث جرائم میں روز بہ
روز اضافہ ہو رہا ہے ۔ مفلسی و مایوسی اگر انسان کو کفر تک پہنچا سکتی ہے
تو دہشت گردی، چوری، ڈکیتی وغیرہ تو معمولی درجے ہیں۔ نوجوانوں کو مایوسی
اور دل گرفتگی کے بجائے، مثبت راہ اور طرز فکر کی جانب راغب کرنے کی یہ
کاوش ادنی اور محدود حلقہ اثر اور نتائج کی حامل ہی سہی، اسے خوش دلی اور
خندہ پیشانی سے قبول کر کے سراہا جانا چاہیے تھا۔تاہم افسوسناک امر ہے کہ
باقاعدہ آغازکارسے قبل ہی مخالف حلقوں کی جانب سے اسے تنقید اور تضحیک کا
نشانہ بناتے ہوئے ناکام قرار دیا جا رہا ہے۔ بجا کہ یہ اسکیمیں سراپا خیر
ہیں اور نہ مثالی نوعیت کی حامل۔عین ممکن ہے کہ یہ پروگرام سو فیصد نتائج
حاصل نہ کر سکے ۔ مگر مرحلہ اول میں ہی اسے نا کام قرار دینا قابل افسوس
امر ہے۔درحقیقت بہ حیثیت مجموعی ہم لوگ منفی سوچ کے حامل ہو چکے ہیں۔ نا حق
کیڑا کاری اور تبرا بازی ہمارے مزاج کا عمومی حصہ بن چکی ہے۔ ہمارہاں سیاست
میں تو خیر تنقید برائے تنقید کا چلن عام رہاہے۔تاہم کچھ عرصہ سے صحافت میں
بھی یہ ناقابل تائید رحجان تقویت حاصل کر چکا ہے ۔ کسی بھی معاملے کے بخیے
ادھیڑنے کو دانشوری تصور کیا جاتا ہے۔ سو یہ منصوبہ مرحلہ اول میں ہی کیڑا
کاروں کی زد پر ہے۔ ہمارے ہاں بااثر افراد حکومتی خزانے کے کھربوں روپے
ڈکار جاتے ہیں ۔ اس رقم کی وصولی اور احتساب پر تو اسقدر واویلا نہیں کیا
جاتا۔ گذشتہ حکومت میں 12ارب روپے یومیہ کرپشن ہوتی رہی ہے۔یہ تو فقط 20
ارب روپے ہیں۔ انہیں عوام کی فلاح پر خرچ ہونے دینا چاہیے۔اس طالب علم کی
مسرت و شادمانی کا تصور کیجیے، جو اپنی پسماندگی اور خستہ حالی کی بنا پر
سلسلہ تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہو اور اسے فیس کی ادائیگی کی صورت حکومتی
معاونت میسر آجائے ۔ ان پڑھے لکھے نوجوانوں کی آسودگی کا اندازہ کیجیے جو
ڈگریوں کے با وجود دربدر بھٹکتے مایوسی کا شکار ہوں اور انہیں آسان شرائط
پر قرضے حاصل ہو جائیں ۔ بالکل اسی طرح کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بنا اور
بغیر کسی تگ و تاز عملی تربیت اور ہنر کی فراہمی ضرورت مندوں اور مستحقین
کے لئے کسی غیبی امداد سے کم نہیں۔
مفاد عامہ کے ایسے منصوبوں کا اجراء قابل تحسین امر ہے۔ مگر انہیں سیاسی
رنگ دینے سے احتراز برتا جا نا چاہیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اپنی
تمام تر افادیت کے با وصف اپنے نام کی وجہ سے محدود حلقہ اثر کا حامل
تھا۔کامل سیا سی پس منظر کی حامل سربراہ کی تقرری اور امدادی فارمز کی پی
پی پی اراکین اسمبلی کے ذریعے تقسیم نے بھی اسے انتہائی محدودبنائے
رکھا۔خوش آئند امر ہے کہ وزیر اعظم کیجانب سے بہ صد اہتمام اسے ـــ"نواز
شریف" کے بجائے ’’وزیر اعظم" یوتھ پروگرام کانام دیا گیااورقوم سے خطاب میں
دانستہ اسے مسلم لیگ(ن) کے منشور پرعملدرآمد سے تعبیر کرنے سے گریزاں رہے۔
تا کہ اسے کسی سیاسی اور شخصی چھاپ سے ماوریٰ رکھا جائے۔ امید کی جانی
چاہیے کہ بعد کے معاملات بھی غیر سیاسی اور غیر متنازعہ افراد اور پالیسی
کے حامل ہوں گے۔
اس پروگرام کا دائرہ چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور فاٹا تک پھیلانا بین
الصوبائی ہم آہنگی کا خوش کن تاثر دیتا ہے۔ تعلیمی معاونت کی فراہمی کے لئے
اندرون سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ کے پسماندہ علاقوں اور گلگت بلتستان
کے طالب علموں کو تعلیمی معاونت کی فراہمی ایک اچھی پالیسی ہے ۔ یہ تمام وہ
علاقے ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں۔ صوبہ پنجاب میں فقط جنوبی
پنجاب کے ملتان ، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے طلباء اس کے حقدار ہو ں
گے۔پنجاب نوازیـ کی چھاپ کی حامل حکمران جماعت کیجانب سے ، اس پروگرام کو
یکساں طور پر ملک بھر میں نافذ کرنا قابل تحسین ہے۔
ازحد ضروری ہے کہ اس پروگرام میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے ۔ حقداروں اور
مستحقین کے تعین کے لئے بھی کڑی نگرانی اور توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک اہم امر
یہ بھی ہے کہ تعلیم ،تمام تر افادیت کے باوصف تجربے کا نعم البدل ہر گز
نہیں۔ سو تعلیم کی بنیاد پر قرضے دینابجا مگرتجربہ کار رہنمائی کا بندوبست
بھی لازم ہے۔ بہتر ہو اگر حکومت اس مقصد کے لئے کسی با قاعدہ شعبہ کے ذریعے
نوجوانوں کو سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہی فراہم کرنے کا اہتمام بھی کرے۔
تا کہ یہ سرمایہ نا تجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ کر ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔
ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اس پروگرام کے تمام مراحل کو سہل بنایا جائے ۔
ون ونڈو آپریشن کے ذریعے فوری رہنمائی اور اجراء کو یقینی بنایا جائے اور
اسے افسر شاہی کے چنگل اور سرکاری اداروں کی کاہلی و سستی کے آزار سے بھی
آزاد رکھا جائے۔
اس اسکیم کے ذریعے اگر چند ہزار طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں اور چند
ہزار نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنے ساتھ ساتھ دیگر افراد کیلئے بھی
روزگار مہیا کر سکیں تو یہ نہ صرف حکومت بلکہ ملک کی کامیابی ہو گی۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ ہم مثبت طرز عمل اختیار کریں۔ اچھے کام خواہ بد ترین مخالف
کی جانب سے کیا جائے اسے سراہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ تحسین ممکن نہ بھی ہو
تو بلا وجہ تنقید سے ہی گریز کیا جائے۔ مفاد عامہ کے منصوبوں اورمعاملات
کوسیاست بازی اور ذاتی عناد سے ماورا ہو کر غیر جانبداری کی کسوٹی پر
پرکھیں اور حکومت کی حوصلہ افزائی کریں ۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ حکومتی معاملات
پر نظر رکھیں اور غیر شفافیت، بد انتظامی ، بد عنوانی اور غلط کاری کی صورت
حکومت پر تنقید کر کے اسکی گرفت اور محاسبہ کا اہتمام بھی کریں۔ |