بھارتی خواتین کا محافظ’’پستول‘‘

بھارت میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی کے مسلسل واقعات نے بھارت کی بڑی سیاحتی صنعت کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس حوالے سے وہاں کاروباری حلقوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات مسلسل بین الاقومی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بن رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں خواتین سیاحوں کی آمد میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارتی ایوان صنعت و تجارت کی جانب سے جاری کیے گیے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں سیاحتی سرگرمیوں میں مجموعی طور پر 25 فیصد کمی آئی ہے۔ تعطیلات کیلئے بھارت آنے والے غیر ملکی سیاح اب دیگر ایشیائی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں پچھلے سال کے متعلقہ عرصے کی نسبت ہندوستان کا سفر کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں پچیس فی صد کمی ہوئی ہے۔ ہندوستان کا سفر کرنے والے خواتین سیاحوں کی تعداد میں پینتیس فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس کی وجہ جنسی حملے کا خوف ہے۔ گزشتہ سال ماہ دسمبر میں پیش آنے والے اجتماعی آبروریزی کے واقعہ کے بعد بہت زیادہ سیاحوں نے ہندوستان جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد کم ازکم چھہ غیرملکی خواتین نے پولیس میں جنسی زیادتی کی رپورٹ کی ہے۔برطانیہ اور فرانس نے سفری ہدایات میں تبدیلی لاتے ہوئے بھارت کا سفر کرنے والے اپنے شہریوں، خاص طور پر خواتین کو انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی طرف سے یہ وارننگ چند روز پہلے ایک جرمن اور ایک ڈینش خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد جاری کی گئی ۔ دہلی میں ایک اکاون سالہ ڈینش خاتون سیاح کو اس وقت اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جب وہ اپنے ہوٹل کا راستہ پوچھنے کے لیے رک گئی تھیں۔ اس واقعے سے ایک دن پہلے ایک اٹھارہ سالہ جرمن لڑکی جنوبی بھارت میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنی۔ پولیس حکام کے مطابق ایک امدادی تنظیم کے لیے کام کرنے والی اس لڑکی کو رات کے وقت ٹرین پر سوار ایک مسافر نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔برطانوی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے، ’’خواتین مسافروں کو، یہاں تک کہ وہ گروپ میں بھی سفر کر رہی ہوں، بھارت کا سفر کرتے ہوئے احتیاط برتنی ہوگی۔‘‘ اسی طرح فرانسیسی حکومت نے ملکی خواتین کو ’انتہائی محتاط‘ رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے،’’ حالیہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ غیر ملکی خواتین کو کس طرح نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘اسی طرح جنوری کے آغاز میں پولینڈ کی ایک تینتیس سالہ خاتون کو مبینہ طور پر نشہ دے کر ریپ کیا گیا تھا۔ یہ خاتون اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ ٹیکسی کے ذریعے نئی دہلی جا رہی تھیں۔ ان واقعات نے بھارت میں ہونے والے جنسی تشدد کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے جبکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ بھارت میں بڑھتے ہوئے اجتماعی زیادتی کے واقعات خطرے کی ایک گھنٹی ہیں۔ بھارت کے ایسوسی ایٹڈ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران بھارت آنے والی خواتین سیاحوں کی تعداد میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ حالیہ واقعات اس میں مزید کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اب وہاں نوجوان لڑکوں کے لیے کئی ایسے پروگرام جاری ہیں، جن کا مقصد خواتین کے لیے احترام کو اجاگر کرنا ہے۔نئی دہلی میں گزشتہ دسمبر میں ایک بس میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے بعد سے بھارت میں کئی غیر سرکاری سماجی تنظیموں کی طرف سے ایسے پروگرام چلائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد نوجوان لڑکوں کو لڑکیوں اور خواتین کے احترام کی تربیت دینا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے لڑکوں کو تھیئٹر اور دیگر ذرائع سے جنسی امور کے بارے میں حساسیت اور مخالف صنف کے ساتھ عزت سے پیش آنے کا سبق دیا جاتا ہے۔