سال نو کا جشن اور مسلمانوں کا افسوسناک رویہ

سال نو 2014ء کے آغاز پرقومی اخبار میں رپورٹ آئی کہ لاہور کے علاقے بیدیاں روڈ پر رات کو ٹریفک کا زبردست ازدحام رہا۔ عالی شان گاڑیوں کی قطاریں کئی کلو میٹر تک دیکھنے کو ملتی رہیں۔ یہ گاڑیاں اور یہ رش ان لوگوں کا تھا کہ جو نئے سال یعنی 2014ء کے آغاز پر جشن منانے کیلئے لاہور کے اس علاقے میں واقع خصوصی فارم ہاؤسز کا رخ کر رہے تھے، جہاں عین رات کے 12 بجے جب ان لوگوں کا نیا دن اور پھر ساتھ ہی نیا سال شروع ہو رہا تھا جشن منانے میں مگن تھے۔ لاہور سمیت کئی شہروں سے انہوں نے طوائفیں بلا رکھی تھیں اور بینڈ باجوں اور طرح طرح کے کھابوں کا بھی انتظام تھا۔ لاہور میں ہی رہنے والے لیکن آج یوں رات گزارنے والے ان لوگوں سے کسی سے بھی پوچھا جائے کہ کیا یہ غیر مسلم ہیں کہ جن کا سال آج اور اس وقت شروع ہو رہا ہے؟ جواب ملے گا کہ نہیں۔ اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر انہیں یہ کیوں معلوم نہیں کہ مسلمانوں کا دن تو سورج غروب اور رات کے آغاز سے شروع ہوتا ہے…… یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہلال کی رویت ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اسی حساب کتاب سے رمضان المبارک، عیدالفطر، عید الاضحیٰ یا پھر ربیع الاول نہیں مناتے؟ جی ہاں مناتے ہیں تو پھر انہیں آج یہ کیا ہو گیا ہے کہ یہ شراب کی بوتلیں اٹھائے، چرس کے سگریٹ سلگائے رقص کی مستی میں ہاتھ اٹھائے، جھومتے گاتے نظر آ رہے ہیں۔ انہیں کس بات کی خوشی ہے؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان کے حساب سے سہی لیکن آج تو ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے اور ان کے قدم قبر کے مزید نزدیک ہو گئے ہیں۔ کیا یہ اس سے بے خبر ہیں؟ جواب ملے گا ہر گز نہیں۔ ہر گز نہیں…… یہ سب جانتے ہیں…… لیکن ان کی آنکھوں پر عیش و مستی کی وہ پٹی بندھ چکی ہے کہ جو انہیں کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی……

یہ حال صرف ان ’’مسلمانوں‘‘ کا ہی نہیں ہے۔ عین اس وقت جب 2014ء شروع ہو رہا تھا۔ مسلم دنیا کے مرکز میں واقع ممالک متحدہ عرب امارات اور کویت آتش پرستوں کی روایت زندہ کرتے ہوئے اور اپنے پیش روؤں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تاریخ عالم کی سب سے بڑی آتش بازی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور تاریخ میں نام رقم کروا رہے تھے۔ یہ وہی ممالک ہیں کہ جو کل تک فاتح عالم تھے لیکن آج جن کے پاس اپنی حفاظت کیلئے فوج ہی نہیں سخت مدہوشی میں ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی کمپنیاں ان کے تیل کے وسائل لوٹ لوٹ کر لے جا رہے ہیں۔ یہ کمپنیاں کل تیل کی آمدن کا محض 13 فیصد ان تیل کے اصل مالکوں کو ادا کرتی جبکہ باقی سارا کچھ اپنے کھاتے میں ڈال لیتی ہیں اور جو 13 فیصد انہیں ادا کیا جاتا ہے اس کا بڑا حصہ بھی یہ انہی ملکوں کو اپنے ہاں فوج رکھنے پر ادا کر دیتے اور انہی ملکوں کی کمپنیوں کو اعلیٰ تعمیرات پر ادا کر دیتے ہیں۔ اگر یہ لوگ جشن منانے کے بجائے اس میدان کی طرف کچھ توجہ کر لیتے تو کیا یہ اس سارے عالم کے نظام میں بڑے حصہ دار نہ ہوتے؟ یہی حال تو ہمارے ان مسلمانوں کا ہے جنہوں نے 2014ء کے آغاز پر اپنا سارا کچھ بھلا دیا تھا ان لوگوں نے آخر نئے سال کے حوالے سے یہ سارا تماشا اور بدقماشی کا کام کہاں سے سیکھا؟کہ جس پر انہوں نے صرف چھ سیکنڈ کے اس جشن پر کروڑوں ڈالر پھونک ڈالے۔دبئی میں واقع دنیا کی بلند ترین عمارت برج الخلیفہ اس ساری آتش بازی کا مرکز تھی۔اس آتش بازی کا ٹھیکہ بھی ایک امریکی کمپنی گروچی (Grucci)کو دیا گیا تھا ۔یوں ایک لا یعنی کام پر اتنا پیسہ لگا کرامریکیوں کی ہی جیب کو بھرا گیا ۔کیا اسے انصاف یا عقل مندی کہا جا سکتا ہے۔

