’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑا‘‘ ، ’’ علم ایک
لازوال دولت ہے‘‘ ،’’ علم ایک بے مثال طاقت ہے‘‘ ، ’’ باادب بانصیب بے اد ب
بے نصیب‘‘ یہ وہ فقرے ہیں جو ہم بچپن سے اپنے سکول کی دیواروں یا کمروں میں
چارٹ پر لکھے ہوئے دیکھتے آرہے ہیں۔ اس وقت کی تعلیم اور آج کی تعلیم میں
زمین اور آسمان کا فرق ہے۔اس وقت استاد اور شاگر د اپنے اپنے فرائض بخوبی
سرانجام دیتے تھے جبکہ آج کل کے دور میں استاداور شاگرد میں زمین آسمان کا
فرق ہے۔آج کے اس دور میں تعلیم کا واویلا تو حکمرانوں نے کیا مگر اس کے لیے
عملی اقدامات کسی نے نہیں کیے ۔ پچھلے کئی سالوں سے پنجاب میں جو بھی
وزیراعلیٰ بنا اس نے تعلیم کا بیڑا اٹھا لیا۔اس نے سوچا میں تو خواندگی کی
شرح سو فیصد کرکے ہی دم لونگا۔ ہر جگہ تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ہر فورم
پرہمارے حکمران بڑے بلند و بالا دعویٰ کرتے نظر آئے مگر یہ سب زبانی کلامی
ہوتا تھا یا پھر ٹیکسٹ بکس پر اس دور کے وزیراعلیٰ کی تصویرپبلش کرانے کے
شوق تک محدود ہوتا تھا۔
’’ علم حاصل کرنا ہر مسلما ن مرد اور عورت پر فرض ہے ‘‘یہ میں نہیں کہہ رہا
بلکہ یہ ہمارے پیارے حضوراکرمﷺ کا فرمان ہے ۔اس لیے مسلمان ہونے کے ناطے
ہمارے حکمران تعلیم کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔اگر ہم پچھلے چند سالوں کے تعلیمی
معیار کا جائزہ لیں تو مجھے یقین ہیں کہ آپ سب قارئین میری اس بات سے سو
فیصد متفق ہونگے کہ تعلیم کے میدان میں آئے دن تبدیلیوں نے تعلیم کا
ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کی بنیاد ہمیشہ مضبوط
رکھنی چاہیے ۔ مگر ہمارے حکمران تو ان طالب علموں کے ساتھ سراسر ناانصافی
کررہے ہیں۔گورنمنٹ کتابیں وقت پر مہیا نہیں کرتی اورکتابوں میں تبدیلی تو
ایسے ہوگئی جیسے ہربارہ ماہ بعدسال بدلتا ہے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ گورنمنٹ جوبچوں کی تعلیمی بنیاد رکھ رہے
ہیں وہ ایک پختہ بنیاد ہوگی؟وہ بچے مستقبل میں کیا کریں گے؟جوچیز ان کو
پرائمری میں پڑھنا چاہیے تھیں وہ تو کتابیں نہ ملنے اور پورا ٹائم نہ ملنے
کی وجہ ضائع ہوگیا ۔اب یہی حال مڈل کلاسز کے بچوں کا ہوگا۔جب رزلٹ آتا ہے
تو وہ پھر اتنا اچھا ہوتا ہے کہ جو دیکھے وہ عش عش کراٹھے۔ یہ تو بھلا ہو
پرائیویٹ سکولز کا جن کی وجہ سے رزلٹ 50فیصد تک آجاتا ہے ورنہ اگر گورنمنٹ
سکولز پر رہیں تو رزلٹ بیس تیس فیصد سے زیادہ نہ ہو۔
چند سال پہلے حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں بنیادی تعلیم یعنی پرائمری اور
مڈل کلاسز کے امتحانات ایک ساتھ کرانے کا فیصلہ کیا۔ جس کے لیے ایک پنجاب
ایگزامینشن کمیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔اس ادارے کے تحت صوبہ پنجا