بھارت کی آبادی میں مردوں کا تناسب خواتین کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ ہے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں خواتین کے تحفط کے حوالے سے صرف قانون ہی کافی نہیں ہو سکتے، جہاں مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہے۔ بھارت کی تین سب سے زیادہ آبادی والی ریاستیں بہار، اتر پردیش اور راجستھان ہیں۔ وہاں جاگریتی یوتھ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے نوجوانوں کے لیے مختلف لیڈرشپ پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔بھارت کی آبادی میں مردوں کا تناسب خواتین کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ ہے۔ سن دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق ملک کی قریب ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میں ہر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد صرف 943 بنتی تھی۔ اس کے علاوہ دو ہزار بارہ میں یونیسف نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں لڑکپن کے دور سے گزرنے والے شہریوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جو 243 ملین بنتی ہے۔ انڈیا میں خواتین کے تحفظ کیلئے ایک نئی پستول متعارف کروائی گئی ہے جس کا نام گذشتہ سال دلی میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو جانے والی طالبہ کے نام پر رکھا گیا ہے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ متاثرہ لڑکی کی یاد کی توہین ہے۔بھارت میں اسلحہ بنانے والی ایک ریاستی فیکٹری میں تیارہ کردہ اس پستول کا وزن صرف پانچ سو گرام ہے اور یہ 32 بور کا ریوالور ہے۔یہ پستول پندرہ فٹ تک اپنے ہدف پر درست نشانہ لگا سکتی ہے اور اس کا نام نربیک رکھا گیا ہے۔اگرچہ مرد بھی اسے استعمال کر سکتے ہیں، خواتین کو اس کی طرف راغب کرنے کے لیے اس کے ساتھ آپ ایک جولری کیس بھی خرید سکتے ہیں۔لفظ نربیک نربھایا کا مترادف ہے جو کہ بھارتی پریس نے بطور متاثرہ لڑکی کے نام کے استعمال کیا تھا۔ بھارتی قوانین کے تحت اس لڑکی کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں الفاظ کا ہندی زبان میں مطلب بے خوف ہوتا ہے۔پستولوں سے منسلک تشدد پر کام کرنے والی ایک تنظیم کی نیپرام کا کہنا ہے کہ پستول ہونے سے آپ زیادہ محفوظ نہیں ہوتے بلکہ آپ کو لاحق خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اگرچہ خواتین کے لیے ہلکے وزن کی پستول پر کام پہلے سے ہو رہا تھا لیکن گذشتہ سال کے واقعے کے بعد اس کام میں تیزی آئی ہے۔ اس پستول کی قیمت سوا ایک لاکھ بھارتی روپے کے قریب ہے۔ اس پستول کے متعارف کرنے کے بعد سے بھارت میں بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا اس سے خواتین زیادہ محفوظ ہوں گی کہ نہیں۔اس پستول کو خریدنے کی خواہش مند کانپور کی طالبہ پراتھیبا گپتہ کہتی ہیں کہ اگرچہ اس سے خواتین کو طاقت ضرور ملتی ہے مگر یہ بہت مہنگی ہے اور لائسنس لینا کافی مشکل کام ہے۔میرے سامنے والے کو اگر پتہ ہو کہ اس کہ پاس پستول ہے تو ڈرے گا۔ یہ پستول میری حامی، میری دوست اور میری طاقت ہوگی۔دلی ریپ کے بعد ملک میں اس معاملے پر کافی غم و غصہ دیکھا گیا اور بھارتی حکومت نے جنسی زیادتی کے بارے میں سخت تر قوانین متعارف کیے۔اس واقعے کے بعد خواتین نے دفاعی کلاسوں جیسی مختلف حفاظتی تدابیر کیں۔تاہم حیران کن حد تک خوفناک واقعات اب بھی اخباروں کی سرخیاں بن رہے ہیں۔دوسری جانب پستولوں کے ناقدین اس نئے انداز سے حیران ہیں۔غیر سرکاری تنظیم ویمن گن سروائیورز نیٹ ورک کی بانی بینا لکشمی نیپرام کہتی ہیں میں اس سے غصہ، خوفزدہ اور حیران ہوں۔وہ کہتی ہیں کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ریاست خواتین کو مسلح کرنے کی بات کر رہی ہے۔ حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین آئیں، یہ لیں پستول۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔پستولوں سے منسلک تشدد پر کام کرنے والی ایک تنظیم کی نیپرام کا کہنا ہے کہ پستول ہونے سے آپ زیادہ محفوظ نہیں ہوتے بلکہ آپ کو لاحق خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تنظیم کی تحقیق کے مطابق ایک مسلح انسان کے ہلاک ہونے کا امکان بارہ گنا زیادہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر لوگوں کی سالانہ آمدنی اس پستول کی قیمت سے زیادہ ہے تو یہ کیسے خواتین کو محفوظ بنائے گی۔

Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.