دنیا میں سال نو کے جشن کی روایت آخر آئی کہاں سے؟جب تاریخ پر نگاہ ڈالی تو کچھ یوں نظر آیاجسے ایک معاصر روزنامے نے بھی شائع کیا۔ دنیا کے جن خطوں نے یکم جنوری کو سال نو منانے کی روایت اختیار کی ان میں یو کرائن، لتھوانیا اور بیلاروس شامل ہیں جہاں 651 سال قبل 1362 میں سال نو کا جشن منانے کا آغاز ہوا۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ سال نو کا شمار رومن حکمراں جولیس سیزر (قبل مسیح (44-100)کے دور سے شروع ہوا۔ اس کے دور اقتدار میں یکم جنوری نئے سال کا پہلا دن منایا جاتا تھا۔ یوکرائن، لتھوانیا اور بیلا روس کی پیروی جمہوریہ وینس (1522)، سویڈن (1529)، جرمنی (1544)، سپین، پرتگال، پولینڈ (1556)، ڈنمارک، ناروے (1559)، فرانس (1564)، جنوبی ہالینڈ (1576)، سکاٹ لینڈ (1600)، روس 1700، برطانیہ، آئیر لینڈ، برطانوی نو آبادیاں (1572)، یونان 1923)، ترکی (1926) اور تھائی لینڈ (1946) نے کی۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اسلامی سال نو کا پہلا دن یکم محرم الحرام ہوتا ہے اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ چاند کی تاریخوں کے حوالے سے 2008ء میں دو اسلامی سال نو ایک عیسوی سال کے اندر آئے تھے۔ اسلامی سال 354 دن کا اور گریگورین یعنی عیسوی کیلنڈر کے تحت سال 365 دنوں پر محیط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سال نو عیسوی سال کے مقابلے میں 11 دن پہلے مکمل ہو جاتا ہے۔ اسلام میں ہجری سال کے آغاز سے لے کر آج تک مسلمانوں نے کبھی سال نو کا جشن نہیں منایا کیونکہ اس کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں ہے لیکن آج کے دور میں کچھ مسلمان محض عیسوی سال کی مخالفت یا پھر ہمارے ہاں محرم کے روایتی انداز میں شروع ہونے کی مخالفت میں آ کر محض مبارک باد پیش کرنے لگے ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ 1797ء میں اپنی تباہی تک جمہوریہ وینس میں سال نو کا پہلا دن یکم مارچ رہا۔ روس میں 1492 سے 1700 کے درمیان یکم ستمبر کو نئے سال کا آغاز ہوتا تھا جب زار پیٹراول نے اپنے شاہی حکم نامے میں اس کو منسوخ کر دیا۔ چینی سال نو پہلے چاند کے مہینے کے پہلے چاند پر شروع ہوتا ہے جو 21 جنوری تا 21 فروری کے درمیان کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ سکھوں کے نانک شاہی کیلنڈر میں نئے سال کا پہلا دن 14 مارچ کو پڑتا ہے۔ ایرانی سال نو، نو روز کہلاتا ہے، 20 اور 21 مارچ میں کسی روز اس کا پہلا دن اور موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی دن سے زرتشت کے نئے سال کا بھی آغاز ہوتا ہے جو پوری دنیا میں پارتھین اور زرتشت کو ماننے والے مناتے ہیں۔ بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹرا میں مارچ یا اپریل میں سال نو کا آغاز ہوتا ہے اور تامل ناڈو میں تو اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔ گجراتی سال نو دیوالی کے ایک دن بعد منایا جاتا ہے جو چاند کے کیلنڈر کے مطابق اکتوبر یا نومبر میں پڑتا ہے۔ فرانس میں 1793ء سے 1805ء کے درمیان 22، 23 یا 24 ستمبر کو سال نو منایا جاتا رہا ہے۔ نیپال میں سال نو 12 سے 15 اپریل کے درمیان منایا جاتا ہے۔ یہ وہ تمام سال ہیں کہ جن کے آغاز میں سبھی ممالک میں وہاں کے لوگ جشن مناتے ہیں، یعنی یہ ہے سال نو کے جشن کا اصل حال اور اس کی تاریخ میں حیثیت کہ جس پر آج کے مسلمان بھی مست ہو جاتے ہیں۔

اب ان غیر مسلم لوگوں کو دیکھ دیکھ کر یہ مسلمان کہ جو ہر بات میں عیاشی اور موج و مستی کی تلاش میں ہوتے ہیں انہوں نے اس خرافات کو اپنانا شروع کیا بلکہ اب تو ان سے آگے بڑھ جانے کی لگن میں ہیں۔ ان مسلمانوں کو دیکھ کر جب ہم اس حدیث رسولؐ پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ جو بخاری و مسلم میں ہے تو پھر سمجھ آ جاتی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔

صحابی رسولؐ ابو سعید رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ تم لازم طور پر پہلے گزرے لوگوں کے طریقے پر چلو گے۔ ایسے ہی جیسے بالشت سے بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ ہوتا ہے اور اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھس گئے تو تم بھی ان کے پیچھے اس میں جا گھسو گے۔ ہم نے کہا یا رسول اﷲ! کیا آپ کی اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ’’پھر اور کون ہیں؟ (بخاری)

Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.