ب میں پرائمری اور مڈل کے امتحانات لیے جاتے ہیں۔چند فیصد لوگ تو پہلے ہی
PECکے ساٹھ فیصد ٹک(چیک) کرنے والے امتحانی نظام سے متفق نہیں کیونکہ اس
میں تو نکمے سے نکما طالب علم بھی نقل کرکے ٹک کا نشان لگا لیتا ہے
اورامتحان میں باآسانی پاس ہوجاتا ہے۔
اس سال PECنے اپنے نظام میں ایک بار پھر تبدیلی کی اور تبدیلی بھی حدکی
کردی۔ ساراسال سکولوں میں بچوں معاشرتی علوم (مطالعہ پاکستان)پڑھایا گیا
۔دوسرے مضامین کی طرح اس کی بھی تیاری کرائی گئی مگرعین امتحان کے وقت پرجب
ڈیٹ شیٹ مارکیٹ میں آئی اس میں سے معاشرتی علوم کو غائب کردیا۔اس ادارے نے
معاشرتی علوم کا امتحان لینا بھی گوارا نہیں کیابلکہ سکولز کو کہہ دیا کہ
وہ خود اس مضمون کا امتحان لیں۔اگر سکول نے ہی امتحان لینا ہے تو پھر تمام
مضامین کے امتحان سکول کو لینے کی اجازت دے دیں یا پھر معاشرتی علوم کی جگہ
اس مضمون کا امتحان نہ لیں جس سے طالبعلم جان چھڑاتے ہیں۔
وہ مضمون جو ہماری نسل کے لیے بہت ضروری ہے ، جس کے پڑھنے سے بچوں کو پتہ
چلتا ہے کہ کون کون اس ملک کا ہیرو ہے کس کس نے اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے
اپنی جان کے نظرانے پیش کیے؟ کس کس مسلمان نے تاریخ میں مسلمانوں کے لیے
قربانیاں دیں ۔ان سب کو اجاگر کرنے کی بجائے انہیں فراموش کردیا۔شاید یہ
گورنمنٹ کی پالیسی ہے کہ آنے والی نسل کو علم ہی نہ ہو کہ ہمارے ملک کے لیے
کس کس نے خدمات سرانجام دیں؟معاشرتی علوم جیسے مضمون میں پاکستان کی تاریخ
پڑھائی جاتی ہے اور کوئی بھی طالبعلم نہیں چاہتا کہ پاکستان کی تاریخ کا
مطالعہ نہ کیا جائے۔ایک سروے کے مطابق ابتدائی تعلیم میں پاکستان کے پانچ
فیصد کے قریب طالب علم انگلش کو پسند کرتے اورباقی اس سے جان چھڑاتے ہیں۔
بہت سے طالبعلم صرف انگلش کے خوف سے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔ساٹھ فیصد کے قریب
طالب علم سائنس سے جان چھڑاتے ہیں ۔ پھر اگر تعلیم کے فرعونوں کو مضمون کم
کرنا تھا تو انگلش کو کردیتے یا سائنس کو۔طالب علم ان دونوں مضامین سے
زیادہ معاشرتی علوم کو پسند کرتے ہیں۔ اﷲ جانتا ہے کہ PECنے کیا سوچ کر اس
مضمون کا امتحان نہ لینے کا فیصلہ کیا؟یہی نہیں ہشتم سے عربی جیسے مضمون کا
بھی امتحان نہ لیا جا رہا ہے۔
معلوم نہیں ایجوکیشن ڈیپارنمنٹ پر کون لوگ قابض ہیں جو پاکستان کی تاریخ کو
اجاگر کرنے والوں کو مسخ کرنے اور ساتھ ہی قرآن کے مطالعہ کو بھی ختم کرنے
پر تُلے ہوئے ہیں۔ ویسے تو بہت کم لوگ ہیں جو قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہیں صرف
ایک عربی ہے جس سے بچے ابتداء سے ہی قرآن پاک کا ترجمہ پڑھتے ہیں۔ جب اس
طرح کی تعلیمی پالیسیاں مرتب ہونگی تو شرح خواندگی کاغذوں میں تو بڑھ سکتی
ہے مگرہمارے معاشرے کے لیے یہ ناسور ثابت ہوگی۔ |